• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اعجاز احمد، اسلام آباد

کسی ملک پر ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا، جس کے تین بیٹے تھے۔ جب شہزادے جوان ہوئے تو بادشاہ اور ملکہ کو ان کی شادی کی فکر ہوئی۔انہوں نے کئی لڑکیاں دیکھیں لیکن ان میں کوئی بھی ان کے مطلوبہ معیار پر پوری نہیں اتری۔ بادشاہ نے منادی کرادی کہ اس کی تمام رعایا محل کے قریب میدان میں اکٹھی ہوجائے۔ جب سب لوگ وہاں آگئے تو بادشاہ نے تینوں شہزادوں کے ہاتھ میں تیر اور کمان دئیے اور اعلان کیا کہ جس شہزادے کا تیر، جس گھر میں جاکر گرے گا اس کی شادی اسی گھر کی لڑکی سے کردی جائے گی۔ دو شہزادوں نے تیر چلائے تو بادشاہ کے محل کے قریب مقیم وزیروں کے گھروں میں جاکر گرے۔

بادشاہ نے ان شہزادوں کی شادی کا اعلان کردیا لیکن چھوٹے شہزادے نے جب تیرچلایا تو وہ کہیں گرنے کی بجائے پرواز کرتا ہوا دور ہوتا گیا۔ بادشاہ، ملکہ، وزیر اور وہاں موجودساری رعایا حیران تھی کہ کہ یہ تیسراتیر اتنی تیز رفتاری سے کہاں جارہا ہے۔ بادشاہ نےاپنے سواروں کو حکم دیا کہ اس تیر کا پیچھا کیا جائے ۔

انہوں نے تیز رفتار گھوڑوں پراس کا پیچھا کیا، جب کہ بادشاہ ، ملکہ اور تینوں شہزادے بھی اپنے گھوڑوں پر ان کے پیچھے دوڑے ۔ تیر اڑتا رہا اور وہاں سے کوسوں دور جنگل میں ایک بڑے درخت پر جاگرا ۔اس درخت پر ایک بندریا بیٹھی تھی،یہ ماجرا دیکھ کر بادشاہ اور ملکہ دونوں پریشان ہوکر ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے جب کہ دونوں شہزادے اپنے چھوٹے بھائی کا مذاق اڑانے لگے ۔بندریا نے جب چھوٹے شہزادے کو پریشان دیکھا تو کہا کہ ’’شہزادے پریشان نہ ہو، میں بندریا نہیں ہوں بلکہ ایک جادوگرنی نے اپنے سحر کے ذریعے مجھے بندریا بنادیا ہے‘‘۔’’ اگر تم، یہاں موجود سب لوگوں کے سامنے مجھ سے شادی کا اعلان کردو تو میں تمہارے سامنے ایک خوبصورت پری کے روپ میں ظاہر ہوجاؤں گی‘‘۔ 

شہزادے نے جونہی بندریا سے شادی کا اعلان کیا وہ بندریا ایک خوبصورت پری بن کر سب کے سامنے آگئی۔ بادشاہ ،ملکہ اور چھوٹا شہزادہ اسے دیکھ کربہت خوش ہوئے۔ دونوں بڑے شہزادے انتہائی حسرت سے اس حسین و جمیل پری کو دیکھ رہے تھے۔ بادشاہ اور ملکہ خوشی خوشی پری کو لے کر اپنے محل کی طرف روانہ ہوگئے ۔اگلے دن بڑی دھوم دھام سے ان کی شادی ہوگئی۔چند دنوں کے بعد بادشاہ نے تینوں شہزادوں کے ولیمے کی تقریب کے انعقاد کا اعلان کیا جس میں تمام رعایا کو دعوت عام دی گئی۔

جادوگرنی کوجب بندریا پری کی شہزادے سے شادی اوردعوت ولیمہ کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ بھی بھیس بدل کر بادشاہ کے محل میں پہنچ گئی ۔ دعوت طعام میں جب سب لوگ کھانے پینے میں مصروف تھے تو وہ چپکے سے اٹھی اور پری کے قریب جاکر اس پر دوبارہ سحر پھونکا اور وہاں سے چلی گئی۔ اس کے جانے کے بعدپری کے پروں میں آگ لگ گئی اس نے چیخنا شروع کردیا ’’ ہائے میں جل گئی‘‘ ’’ ہائے میں جل گئی‘‘۔پری اسی حالت میں اڑتی ہوئی جنگل کی طرف گئی اور اسی درخت کے قریب جاکر گری جس پر وہ پہلے رہتی تھی ۔

آگ سے اس کا پورا جسم جھلس گیا تھا اور وہ دوبارہ پری سے بندریا بن گئی۔بادشاہ کے ملازم جو پری کے ساتھ ساتھ گھوڑے دوڑاتے ہوئے اس کے پیچھے گئے تھے، انہوں نے شہزادے کوواپس آکر بتایا۔اسے پری کی حالت کا سن کر بہت دکھ ہو اور اس نے بادشاہ سے جنگل میں پری کے گھر جانے کی اجازت طلب کی ۔اس کے باپ نے اس کی حفاظت کے لیے ایک دستہ تیار کیااور اجازت دے دی۔ 

شہزادہ جنگل کی طرف روانہ ہوگیا۔ چلتے چلتے اندھیرا ہوگیا توانہوں نے ایک درخت کے نیچے رات گزارنے کا فیصلہ کیا۔ اس درخت پرکبوتر کا گھونسلہ تھاجس میں وہ اپنی مادہ کے ساتھ رہتا تھا۔کبوترنے جب شہزادے اور اس کے قافلے کو پریشان حال دیکھا تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اس نے کبوتر ی سے کہا، ’’ تمہیں پتہ چلا آج ایک بہت افسوس ناک واقعہ پیش آیاہے‘‘۔ کبوتری نے پوچھا ’’وہ کیا ‘‘؟ کبوتر نے اسے پری کا پورا واقعہ سنایا۔ کبوتری کو یہ سن کر بہت افسوس ہوا اور کبوتر سے کہنے لگی کہ’’ میں نے اپنے بزرگوں سے سنا ہے کہ یہاں سے چند کوس دور’ ’کالے گلاب کا باغ ‘‘ ہے ۔اس کے پتوں کی یہ تاثیر ہےکہ گہرے سے گہرا گھاؤ اور جلنے کے زخم ان کے لگانے سے فوراً اچھے ہوجاتے ہیں ، یہاں تک کہ ان کے نشان بھی باقی نہیں رہتے۔‘‘ ’’اگر شہزادہ، اس باغ کے تازہ پتے ،پری کے جلے ہوئے زخموں پر لگادے تو اس کے زخم فوراً ٹھیک ہوجائیں گےاور وہ اپنی اصل صورت میں واپس آجائے گی‘‘۔

شہزادہ جو پرندوں کی زبان سمجھتا تھا، کبوتری کی باتیں سن رہا تھا۔ صبح ہوتے ہی اس نےاپنے ہرکاروں کو گلاب کے باغ کی طرف پتے لانے کے لیے روانہ کیا۔ وہ دشوار گزار راستے پر سفر کرکے گلاب کے پودے کے پتے لانے میں کامیاب ہوگئے ۔شہزادہ انہیںلے کر پری کے درخت کی طرف گیا۔ پری نے جیسے ہی اپنے دولہا کو دیکھا تو وہ پھوٹ پھوٹ کررونے لگی۔ شہزادے نے اسے تسلی دی اور اس کے زخموں پرگلاب کے پتے لگا دیئے۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کے سارے زخم ٹھیک ہوگئے۔شہزادے نے پری سے اس ظالم جادوگرنی کےملنے کا پتہ معلوم کیا۔

اس نے اونچی پہاڑی کی طرف اشارہ کیا اور کہا کہ’’ جادوگرنی کے گھر جانا اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنے کے برابر ہے کیونکہ اس نے دروازے پر خونخوار شیر بٹھائےہوئے ہیں وہ گھر کے قریب آنے والے کو چیر پھاڑ کررکھ دیتے ہیں۔اگر ان شیروں کو مار کر جادوگرنی تک پہنچ بھی جاؤ گے تو اس کا خاتمہ مشکل ہوگا۔ اس کی جان ایک طوطے میں ہے ، جس کے پنجرے کےاردگردموذی قسم کے ناگ پہرہ دے رہے ہیں۔ آپ کو بہت احتیاط کرکے طوطے کا خاتمہ کرنا ہوگا جب وہ جادو گرنی مرے گی‘‘۔

شہزادے نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کیااورچند سپاہیوں کو شہزادی کے پاس چھوڑ کراپنےدیگر ساتھیوں کے ساتھ پہاڑی کی طرف روانہ ہوگیا ۔ اس نے شیروں کی خوراک کے لیے اپنے ساتھ چند بکریاں بھی لے لی تھی۔ جونہی شہزادہ اور اس کے ساتھی جادوگرنی کے گھر کے قریب پہنچے، خوں خوار شیران کی طرف لپکے۔شہزادے اور اس کے ساتھیوں نے شیروں کے آگے بکریاں ڈال دیں، بھوکے شیر بکریاں کھانے میں مصروف ہوگئے۔

انہیں پیٹ بھرنے میں مشغول دیکھ کر شہزادے اور اس کے ساتھیوں کو اندر جانے کا موقع مل گیا۔ وہ گھر کے اندر داخل ہوئے اور طوطے کا پنجرہ لے کر باہر آکر پری کے درخت کی طرف گھوڑا دوڑاتے ہوئے بھاگے ۔ وہاں پہنچ کر شہزادہ نے طوطے کو پنجرے سے نکالا اور اس کی گردن مروڑدی جس سے طوطا مر گیا۔ اس کے مرتے ہی جنگل میں ہر طرف کالی آندھی چلنے لگی، جس کے ساتھ جادوگرنی کی چیخوں کی آوازیں آنے لگیں۔

تھوڑی دیر بعد پہاڑی پر جادوگرنی بھی تڑپ تڑپ کر مرگئی اور پری پر اس کے جادو کا اثر ختم ہوگیا ۔ شہزادہ پری کے پاس آیا توپری اسے دیکھ کر مسکرانے لگی۔وہ پری کو لے کر واپس محل کی طرف چل پڑا۔ بادشاہ اور ملکہ ان دونوں کو دیکھ کربہت خوش ہوئے ۔اس کے بعد وہ سب مل کر ہنسی خوشی رہنے لگے۔

تازہ ترین