• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی مسائل کا حل ہونے کے باوجود بدقسمتی سے ملک میں آج کل نتیجہ خیز سیاسی گفتگو تعطل کا شکار ہے۔ ریاست کو اس نوبت تک پہنچانے کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ دونوں اطراف کے سیاستدان اپنی اپنی صداقت کے قائل ہیں۔ ایک فریق کے خیال میں ان کے تجویز کنندہ راہ پر چلنے میں ہی ریاست اور عوام کی بھلائی مضمر ہے جبکہ دوسرے فریق کی سوچ ہے کہ پسپائی ان کی سیاسی جدوجہد کو نقصان پہنچائے گی جہاں ایک فریق سابقہ حکمرانوں کی دھوکہ دہی کی ہوس سے بھرے ماضی سے نجات کے راستے کی نشاندہی کرتا ہے تو دوسرا فریق سوچتا ہے کہ ایسا کرنا سیاسی میدان سے انہیں حرف غلط کی طرح ختم کر دینے کی راہ ہموار کردے گا۔ سب سے زیادہ پریشان کن سوال یہ ہے کہ آیا فریقین ایک دوسرے کے خاتمے کی طرف مائل ہوجائیں گے یا پھر کچھ مشترکہ معاملات پر اتفاق رائے قائم کرکے مل جل کر کوئی دیرپا اور مثبت حل نکال سکیں گے اور پھر وقت کے ساتھ ساتھ اس میں مزید بہتری لائیں گے۔ اگر فریقین ایسا کوئی حل تلاش کر لیتے ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کی ذاتی مفادات پر مبنی ہٹ دھرمی کی پالیسی کی ملک و قوم کو کیا قیمت چکانی پڑے گی؟

گزشتہ ادوار میں پاکستان میں کبھی مارشل لا کا دور رہا تو کبھی سویلین حکومت قائم ہوئی ، اس سیاسی چپقلش کی وجہ سے پالیسیوں میں پیدا ہونے والے تعطل کے باعث جہاں کئی محاذوں پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا وہاں شفاف انداز حکمرانی اور بہتر نظم ونسق نہ ہونے کی وجہ سے بھی ملک کو کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا اس سیاسی عدم استحکام نے بدعنوانی اور جرائم کو پروان چڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچنے والے سیاستدان عوام کے بارے میں اپنی بنیادی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہے اور پیسے کی ہوس میں مبتلا حکمرانوں نے ساری توجہ اپنی تجوریاں بھرنے اور اثاثے بڑھانے پر مرکوز کئے رکھی۔پھر آہستہ آہستہ پیسے کی ہوس نے ایک وباکی صورت اختیار کرلی ،ذاتی پسند ناپسند کا کلچر پروان چڑھنے لگا ،ملک کو خطرے میں ڈالنے والی پالیسی یا ان سے نمٹنے کے طریقہ کار ، شفافیت اور احتساب کی عدم موجودگی الغرض اس وبا نے ہر شعبہ زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ برسوں پر محیط عدم مساوات کے کلچر سے مراعات یافتہ طبقہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا ۔

بہتر انداز حکمرانی موجودہ حکومت کے ایجنڈے پر نہ صرف موجود ہے بلکہ یہ ان کے بنیادی فلسفے کا ایک حصہ ہے اس سوچ کے باعث یہ خیال ابھرتا ہے کہ اب اشرافیہ کے کڑے احتساب کا وقت آن پہنچا ہے جنہوں نے غریب عوام کو ملکی وسائل سے محروم رکھا اور ساری توجہ اپنے اثاثے بڑھانے پر مرکوز کئے رکھی ، ایسے کرپٹ عناصر کو اپنے کئےکا خمیازہ بھگتنا ہوگا اور قومی خزانے سے لوٹی ہوئی پائی پائی کا حساب دینا ہوگا۔ کرپٹ عناصر کے خلاف ٹھوس شواہد ہونے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ احتساب کا شکنجہ سخت ہونے کے ساتھ ہی کرپٹ فریقین احتساب سے راہ فرار اختیار کرنا چاہتے ہیں۔ماضی میں جو فیصلے معقول مدت کے اندر ہونے چاہئےتھے انہیں اس امید پر جان بوجھ کر کئی کئی ماہ لٹکایا جاتا رہا کہ شاید ایک دن ایسے حالات پیدا ہو جائیں کہ معاملات خودبخود رفع دفع ہو جائیں۔ اس عمل میں وہ ادارے بھی برابر کے مجرم ہیں جنہیں ماضی میں جان بوجھ کر غیرفعال رکھا گیا کیونکہ اداروں کو بااختیار بنانا اور ان کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ماضی کے حکمرانوں کی کبھی ترجیح ہی نہیں رہا۔یہاں یہ بیان کرنا بھی قابل ذکر ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں نے لوٹ مار کا کاروبار صرف اپنی ذات تک محدود نہیں رکھا بلکہ اپنے چہیتوں اور چاپلوسوں کو بھی کھل کراس دھندے کی اجازت دی جس کے نتیجے میں ایک کرپٹ مافیا نے جنم لیا۔

بوسیدہ سیاسی سوچ کو جانچنے کا ایک مرحلہ صرف چند ہفتوں کی مسافت پر ہے ، حکومت نے ایوان بالا (سینٹ) کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرانے کی تجویز پیش کی ہے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نہ صرف عدالت عظمی سے مشورے کے لئے ریفرنس بھیجا ہے بلکہ مجوزہ آئین میں ترمیم کے لئے پارلیمنٹ سے بھی رجوع کیا ہے۔ سینٹ کے انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا فیصلہ ماضی میں ووٹوں کی وسیع پیمانے پر خریدوفروخت کے الزامات سامنے آنے کے بعد کیا گیا ہے تاہم تحریک انصاف ایسی سوچ رکھنے والی واحد جماعت نہیں بلکہ یہ عمل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان طے پانے والے ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ کا بھی حصہ ہے جس کی شق 23 میں اس کی حمایت کی گئی ہے۔اس حقیقت کے باوجود کہ سینٹ اور بلاواسطہ نشستوں پر انتخابات اوپن بیلٹ کے ذریعے کرواناتینوں بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور کا اہم جزو ہے لیکن تحریک انصاف کی طرف سے اس عملی جامہ پہنانے کی تجویز سامنے آنے کے بعد دونوں جماعتوں کی طرف سے مخالفت کرنا سراسر سیاسی موقع پرستی کے مترادف ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھاکہ محض ذاتی ایجنڈے کی تکمیل کے لئے سیاست کو ہتھیار کے طورپر استعمال نہ کیا جاتا۔پاکستان کو اس وقت درست سمت پر گامزن کرنے کی ضرورت ہے لیکن ایسا ملکی ترجیحات پر سودے بازی سے نہیں بلکہ احتساب کے کڑے اصولوں پر چل کر ہی ممکن ہے۔

پی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے اور اس اتحاد میں شامل جماعتیں ہوا میں معلق نظر آتی ہیں۔ ان لوگوں کی سوچ کے مطابق ایسی صورت حال سیاسی ہلاکت کے مترادف ہوگی لیکن اندرونی خلفشار کے باعث ان کے آگے بڑھنے کے راستے بھی محدود ہیں۔ ان خدشات کے پیش نظر ہوا میں معلق رہنا ایک مستقل عمل بھی ہو سکتا ہے۔

تازہ ترین