میرے دادا نے مجھے ایک نصیحت کی تھی کہ ’’پتر سچائی، انصاف، شیریں زباں اور اخلاص سے اپنے لوگوں کی خدمت کرتے رہنا، اسی طرح تم شکر گڑھ کے محبت کرنے والے لوگوں کے دل جیتو گے‘‘۔ میرے داد نے مجھے بتایا کہ جب انہوں نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تو وہ اپنے آبائی گاؤں شکر گڑھ گئے اور گور داس پور کی سرحد پر واقع خوبصورت وادی کو دیکھتے ہوئے عہد کیا کہ میں مرتے دم تک اپنے علاقے کے مظلوم اور غریب لوگوں کیخدمت کرتا رہوں گا۔ اس خدمت کے اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے جب انہوں نے آواز لگائی تو رفتہ رفتہ ان کی حمایت میں ‘‘قافلہ’’ تشکیل پاتا گیا اور پھر وقت نے ثابت کیا کہ وہ ہر غم اور خوشی میں بلا امتیاز شکر گڑھ کے لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے رہے۔ میری دادی کیتھی نے بھی دادا کے خدمت کے مشن کو آگے بڑھایا اور ہر مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا۔ میری دادی نے مشی گن یونیورسٹی سے گریجویٹ کی ڈگری مکمل کی اور دادا کی معاونت کے لئے ماری پور میں مقیم رہیں۔میرے دادا کے گھر ’’ڈیرہ انور عزیز‘‘ کا کوئی دروازہ نہیں ۔ ستونوں سے گزرتا ایک بڑا راستہ ہے جو شکر گڑھ کے تمام لوگوں کے لئے ہر وقت کھلا رہتا ہے۔ یہاں پر آنے والے تمام لوگوں کے لئے وسیع دستر خوان بھی لگا رہتا جبکہ دادا کے کمرے میں آنے والے ہر شخص کو بڑی چاہ اور گرم جوشی سے چائے بھی پلائی جاتی تھی۔ علاقے کے لوگوں کی دادا سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی میں گاؤں میں ان کے کمرے میں سوتا تو ان کے فون کی گھنٹی مسلسل بجتی رہتی۔ میں نے ایک دن دادا سے پوچھا کہ آپ کیسے اتنی ساری فون کالز سن لیتے ہیں؟ وہ مسکراتے ہوئے بولے ’’پتر مجھے ان لوگوں سے پیار ہے، ان کے بغیر میں کچھ بھی نہیں، یہ لوگ میرا مان ہیں‘‘۔
جب لوگ اپنے مسائل لے کر دادا جی کے پاس آتے تو دادا کی ہر ممکن کوشش ہوتی کہ اُن کا مسئلہ جلد از جلد حل ہو جائے۔ مجھے اپنے دادا کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا تھا۔ جب کبھی تعزیت، پیدائش، شادی اور بیمار بزرگوں کی ’تیماداری‘ پر جانا ہوتا تو وہ مجھے نہایت نفیس آواز کے ساتھ بلاتے ’چوہدری صاحب لوگ آپ کا انتظار کر رہے ہیں، جلدی سے آجائیں‘۔
میرے دادا نے ﷲ کی مدد، محنت اور روحانیت سے اتنی عزت حاصل کی۔ میں نے بھی اپنے دادا کے ساتھ عظیم بزرگوں حضرت داتا علی ہجویریؒ، بری امامؒ اور گولڑہ شریفؒ کے درباروں پر حاضری دی۔ میرے دادا نے ہمیشہ مساوات اور انصاف کا علم بلند کئے رکھا۔ وہ مجھے کہا کرتے تھے کہ سچائی اور حق گوئی کے ساتھ پُراعتماد اور نڈر ہونا آپ کا اولین مقصد اور منزل ہے۔ مجھے ایک بار انہوں نے بتایا جب میری عمر صرف آٹھ ماہ تھی تو وہ اور بابا مجھے اپنے ساتھ تیراکی کے لئے ایک بڑے تالاب پر لے گئے تھے۔ یہاں میں بتاتا چلوں کے میرے دادا نے 1948کی اولمپکس میں تیراکی کے مقابلے میں بھی حصہ لیا تھا، انہیں تیراکی سے بےحد لگاؤ تھا۔ مجھے تیراکی کا شوق اُنہی سے میراث میں ملا ہے۔ میرے دادا ماحولیاتی تحفظ کے حوالے سے اپنے دور میں سب سے آگے تھے اور انہوں نے شکر گڑھ میں رہائش پذیر ہونے کے بعد شجر کاری مہم کا آغاز بھی کیا۔ میرے دادا کے ڈیرے کے سامنے ایک بہت بڑا جنگل ہے۔
چند سال پہلے جب میں قد میں ان کے برابر ہو گیا تو وہ بہت خوش ہوئے اور تھوڑے عرصے بعد جب میں ان سے چند انچ لمبا ہو گیا تو ہر ایک سے فخر سے ذکر کرتے کہ ’’ساڈا پوترا ساڈے توں لماں ہو گیا ہے جے‘‘۔ دادا مثبت علم اور تجربات بانٹنے والوں میں سے تھے، انہوں نے میری، خاندان اور گاؤں کے دیگر نوجوانوں کی اپنی حکمت کے ذریعے ہماری سمجھ آنے والی زبان میں تربیت کی تاکہ ہم لوگ زندگی میں بہتر طریقے سے آگے بڑھ سکیں۔ وہ ہمیشہ عمر کے پیمانوں سے آزاد نئی چیزیں سیکھنے کے خواہشمند رہتے تھے۔ انہیں شاعری سے خاص شغف تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ انہوں نے میرے لئے میاں محمد بخش ؒکا یہ شعر پڑھا تھا:
دنیا تے جو کم نہ آیا اوکھے سوکھے ویلے
اس بےفیضے سنگی کولوں بہتر یار اکیلے
پڑھائی میں محنت کے باوجود اگر میں کلاس میں اول نہیں آتا تھا تو میرے والد میری رہنمائی کرنے کے ساتھ ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے جبکہ دادا مجھے مزید محنت کرنے، علم سے آگے بڑھنے اور نام روشن کرنے کا درس دیتے۔ بابا اور دادا کی رہنمائی سے میں سخت محنت کرنے کا عادی ہو گیا ہوں اور ان شاء ﷲ میں اپنے دادا، اپنے بابا، اپنے علاقے اور پاکستان کا نام ضرور روشن کروں گا۔ہم نے دادا کی 90ویں سالگرہ خاموشی سے منائی کیونکہ یہ پھوپھو کرن کی وفات کے فوراً بعد تھی۔ اُس شام وہ اپنی عمر سے خاصے بڑے دکھائی دے رہے تھے ۔اُسی شام وہ مجھے مخاطب کر کے بولے’’تگڑے رہنا چوہدری صاحب‘‘ اورچند دن بعد میں بابا کے ساتھ انہیں قبر میں اتار رہا تھا۔ دادا آپ چلے گئے لیکن میرے پاس کھڑے ہونے کے لئے آپ کے ’’تگڑے‘‘ کندھے موجود ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ میں آپ کی میراث کو ان شاء ﷲ جاری رکھوں گا اور آپ کے دئیے درس کے مطابق شکر گڑھ کے لوگوں کی خدمت کرتا رہوں گا۔