• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نو منتخب اراکین اسمبلی نے اگلے ہفتے حلف اٹھانا ہے جس کے فوراً بعد ٹی وی ٹاک شوز میں ان سے لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے تابڑ توڑ سوالات کئے جائیں گے ۔چونکہ اس اسمبلی میں 119نئے چہرے بھی شامل ہیں جنہوں نے اس سے پہلے کبھی حکومت کی شکل نہیں دیکھی ،ان کی آسانی کے لئے میں نے لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے ایک سوالنامہ بمع جوابات ترتیب دیا ہے تاکہ ان نونہالوں کو” غیر جانبدار“ میڈیا کا سامنا کرنے میں دشواری نہ ہو۔ میرا مشورہ ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے اراکین کو یہ پرچہ حل کرنے کے لئے دیں اور جو ممبران اس میں پاس ہو جائیں انہیں سبّی میں دو دن مفت قیام کا کوپن دیا جائے جبکہ فیل ہونے والوں کو چار دن کا مفت کوپن انعام میں دیا جائے !
سوال : پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کیوں ہوتی ہے ؟
جواب: پاکستان کے پاس بجلی پیدا کرنے کی کل صلاحیت 18,176میگا واٹ ہے جس میں سے16,316 میگاواٹ قابل بھروسہ صلاحیت ہے اور اس میں سے بھی گرمیوں میں ہم فقط 14,442میگا واٹ ہی پیدا کر پاتے ہیں ۔جبکہ بجلی کی طلب اس وقت 20,500میگا واٹ سے تجاوز کر چکی ہے لہٰذا ہمیں 6,000میگا واٹ کے خسارے کا سامنا ہے ۔
سوال : بجلی کا ایک یونٹ بنانے پر آخر کتنا خرچہ آتا ہے ؟
جواب: پن بجلی جو منگلا اور تربیلا ڈیم میں بنتی ہے اس کا خرچہ 1.54فی یونٹ ہے ،کوئلے سے بنائی جانے والی بجلی کا یونٹ 4.50روپے کا ہے ،گیس کا یونٹ 6.50روپے کا ہے ،تیل کی بجلی پر 16.50روپے فی یونٹ لاگت آتی ہے ،ڈیزل سے بنائی جانے والی بجلی 21روپے فی یونٹ تک مہنگی ہے،ہوا سے بجلی بنانے کی لاگت 11روپے فی یونٹ اور جس کا ہم سب سے زیادہ ڈھنڈورا پیٹتے ہیں یعنی سولر انرجی، اس کے ایک یونٹ پر 19روپے کا خرچ آتا ہے۔
اب ہم چونکہ اپنے تئیں دنیا کی عظیم اور ذہین ترین قوم ہیں جس نے پہلے روسیوں کے دانت کھٹے کئے اور کل کلاں کو افغانستان سے امریکی فوج کے انخلا کے بعد فتح کا جشن منانے کا ارادہ رکھتے ہیں (چاہے اس جشن کے دوران بجلی ہی کیوں نہ چلی جائے )لہٰذا ہم نے یہ فرض کر رکھا ہے کہ سولر انرجی غالباً مفت کی بجلی ہوتی ہے اور محض سورج کی طرف منہ کر کے دیکھنے سے حاصل ہو جاتی ہے اور جس دن حکومت نے سورج سے بجلی بنانی شروع کی ،مسئلہ چٹکیوں میں حل ہو جائے گا ۔آپ راہ چلتے کسی رکشے والے سے پوچھ لیں وہ بھی آپ کو یہی حل بتائے گا اور ساتھ میں کہے گا ”اگر مجھے حکومت دے دیں تو میں ”تینی منٹی“ لوڈ شیڈنگ ختم کردوں!“
سوال:ڈیم نہ بنانے کی وجہ سے ہم بجلی کی قلت کا شکار ہیں ، اس سے ہمیں سالانہ کتنے ارب کا نقصان ہو رہاہے ؟
جواب: بھاشا ،داسو،بنجی یا کالا باغ ڈیم کی پیداوار کا تخمینہ اگر 12ارب یونٹ سالانہ بھی لگایا جائے اوراسے 1.54روپے فی یونٹ سے ضرب دی جائے تو حاصل 18.48ارب آئے گا جو کہ صاف ستھری اور زر مبادلہ سے پاک سستی بجلی کی کل لاگت ہوئی۔جبکہ دوسری طرف اگر ہم تیل سے بجلی پیدا کریں تو 12ارب یونٹوں کا سالانہ خرچہ 16.50روپے فی یونٹ کے حساب سے 198ارب روپے ہوگا یعنی پن بجلی کے مقابلے میں 179ارب روپے زائد اور تیل کا امپورٹ بل اس کے علاوہ ۔ہو ر کی حال اے!
سوال: کہا جاتا ہے کہ چھوٹے گھریلو صارفین کے لئے بجلی کا یونٹ سستا ہے اور حکومت انہیں اس مد میں 150ارب کی سبسڈی دے رہی ہے ،کیا یہ بات درست ہے ؟
جواب : درست ہے مگر جائز نہیں ہے ۔دنیا بھر میں معاشیات کا اصول ہے کہ تھوک میں چیز سستی ہوتی ہے اور پرچون میں مہنگی جبکہ یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے اوراس کی توجیہ یہ دی جاتی ہے کہ چھوٹا صارف چونکہ غریب ہے اس لئے حکومت اسے سبسڈی دیتی ہے ۔سبحان اللہ۔اس منطق کو cross subsidyکہا جاتا ہے کیونکہ یہ سبسڈی حکومت نہیں دے رہی بلکہ وہ صارف دے رہا ہے جسے حکومت 15روپے کا بجلی کا یونٹ فروخت کر رہی ہے۔اگر کسی غریب صارف کو سبسڈی دینی ہے تو اسے بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت براہ راست دیں نہ کہ وایا بھٹنڈہ جائیں!
سوال: سارا دن اونگھنے کے علاوہ نیپرا کے افسران کیا کام کرتے ہیں ؟ نیز ان کے تیار کردہ ٹیرف فارمولے پر روشنی ڈالیں۔
جواب : نیپرا کے افسران اونگھنے کے علاوہ مکھیاں مارنے کا کام بھی نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں ۔ان کا مقرر کردہ ٹیرف کا فارمولا اس قدر پیچیدہ ہے کہ اسے سمجھنے کے لئے آرشمیدس کو قبر سے نکال کرزندہ کرنا پڑے گا۔دیو قامت ادارے نیپرا نے بجلی کا ٹیرف اس مفروضے پر بنایا ہے کہ جو صارف 50یونٹ تک بجلی استعمال کرتا ہے وہ پن بجلی ہوتی ہے جبکہ جو شخص 2000یونٹ بجلی استعمال کرتا ہے وہ تیل سے پیدا کی جاتی ہے ۔ اس سے زیادہ مضحکہ خیز مفروضہ ممکن نہیں۔ٹیرف مقرر کرنے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں ،پہلا یہ کہ ملک میں علاقائی ٹیرف ہو ،یعنی جہاں بجلی کی جتنی چوری ہو اسی حساب سے وہاں ٹیرف مقرر کیا جائے تاکہ اس علاقے کے عوام بجلی چوری کے خلاف ایک پریشرگروپ قائم کر لیں۔دوسرا،پورے ملک میں یکساں ٹیرف ہو تاکہ پتہ تو چلے کہ جتنی بجلی پیدا ہو کر تقسیم کی جارہی ہے اس کی وصولی روپے کی شکل میں کتنی ہوئی اور کتنا نقصان ہوا؟مثلاً اگر اوسطاً10روپے فی یونٹ ٹیرف مقرر ہو تو سالانہ استعمال شدہ یونٹوں کو ضرب دے کر آمدن کا حساب تو لگایا جا سکے ۔جبکہ یہاں تو حال یہ ہے کہ نیپرا کے افسران کی فوج ظفر موج میں سے کسی کو پوچھ لیں کہ جو فارمولا انہوں نے بنا رکھا ہے ذرا اس کی تشریح کردیں تو انہیں نانی یاد آجائے گی۔
سوال: لوڈ شیڈنگ پورے ملک میں یکساں کیوں نہیں ہے ، لاہور اور کراچی کی لوڈ شیڈنگ میں زمین آسمان کا فرق کیوں؟
جواب: ہم اس ملک میں رہتے ہیں جہاں سرخ بتی پر گاڑی روکنے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے ،لاہور میں بجلی کی ریکوری کی شرح 95%سے زیادہ ہے جبکہ کراچی میں KESCکی آشیر باد سے جو کنڈا نظام رائج ہے اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ، اس جرم میں 1998میں KESC کے ایم ڈی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔نیشنل گرڈ میں سے پنجاب کے حصے کی 650میگا واٹ بجلی KESCکو دی جاتی ہے جو کہ ایک پرائیویٹ کمپنی ہے اور رونا پھروہیں کا وہیں کہ پنجاب استحصال کرتا ہے ۔حالانکہ حقیقت حال یہ ہے کہ بلوچستان کے پاس اپنی آبادی پر خرچ کرنے کے لئے پنجاب سے دس گنا زیادہ رقم ہوتی ہے ۔پنجاب کا بجٹ 780ارب ہے جبکہ آبادی میں اس کا حصہ 55%سے زیادہ ہے ،بلوچستان کا بجٹ 183ارب جس کا آبادی میں حصہ 5%،سندھ کا بجٹ 580ارب اور آبادی میں حصہ 24%جبکہ خیبر کا بجٹ 313ارب اور آبادی میں حصہ 14%۔
سوال: لوڈ شیڈنگ کیسے ختم کی جا سکتی ہے ؟
جواب: اگر ہماری قوم کے توانائی کے ضیاع کے ضمن میں یہی لچھن رہے تو لوڈ شیڈنگ ختم نہیں ہو گی ۔بالفرض اگر جادو کی چھڑی سے چشم زدن میں پانچ چھ سو ارب کے قرضے ختم بھی کر دئیے جائیں تو اگلے ہی دن وہ قرضے پھر چڑھنا شروع ہو جائیں گے کیونکہ واپڈاایک ایسی دکان ہے جو اپنا مال اپنی خرید سے کم پر بیچنے پر مجبور ہے ۔دنیا میں کوئی کاروبار ایسے نہیں چلتا!
تازہ ترین