؎’’وہ رسولؐ، کن فیکوں کا جو راز داں…قدموں کی جس کے دھول، یہ تارے یہ کہکشاں…جو رابطہ ہے، خالق و بندے کے درمیاں…الفت میں جس کی خلق ہوئے ہیں، یہ دو جہاں…عرشِ بریں کے سَر کے لیے تاج ہوگیا…لمحات میں جو صاحب ِمعراج ہوگیا‘‘، یہ سُچّے موتیوں جیسے مصرعے کراچی سے تعلق رکھنے والے سیّد ریحان عبّاس رضوی کے ہیں، جو ایک استاد، صحافی اور قلم کار بھی تھے، لیکن بنیادی طور پر اُن کا طرّۂ امتیاز شاعری ہی رہی۔
سیّد ریحان عباس 7 جولائی 1958ء کو کراچی میں سیّد اقبال حسن رضوی کے گھر پیدا ہوئے۔ والدین نے سیّد ریحان عبّاس رضوی نام رکھا۔ کراچی کے علاقے، لیاقت آباد کی گلیوں میں جوان ہوئے، جہاں اُس زمانے میں اہلِ علم کی کثیر تعداد آباد تھی۔
ابتدائی تعلیم گورنمنٹ اسکول، لیاقت آباد سے حاصل کی، جب کہ ثانوی تعلیم کے لیے سراج الدّولہ کالج کا رُخ کیا، پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے جامعہ کراچی میں داخلہ لیا اور اُردو ادب میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔اپنے کیرئیر کا آغاز حریّت اخبار سے کیا۔ 1974 ء میں شاعری کا آغاز کیا، تو اُس وقت کے معروف شاعر، امید فاضلی کی شاگردی نصیب ہوئی۔اس سے قبل13 برس کی عُمر کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ریحان اعظمی نے نوحہ گوئی شروع کی اور سب سے پہلے ایک مرثیہ لکھ کر اپنے والد کو دِکھایا۔
اُنہوں نے کہا’’ اس کی اصلاح سبط حسن انجم سے کراؤ‘‘، جو اُس زمانے میں اردو مرثیہ تحت اللفظ کی ایک نایاب آواز اور شاعر بھی تھے۔ جب اُنھوں نے ریحان عبّاس کا مرثیہ پڑھا، تو دو، تین بار معنی خیز نظروں سے اُنھیں دیکھا اور کہا’’ اب تم گھر جاؤ، مَیں شام کو ملنے آؤں گا۔‘‘ شام کو جب گھر آئے، تو اقبال حسن رضوی سے کہا کہ’’ تمھاری طبیعت اور صحبت کا ثمر تمھیں ملنے والا ہے۔ مستقبل میں خُوب صُورت اندازِ فکر رکھنے والا شاعر صاحبانِ ادب کو میّسر ہوگا۔‘‘اور ایسا ہی ہوا۔ نہ صرف شاعری، بلکہ ڈاکٹر ریحان اعظمی کی نغمہ نگاری بھی بلندیوں کو چُھونے لگی۔
وہ طویل عرصہ پاکستان ٹیلی ویژن سے بحیثیت نغمہ نگار وابستہ رہے۔ اس دَوران4 ہزار سے زاید نغمات سپردِ قلم کیے، جن میں’’ ہوا ہوا، اے ہوا‘‘ اور ’’خوش بُو بن کر مہک رہا ہے، سارا پاکستان‘‘ جیسے نغمے شامل ہیں۔ ’’ہوا ہوا، اے ہوا‘‘ کو معروف گلوکار حسن جہانگیر نے گایا، جو بے حد مقبول ہوا۔ ریحان اعظمی پاکستان ہاکی ٹیم کے بہت اچھے کھلاڑی بھی رہے، تاہم کچھ عرصے بعد اُن کے اندر ایک ایسی تبدیلی آئی، جس نے اُن کی زندگی ہی بدل ڈالی۔شہرت کی بلندی پر رومانی شاعری کو خیر باد کہا اور حمد و سلام، نعت، نوحہ، منقبت اور مرثیے سے تعلق قائم کر لیا اور پھر باقی زندگی ان ہی کے لیے وقف کر دی۔
ریحان عبّاس کی شہرت کا ستارہ اُس وقت چمکا، جب مشہور نوحہ خواں، ندیم رضا سرور سے اُن کی جوڑی بنی اور دنیا اس نوجوان کو ڈاکٹر ریحان اعظمی کے نام سے جاننے لگی۔ اُنہوں نے ندیم سرور کے لیے دو نوحے لکھے ، جو مقبولِ عام ہوئے۔ریحان اعظمی اپنی کتاب’’ ایک آنسو میں کربلا‘‘ میں لکھتے ہیں کہ’’ندیم سرور 1986ء میں میرے پاس آئے اور مَیں نے دو نوحے لکھ دیے۔ اُس کے بعد سرور نے مکمل طور پر مجھ پر اکتفا کرلیا، یہی وجہ ہے کہ آج بھی میری وجہ سے سرور اور سرور کی وجہ سے مَیں، دنیا میں جہاں بھی اردو نوحہ سُنا جاتا ہے، جانے پہچانے جاتے ہیں۔‘‘
خود ندیم سرور کا کہنا ہے کہ’’ لوگ مجھ سے ریحان کے علاوہ کسی دوسرے کا کلام سُننا ہی نہیں چاہتے۔ میری آواز اور ریحان کا کلام ایک جسم، دو قالب کی حیثیت اختیار کر چُکے ہیں۔ مَیں خود بھی شاید کسی دوسرے کا کلام پڑھ کر مطمئن نہیں ہوں۔‘‘ ہر سال محرّم میں نوحہ خوانوں کی خواہش ہوتی کہ ریحان اعظمی اُنہیں اپنا کلام دیں تاکہ اُنہیں عوامی پذیرائی حاصل ہو۔ریحان اعظمی نے پچاس ہزار سے زاید نوحے تحریر کیے، جب کہ دس ہزار سے زاید منقبتیں بھی لکھیں۔رثائی ادب میں اُن کی 25سے زاید کتب شایع ہوچُکی ہیں، جن میں’’ نوائے منبر‘‘،’’ غم‘‘، ’’آیاتِ منقبت‘‘، ’’ایک آنسو میں کربلا‘‘ اور’’ریحانِ کربلا‘‘ شامل ہیں۔ ان کی کتب کے ہندی، گجراتی، سنسکرت، تامل اور رومن زبان میں بھی ترجمے ہوچُکے ہیں۔
ریحان اعظمی کو 1997 ء میں گنیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں ساتویں تیز ترین شاعری کرنے والے شاعر کا اعزاز ملا۔ اُنہوں نے بحثیت شاعر بھارت، برطانیہ، کوریا، چین، ایران، عراق، شام اور دیگر ممالک کا دَورہ بھی کیا۔ یہ بھی ایک قابلِ تقلید حقیقت ہے کہ اُنہوں نے کبھی کسی کلام کا ہدیہ نہیں لیا۔ ایک انٹرویو میں جب اُن سے سوال کیا گیا کہ’’ آپ کا کلام پڑھ کر لوگوں نے دولت کے انبار اور پذیرائی کے ریکارڈ توڑ ڈالے، آپ کو کبھی کسی نے کچھ دیا؟‘‘ تو اُنہوں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ’’ کوئی بھی نوحہ خواں بتائے کہ اُس نے کبھی کسی کلام کے لیے ریحان اعظمی کو ایک پائی بھی دی ہو۔‘‘
ریحان اعظمی نے عالمی اور قومی سطح پر کئی تمغے اپنے نام کیے، تاہم ایک انٹرویو میں اُنھوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ’’ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں اُنھیں صدارتی ایوارڈ کے لیے نام زد کیا گیا، وزیرِ اعلیٰ ہاؤس سے مبارک باد کے پیغامات بھی موصول ہوئے، مگر صبح جب اخبار میں پڑھا، تو ایوارڈ کسی اور کو دے دیا گیا تھا۔‘‘۔جب کراچی میں ٹارگٹ کلنگ زوروں پر تھی، تو اُنھوں نے شہر کی حالتِ زار اور قتل و غارت پر بھی اشعار کہے۔چند اشعار ملاحظہ فرمائیں؎ ’’اب تو بس ایک کام شہر میں ہے…طے شدہ قتل ِعام شہر میں ہے…بہہ رہا ہے گلی گلی میں لہو…بے خطا انتقام شہر میں ہے…اُٹھ رہے ہیں گلی گلی تابوت…بس یہی صبح و شام شہر میں ہے…پانی منہگا ہے، خون سستا ہے…پھر بھی زندہ عوام شہر میں ہے۔‘‘
اِس بلند مرتبہ شاعر نے کئی برسوں تک مسلسل اپنے قلم کی طاقت، نظریات و احساسات، حُبِ اہلِ بیتؓ، کربلا سے تمسّک، حضرت امام حسینؓ اور اُن کے جاں نثار ساتھیوں سے والہانہ عشق کا مظاہرہ اپنے کلام کی صُورت کیا۔ریحان اعظمی کے کئی شہرہ آفاق نوحے میر حسن میر، حسن صادق رضا زیدی، افتخار زیدی اور دیگر نوحہ خوانوں نے بھی پڑھے۔
لوگ اُن سے قبروں کے کتبوں کے لیے بھی اشعار لکھواتے، جو وہ کسی فیس کے بغیر خندہ پیشانی سے لکھ دیا کرتے۔ کئی بار سخت علیل ہو کر اسپتال میں داخل رہے، یہاں تک کہ اُن کی موت کی خبریں تک نشر ہوگئیں، مگر موت کا دن 26 جنوری 2021ء ہی معیّن تھا۔ اُنھیں طبیعت خراب ہونے پر کراچی کے ایک نجی اسپتال لے جایا گیا، جہاں وہ جانبر نہ ہو سکے۔
اُنھوں نے دو بیٹوں کو سوگوار چھوڑا۔ چھوٹے بیٹے، ارسلان اعظمی بھی معروف شاعر ہیں۔ ریحان اعظمی کو جہاں دیگر بہت سے صدمات سہنے پڑے اور زندگی میں کافی اونچ نیچ دیکھی، وہاں اُن کے لیے جواں سال فرزند، سلمان اعظمی کی موت کا صدمہ بھی بہت ہی بھاری تھا۔ ایک باپ کے لیے اِس سے بڑھ کر کیا صدمہ ہوسکتا ہے کہ اُس کا جواں سال فرزند اُس کے ہاتھوں میں جان دے دے۔
اُنہوں نے جواں سال بیٹے کی جدائی کا غم سہا اور اس غم پر اہلِ بیتؓ کی خوشی کو مقدّم رکھ کر پُرسہ دینے والوں سے التجا کی کہ’’ آج اہلِ بیتؓ کی خوشی کی تاریخ ہے، آج جشن کی محفل ہوگی، بیٹے کا پُرسہ ہمیں بعد میں دیجیے گا۔‘‘ ریحان اعظمی نے نوحے اور مرثیے میں نئے اسلوب متعارف کروائے۔ نئی نسل کے شعراء کے لیے سوچ کے نئے زاویے متعیّن کیے۔ بلاشبہ، اُردو اد ب میں اُنھیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا ۔