• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
انتہائی پرجوش اور بال کی کھال اتارنے والے ملکی و غیر ملکی میڈیا کی موجودگی میں اہم سیاسی شخصیات کو بے حد محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کھلی ڈھلی گپ شپ کا زمانہ لد گیا۔ اب تو منہ سے نکلی کوٹھوں پر چڑھی والا معاملہ ہے۔ کہی ہوئی بات کی تردید بھی نہیں کی جاسکتی کیونکہ وہ کہیں نہ کہیں ریکارڈ ہوچکی ہوتی ہے اور اس کی فوٹیج لمحہ بھر میں فلیش کی جاسکتی ہے۔ ایسے میں وطن عزیز کی اعلٰی سیاسی قیادت کیلئے لازم ہے کہ جلوت میں ہی نہیں خلوت میں بھی افعال و گفتار کے حوالے سے بے حد محتاط رہے۔ الفاظ کے چناؤ میں خاص طور پر حددرجہ احتیاط برتی جائے۔ ہر سوال کا جواب دینا بھی ضروری نہیں، اسے گول مول کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کے کسی بھی لفظ اور جیسچر کو کوئی بھی معنی پہنایا جاسکتا ہے۔الیکشن میں نمایاں کامیابی کے بعد میاں محمد نواز شریف نے 12مئی کو رائے ونڈ میں ملکی اور غیر ملکی میڈیا پر مشتمل ایک نیوز کانفرنس کو ایڈریس کیا تھا۔ ایک بھارتی صحافی کے سوال کے جواب میں کہ ”کیا آپ اپنی حلف برداری کی تقریب میں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو شرکت کی دعوت دیں گے؟“ میاں صاحب کا جواب تھا کہ ”اگر موصوف تشریف لائیں‘ تو انہیں خوشی ہوگی۔“ میاں صاحب تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم بننے جارہے ہیں، جو بلاشبہ بڑے اعزاز کی بات ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حلف برداری ایک آئینی تقاضہ اور ضابطے کی کارروائی ہے۔ کسی شہنشاہ کی تاجپوشی نہیں ہوتی کہ اس کا ڈھنڈورہ چہار دانگ عالم میں پیٹا جائے اور عالمی سربراہوں کو شرکت کی دعوت دی جائے مگر صحافی حضرات اپنی پیشہ ورانہ تربیت اور ضرورت کے تحت سوال اس طور تراشتے ہیں کہ خبر تخلیق کی جاسکے۔ جس میں موصوف کامیاب رہے۔ بھارتی میڈیا اور سفارتی حلقوں کو بات کا بتنگڑ بنانے اور پوائنٹ اسکورنگ کا موقع ہاتھ آگیا۔ چنانچہ اسٹوری کچھ یوں ڈویلپ کی گئی کہ ”پاکستان کے پرائم منسٹر ان ویٹنگ میاں نواز شریف نے دونوں ملکوں کے مابین سفارتی تعلقات میں بہتری کی غرض سے بھارتی وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کو حلف برداری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی ہے، جسے بھارتی وزیراعظم نے رد کردیا ہے۔“ اسے کہتے ہیں میڈیا کا کرتب اور سفارت کاری کا کرشمہ، کہ ایک بالکل ہی فرضی اور بے بنیاد اسٹوری دنیا بھر میں فلیش کردی جسے ہر جگہ دلچسپی سے سنا ہی نہیں گیا، دلچسپ تبصرے بھی ہوئے۔لوز بال پر چھکا پڑ جانا یقینی ہوتا ہے مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ مذکورہ پریس کانفرنس میں میزبان کی طرف سے کوئی ایسی ڈھیلی بال نہیں آئی تھی، مگر بھارتی میڈیا اور سفارتی حلقوں نے اسے پھر بھی باؤنڈری سے باہر پھینک دیا۔ فی الحقیقت یہ بھارت کی سوچی سمجھی حکمت عملی ہے، کہ پاکستان کو مسلسل دباؤ میں رکھا جائے عشروں سے پاکستان، انڈیا کی وکٹ پر کھیلتا آیا ہے، مذاکرات سفارتکاری کا بنیادی ٹول ہوتے ہیں۔ مگر حد تو یہ ہے کہ انڈیا مذاکرات کے تسلسل کا بھی پاکستان پر احسان جتاتا آیا ہے اور لنگڑے لولے بہانوں پر معطل کرتا رہا ہے۔ نومبر 2008ء کے ممبئی حملوں میں بھلا حکومت پاکستان کا کیا رول تھا؟ اگر چند سر پھروں نے کوئی کارروائی کی، تو انڈیا، پاکستان میں ہونے والی ایسی بیسیوں کارروائیوں میں ملوث ہے۔ دہشت گردی کی اس واردات کے بعد پاک، بھارت مذاکرات کا عمل دفعتاً رک گیا تھا۔ جس کے اجراء کیلئے پاکستان تین برس تک سر پٹختا رہا۔ سربجیت سنگھ کی کہانی تو سیدھی سادی تھی۔ بھارتی جاسوس اور دہشت گرد، چودہ بے گناہ پاکستانیوں کا قاتل، جیل میں پھانسی کے دن گن رہا تھا کہ قیدیوں کی آپس کی لڑائی میں مارا گیا تو بھارتی حکومت نے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا اور اسے فوجی ہیرو کا مقام دیا گیا۔ اس کی ارتھی اس شان سے اٹھی تھی کہ بڑوں بڑوں کو رشک ہورہا تھا۔ معاملہ یہیں ختم نہیں ہوا۔ جموں جیل میں بند ثناء اللہ نامی ایک پاکستانی قیدی کو جواباً کم و بیش اسی انداز میں مروا دیا گیا۔ اس پر مستزاد یہ کہ خواجہ غریب نواز کے عرس کی تقریبات میں شرکت کیلئے پابہ رکاب چھ سو پاکستانی زائرین کو یہ کہہ کر اجیمر شریف آنے سے منع کردیا کہ بھارتی حکومت انہیں سیکورٹی مہیا کرنے سے قاصر ہے۔تعلقات انسانوں کے درمیان ہوں یا ریاستوں کے، برابری کی سطح پر ہوں، تو ہی اچھے لگتے ہیں۔ باقی سب تو رہا ایک طرف، بھارت تو مذاکرات کا بھی پاکستان پر احسان دھرتا ہے۔ بھارت کے حلیم اور وضعدار وزیر خارجہ سلمان خورشید بھی اپنے ایک انٹرویو میں اس سوچ کا اعادہ کرچکے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ممبئی حملوں جیسی دہشت کی کسی نئی واردات کی صورت میں پاک بھارت مذاکرات کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا وہ جاری رہیں گے؟ جواب ملا کہ ”اس سلسلے میں کوئی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی۔ دو طرفہ تعلقات کو بڑھاوا دینے کے حوالے سے موصوف نے کہا کہ غلطیوں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ پیش قدمی احتیاط کے ساتھ کی جائے۔ پیس پراسیس کی رفتار پر خاص توجہ دینا ہوگی، جو نہ اتنی تیز ہو کہ قابو سے باہر ہو جائے اور نہ اتنی سست کہ عوام مایوس ہوجائیں۔“ کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی! پاک، بھارت تعلقات کے حوالے سے بھارت کا محتاط رویہ انٹلیکچول سطح پر بھی برابر دکھائی دیتا ہے۔ دسمبر 2012ء میں ٹائمز آف انڈیا اور جنگ گروپ کے ”امن کی آشا“ پروگرام میں سابق بھارتی سفیر نریش چندرا ن چتاؤنی دی تھی کہ تنازعات کو ایک طرف رکھ کر آگے کا کوئی نقشہ کیونکر تیار کیا جاسکتا ہے؟ جبکہ سابق سیکرٹری خارجہ شیام سرن کا کہنا تھا کہ ”ماضی کو بہرصورت یاد رکھنا چاہئے۔ دونوں ملکوں کے مابین مسائل ہیں اور وہ تصادم کی راہ پر رہے ہیں۔ ٹریک ٹو ڈائیلاگ سمیت ماضی کی کاوشیں کسی ٹھوس نتیجہ پر نہیں پہنچ پائیں لہٰذا پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ ایسے میں اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ فریقین کے مابین کوئی عظیم الشان پیش رفت ہوجائے گی۔ تو خام خیالی ہے۔
حیرت کی بات ہے کہ یہ سب جانتے ہوئے بھی پاکستانی قیادت بھارت کے ساتھ یکطرفہ عشق میں مبتلا رہی ہے اور ہند یاترا کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ صدر زرداری ایک بار ہو آئے تو دوسری وزٹ کیلئے موقع کی تلاش میں رہے۔ انڈیا، پاکستان کرکٹ میچ کے بہانے پابہ رکاب تھے مگر ذیل کی جانب سے حوصلہ افزائی نہ ہوئی۔ رسی سہی کسر ششماہی وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے نکال دی۔ وزارت عظمیٰ کا آخری ہفتہ چل رہا تھا کہ چالیس عدد اعزاء و اقرباء کو سرکاری طیارے میں بھرا اور بن بلائے جے پور کے مستقر پر لینڈ کرگئے اور اجمیر شریف میں خواجہ غریب نواز کی حاضری کے بعد یہ قافلہ اسی شام پاکستان لوٹ آیا تھا۔ کسی نے شب بسری کا بھی نہ کہا۔ راجہ صاحب کی اس حرکت سے قوم کی جو سبکی ہوئی، اس کا ازالہ شاید کبھی نہ ہوسکے۔رہا وزیر اعظم منموہن سنگھ کا دورہ پاکستان تو ابھی تک موصوف نے اسلام آباد سے جانے والے دعوت ناموں کو کوئی لفٹ نہیں کرائی۔ اس حوالے سے نئی دہلی کی اپنی پالیسی لائن ہے۔ جس کا تذکرہ وزیر خارجہ سلمان خورشید ایک انٹرویو میں کرچکے کہ ”وزیراعظم منموہن سنگھ کی جلد پاکستان یاترا کا کوئی امکان نہیں، کیونکہ وزیراعظم نہیں چاہتے کہ آمد و رفت بے نتیجہ رہے، ان کا دورہ اس وقت ہوگا جب تیاری مکمل ہو اور پاکستان کی طرف سے پیش قدمی ہو۔“ منموہن سنگھ بذات خود بھی پاکستان کے دورہ کی دعوت کو بڑی خوبصورتی سے رد کرچکے ہیں کہ ”آنا چاہتا ہوں، مگر ابھی وقت مناسب نہیں۔“
یہ انڈین مائنڈ سیٹ کی ایک جھلک ہے۔ جس کے ہمنوا زندگی کے ہر شعبے میں موجود ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو بھی بلاوجہ واری صدقے جانے کی ضرورت نہیں۔ بے شک تجارت کھول دیں، ویزے کی پابندیاں نرم کردیں اور پسندیدہ ترین قوم کا اسٹیٹس بھی دے دیں۔ مگر ذہن اور آنکھیں کھول کر رکھیں۔ غیر ضروری جذباتیت انسانوں کے درمیان تو چل جاتی ہے بین الریاستی امور میں مشکلات پیدا کرسکتی ہے۔
نوٹ… گزشتہ کالم ”سربجیت سنگھ کا پروٹوکول معاملہ کچھ اور ہے“۔ میں کمپوزر کی غلطی سے میکموہن لائن کو بار بار میکوہن لائر لکھا گیا۔ قارئین درست فرمالیں)
تازہ ترین