• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چین میں کینیڈا کے سفارتخانے نے باضابطہ بیان جاری کرتے ہوئے حالیہ سفارتی بدمزگی پر معذرت کا اظہار کیا ہے، دونوں ممالک کے مابین صورتحال کشیدہ کرنے کی وجہ چینی میڈیا میں یہ خبریں بنیں کہ کینیڈا کے سفارتی عملے کے کچھ ممبرز نے ایسی ٹی شرٹس آرڈر کی ہیں جن میں چینی علاقہ ووہان کا نام اور چمگادڑ کی شبہیہ کنندہ ہیں، ووہان چین کا وہ علاقہ ہے جہاں سب سے پہلے کورونا وباء پھوٹی تھی اور اس کی وجہ مبینہ طور پر چمگادڑ کے گوشت کو سمجھا جاتا ہے،چین نے یہ ناپسندیدہ واقعہ منظرعام پر آنے کے بعد کینیڈا سے سخت احتجاج کا فیصلہ کیا، مذکورہ واقعہ چین کی بڑی ٹیلی کام کمپنی کے سربراہ کی بیٹی کی کینیڈا میں حالیہ گرفتاری کے تناظر میں عوامی سطح پر شدیدغم و غصہ کا باعث بنا ہے، چین سمجھتا ہے کہ چینی خاتون کو امریکہ کے ایماء پر حراست میں لیا گیا ہے اوریہ کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کے چار سالہ دورِ اقتدار میں امریکہ کا جھکاؤ واضح طور پر چین کے مخالف تائیوان کی جانب رہا، امریکی ایماء پر تائیوان نے ایسے مختلف اقدامات اٹھائےتاکہ بیجنگ حکومت کو اشتعال دلایا جاسکے،چین نے بارہا خبردار کیا کہ امریکہ کی جانب سے تائیوان کو ایف سولہ سمیت جدید ہتھیاروں کی فراہمی کے ردعمل میںامریکہ کے ساتھ اقتصادی روابط منقطع کئے جاسکتے ہیں،تاہم ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے ہواوے ٹیلی کام، موبائل ایپ ٹک ٹاک سمیت مختلف چینی اداروں پر پابندی لگا دی ، ڈونلڈ ٹرمپ نے آن ریکارڈ کورونا کو چائنیز وائرس قرار دے کر عالمی سطح پر چین مخالف جذبات کو ہوا دینے کی بھی کوشش کی ۔ امریکہ کے نومنتخب صدر جوبائیڈن کو بھی صدارت کا منصب سنبھالتے ہی سفارتی سطح پر چین سے الجھنا پڑ گیا ہے، تائیوان کی گستاخیوں پر چین کی وزارتِ دفاع کے ایک ترجمان نے پریس کانفرنس میں کہاہے کہ ہم بڑی سنجیدگی سے تائیوان میں آزادی کی خواہش رکھنے والی قوتوں پر واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ تائیوان کی آزادی کا مطلب چین سے کھلی جنگ سمجھا جائےگا، اپنے ردعمل میں جوبائیڈن نے چین کے بیان کو بدقسمتی قرار دیا ہے۔ چین کو امریکہ کی نئی حکومت کی جانب سے تائیوان کی حمایت جاری رکھنے اور ایشیا کیلئے خارجہ پالیسی کو واضح کرنے کے حوالے سے مختلف تحفظات ہیں، آسٹریلیا کی لبرل پارٹی کے سینیٹر اور سابق آرمی جنرل جم ملن پہلے ہی تائیوان کے ایشو پر چین اور امریکہ کے مابین جنگ کی پیش گوئی کرچکے ہیں، آسٹریلوی ممبر پارلیمان کا کہنا ہے کہ امریکہ کی چین سے اقتصادی جنگ عنقریب جنوبی چین کے سمندروں میں عسکری تصادم کا روپ دھارلے گی، چین کے خلاف آسٹریلیا کو اپنے دفاع کی تیاریاں شروع کردینی چاہئے۔امریکہ چین کی جانب سے بحیرہ جنوبی چین میں مصنوعی جزیروں پر فوجی اڈوں کی تعمیر کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتا ہے، مذکورہ سمندری علاقے پرچین کے مختلف پڑوسی ممالک برونائی، ملائیشیا، فلپائن، انڈونیشیا اور ویتنام وغیرہ بھی دعویٰ دار ہیں۔خطے میں امریکہ کا قریبی اتحادی جاپان اس علاقے میں چین کی بحری سرگرمیاں کوتشویشناک قرار دیتا ہے، جاپان کا موقف ہے کہ بیجنگ حکومت مشرقی اور جنوبی چین کے سمندروں میں صورتحال کو اپنے حق میں بدلنے کیلئے کوشاں ہے۔تائیوان کے حوالے سے چین کی دیرینہ پالیسی صبروتحمل پر مبنی رہی ہے، چینی قیادت کا خیال ہے کہ ہانگ کانگ کے نقش قدم پرآخرکار ایک دن تائیوان بھی عظیم چین کا حصہ بن جائے گا لیکن چین کی سمندری حدود کے قریب حالیہ فوجی سرگرمیوں، جنگی جہازوں کی غیرمعمولی پروازوں اور بحری نقل و حرکت نے چین کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔دوسری طرف ہانگ کانگ میں حالیہ ہنگامہ آرائی نے چین کی سفارتی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے، سیکورٹی کے ایک قانون کو وجہ تنازع بناتے ہوئے بہت سے مغربی ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ وغیرہ کھل کر چین کی مخالفت پر اتر آئے ہیں اورہانگ کانگ کے احتجاجی مظاہرین کی بھرپور حمایت کررہے ہیں ۔ہانگ کانگ ماضی میں ایک برطانوی نوآبادی تھا جس کا انتظام 1997ء میں چین نے پرامن انداز میں حاصل کرلیا تھا، تاہم ہانگ کانگ میں متعارف کرائے گئے نئے سیکورٹی قانون کی آڑ میں برطانیہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنی اس سابق کالونی کے شہریوں کو پانچ سال تک برطانیہ میں رہائش کے اجازت نامے جاری کرتے ہوئے برطانوی شہری بننے کا حق بھی فراہم کرے گا، دوسری طرف چینی حکومت نے لندن حکومت کی طرف سے ہانگ کانگ کے شہریوں کو جاری کردہ برطانوی پاسپورٹ کو سفری اور شناختی دستاویزات کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔تھائی لینڈ میں سویز کینال کی طرز پر کرا کینال بنانے کا منصوبہ کم و بیش تین سو سال پرانا ہے ، اس نہر کی لمبائی صرف ساٹھ میل ہوگی لیکن بحیرہ جنوبی چین اور بحر ہند کو منسلک کرنے سے بحری جہازوں کاکم از کم چھ سو میل کا فاصلہ کم ہو جائے گا، چین ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے تحت تھائی لینڈ کے ساتھ اس نہر کے پروجیکٹ میںسرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی رکھتاہے، تاہم میڈیا اطلاعات کے مطابق امریکہ، آسٹریلیا اور بھارت چین کو اس عظیم الشان منصوبے سے باہر رکھ کر خود تھائی لینڈ کے ساتھ مشترکہ معاہدہ کرنے کیلئے سرگرم ہوگئے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ رواں صدی چین کی صدی ہے اورمستقبل قریب میں چین کا قائدانہ کردار مزید دبنگ انداز میں سامنے آئے گالیکن چین کی اقتصادی کامیابیوں سے خائف عالمی و علاقائی طاقتوں کی جانب سے چین کا گھیراؤ کرنے کی کوششیں عالمی امن کیلئے بڑا خطرہ ہیں،میرے خیال میں عالمی منظرنامے پر جاری نئی سرد جنگ کے منفی اثرات لامحالہ طور پر پاکستان پر پڑنے کا خدشہ ہے، ہمیں ایسی نازک صورتحال میں کسی نئے تصادم سے بچتے ہوئے خارجہ محاذ پر بہت سمجھداری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین