• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عشاق حضرات سخت پریشان ہیں…کھانا کھانے سے لے کر ٹی وی دیکھنے کے آداب تک کتابیں موجود ہیں لیکن کسی کتاب میں عشق کے آداب نہیں ملتے۔ کچھ شعر البتہ موجود ہیں لیکن اُن میں بھی طریقہ کار سے زیادہ پرفارمنس کو موضوع سخن بنایا گیا ہے۔ ایسے میں مناسب معلوم ہوتا ہے کہ عشاق کی رہنمائی فرمائی جائے تاکہ وہ ویلنٹائن ڈے پر زیادہ بہتر طور پر عشق فرما سکیں۔

دوستو بزرگو! چونکہ اِس روز پھول دیے جاتے ہیں لہٰذا سب سے پہلے تو اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ پھول سے مراد گلاب کا پھول ہے۔ کئی انجان عاشق ناتجربہ کار ہونے کی وجہ سے محبوب کو سورج مکھی یا گیندے کا پھول بھی پیش کردیتے ہیں اور جواب میں حسبِ توفیق ذلیل ہوتے ہیں۔ یاد رہے کہ عاشق ناتجربہ کار ہو سکتا ہے، محبوب بہت تجربہ کار شخصیت ہوتی ہے۔ سو پہلے تو اپنی حیثیت کے مطابق گلاب کا ایک پھول یا گلدستہ منتخب کریں اور ایک لسٹ بنا لیں کہ کس کس محبوب کو کیادینا ہے۔ اگر آپ کا محبوب آپ کی بیگم ہے تو پھول کی بجائے خالی پتے سے بھی کام چل سکتا ہے لیکن اگر ٹارگٹ کہیں اور ہے تو پھر گلدستہ ضروری ہے۔ واٹس ایپ والے پھول ناقابلِ قبول ہیں۔ محبوب اگر آپ کا گلدستہ نیم دلی سے قبول کرے تو سمجھ جائیں کہ اُسے موصول ہونے والے ڈیڑھ سو گلدستوں میں آپ کا گلدستہ سب سے چھوٹا اور ناکارہ ہے۔ کبھی محبوب سے یہ نہ پوچھیں کہ ’کیا کسی اور نے بھی تمہیں پھول بھیجے ہیں؟‘، بس یوں سمجھ لیں کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ محبوب سانجھے ہوتے ہیں۔ عین ممکن ہے کسی عاشق کی والدہ بیمار ہوں اور اُن کی دوائیاں لانی ہوں، پیسے کم ہوں، کوئی مسئلہ نہیں، گھر آکر پریشان سا منہ بنا لیں اور ماں کو بتائیں کہ پیسے کہیں گر گئے ہیں۔ مائیں ایسے موقعوں پر پیسوں کی بجائے اپنے بیٹوں کے چہروں کی پریشانی دیکھ کر سب کچھ بھول جاتی ہیں۔ یہ تو اتنی سادہ ہوتی ہیں کہ اِنہیں سال میں ایک دن پھول دینے کی بجائے ان کی پیشانی چوم لی جائے یا اِن کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جائیں تو یہ سارا سال اِس خوشی میں نہال رہتی ہیں۔ ابا جی ویسے ہی پھول پیش کرنے والی شخصیت نہیں ہوتے، انہوں نے تو ہمیں زندگی میں کچھ دیا ہی نہیں ہوتا، ہم کسی معجزے کے نتیجے میں خود ہی بڑے ہو جاتے ہیں، پڑھ لکھ جاتے ہیں اور ذہین ہو جاتے ہیں۔ رہ گئے بہن بھائی… تو انہیں بھی پھول دینے کی ضرورت نہیں، ہو سکتا ہے بھائی خود کسی کو پھول دینے گئے ہوں اور بہن کو پھولوں کی ضرورت ہی نہ ہو…!!!

دوبارہ آتے ہیں محبوب کی طرف۔ کئی عشاق یہ بھیانک غلطی کر بیٹھتے ہیں کہ ہر گلدستے پر متعلقہ محبوب کا نام لکھ دیتے ہیں۔ اس سے احتیاط لازم ہے کیونکہ ذرا سی لاپروائی سے شکیلہ کا گلدستہ جمیلہ کے پاس جا سکتا ہے۔ ویلنٹائن ڈے پر چاکلیٹ اور کھلونا ریچھ بھی تحفے میں دیا جاتا ہے۔ غریب عاشق چاہیں تو چاکلیٹ کی جگہ گچک، اور اپنی تصویر گفٹ کر سکتے ہیں۔ اکثر جب عاشق محبوب کو پھول اور تحفہ پیش کرتے ہیں تو ساتھ ہیI love youبھی کہتے ہیں اور پھر منتظر رہتے ہیں کہ دوسری طرف سے بھی کوئی رسید ملے گی لیکن عموماً محبوب ساری بات ’’کھی کھی کھی‘‘ کرکے اڑا دیتا ہے۔ سو بہترین حل یہ ہے کہ انگریزی کا ایک چھوٹا سا لفظ ساتھ لگائیں اور سکون پائیں…یعنی صرف اتنا کہیں کہ I love you too …!!!

اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ ویلنٹائن ڈے پر عاشق محلے کی ہی کسی دکان سے پھول خرید لیتے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟ حضور بھول کر بھی یہ حرکت نہ کریں۔ کم از کم پانچ کلو میٹر فاصلے والی دکان سے پھول خریدیں اور دکاندار سے بھائو تائو ہرگز مت کریں۔ ہزار دشمن موجود ہوتے ہیں، کوئی بھی موبائل سے فوٹو یا وڈیو بنا سکتا ہے لہٰذا دکاندار جو مانگے اُسے پیش کریں اور جتنی جلدی ہو لال پھولوں والے اِس’ریڈ ایریا‘ سے نکل جائیں۔ اگر آپ کے پاس موٹر سائیکل ہے تو گلدستہ ہینڈل کی تاروں میں سجانے کی بجائے سائیڈ والے بیگ میں ڈال لیں کیونکہ عین ممکن ہے راستے میں کسی ویلنٹائن کے سالے سے ملاقات ہو جائے اور وہ گلدستے سمیت آپ کے موٹر سائیکل کا بھی ’انتم سنسکار‘ کر دے لیکن اگر آپ کے پاس گاڑی ہے تو فکر کاہے ؟ اطمینان سے ڈگی میں گلدستہ بلکہ گلدستے رکھیں۔ اب کرنا یہ ہے کہ یہ گلدستے بالکل اسی طرح بانٹنے ہیں جیسے بکرا عید پر گوشت کے پیکٹ بانٹے جاتے ہیں۔ عفیفائوں کے گھروں کی لسٹ بنا لیں اور گوگل میپ سیٹ کر لیں۔ جن سے باہر ملاقات طے ہے انہیں ہر دو گھنٹے بعد کا وقت دیتے چلے جائیں۔ اکثر عاشقوں کا شکوہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے پر اُن کا بہت خرچہ ہو جاتا ہے۔ یہ بالکل سچ ہے لیکن اتنے اچھے تہوار پر ایسی باتوں کے بارے میں نہیں سوچتے۔ کالج کی فیس تو پھر بھی ادا ہو سکتی ہے، والد صاحب کی وہیل چیئر تو مہینے بعد بھی آ سکتی ہے، بہن کی شادی بھی تھوڑی لٹک سکتی ہے، ویلنٹائن ڈے تو سال بعد ہی آئے گا۔ ایک اور بات، اکثر عاشق یہ سمجھتے ہیں کہ 14فروری کو اگر انہوں نے اپنے محبوب کو پھول پیش نہ کیے تو قیامت آجائے گی۔ تسلی رکھیں، یہ کام 15کو بھی سرانجام دیا جا سکتا ہے، 15کو ویلنٹائن خواب میں آکر نہیں ڈراتا۔ سرخ رنگ کا یہ تہوار مغرب سے آیا ہے لیکن اس سے کیا ہوتا ہے، انٹرنیٹ، ٹی وی، ٹیلی فون، پینٹ، شرٹ، بجلی، عینک وغیرہ یہ بھی تو مغرب سے ہی آئے ہیں، مشرق سے تو صرف شکوہ آتا ہے۔ تو بسم اللہ کیجئے۔ غیروں کو پھول دیجئے اور جواباً پیار کے دو بولوں کی خیرات کے لیے ترستے رہیے۔ رات کو جب گھر واپسی پر سو فیصد اپنے اور دل کی گہرائیوں سے پیار کرنے والے پوچھیں کہ ’’اتنی لیٹ؟ خیریت تھی ناں، دل گھبرا رہا تھا؟‘‘ تو غرا کر کہئے ’’بس بس! میں کوئی بچہ نہیں‘‘…

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین