• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ برس قبل میں خواجہ غلام فریدؒ کے دربار پر تصوف کے حوالے سے پروگرام ’’من صوفی‘‘ کی ریکارڈنگ کے لئے حاضر ہوئی تو تفصیل سے کچھ دن راجن پور اور گرد و نواح کو دیکھنے اور حالات و واقعات کا ادراک کرنے کا موقع ملا۔ بہت کچھ بہت عجیب لگا۔ دل میں گرہ سی بندھ گئی۔ محرومی اور تشنگی کا احساس لئے چہرے اور آنکھیں سوالوں کی طرح میرے احساس میں سمو گئے۔ لاہور میں وہاں سے تعلق رکھنے والے دوستوں کے ایکڑوں پر پھیلے محلات کا باقی علاقے سے موازنہ ایک خیالی کہانی لگتی تھی۔ حد تو یہ تھی کہ زیادہ تر سفید پوش لوگ ایک وقت کی پیٹ پوجا کے لئے اردگرد کے علاقوں سے پیدل چل کر دربار کے دستر خوان سے مستفید ہونے کے لئے آتے تھے۔ سردار عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تعیناتی شاید ان نظر انداز کئے گئے علاقوں کے لوگوں کی آہوں اور دعائوں کا نتیجہ تھا۔ شاید یہ بھی مدنظر ہو کہ پسماندہ ترین اضلاع کو مزید پسماندگی سے بچانے کے لئے سیاحت اور معیشت دونوں کو یوں ترقی دی جائے کہ لوگوں کو روزگار بھی ملے اور وہ ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کر کے فخر محسوس کریں۔

36 اضلاع اور 11 کروڑ سے زائد کی آبادی والے صوبے میں صرف گنجان آباد شہر اور شہری بابو ہی نہیں بستے بلکہ ایسے علاقوں، قبیلوں، میدانوں، چٹانوں اور ریگستانوں میں بسنے والے لاکھوں لوگ بھی ہیں جن سے شاید بہت سے لوگ ابھی تک نا واقف ہوں کیونکہ یہ میڈیا کی آنکھ سے اوجھل ہیں اور روایتی سیاستدان ان کی منہ دکھائی کے قائل بھی نہیں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار نے بڑے شہروں میں بڑے منصوبوں پر اپنے نام کی تختی لگانے کی بجائے نظرانداز کئے گئے علاقوں کو اپنی ترجیح بنایا۔ اسی سلسلے میں گزشتہ دنوں انہوں نے راجن پور کے دور افتادہ علاقوں کا دورہ کر کے وہاں کے زمینی مسائل کا معائنہ کیا اور ان کے حل کے لئے متعلقہ محکموں کو مؤثر لائحہ عمل مرتب کرنے کو کہا۔ متعدد منصوبہ جات کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور تکمیل کو پہنچنے والے منصوبوں کا افتتاح بھی کیا گیا۔ پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع راجن پور کی تقدیر بدلنے کیلئے بڑے عملی اقدام کی ضرورت تھی یہی وجہ ہے کہ اس ضلع کو پنجاب کا ترقی یافتہ ضلع بنانے کے لئے 14 ارب روپے کا ترقیاتی پیکج دیا گیا جو بذاتِ خود ایک ایسا کارنامہ ہے جو اس سے قبل یہاں سے منتخب ہونے ہونے والا کوئی بھی سیاسی رہنما سرانجام نہ دے سکا۔ کہتے ہیں خدا جس سے راضی ہوتا ہے اسے خدمتِ خلق کا فریضہ سونپتا ہے۔ یہ بزدار کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے دور میں ہی پسماندہ علاقوں کی ترقی میں عملی دلچسپی لی جبکہ دیگر بڑے بڑے سیاسی رہنما جو یہاں سے منتخب ہوتے رہے انہوں نے ملک کے بڑے شہروں میں بڑی بڑی جائیدادیں ضرور بنائیں مگر ان لوگوں کو نظرانداز کر دیا جن کی وجہ سے وہ حکمرانی کے اہل بنتے رہے۔

خدمتِ خلق کا فریضہ ذاتی دلچسپی اور روحانی فیض کا متقاضی ہوتا ہے۔ ایسے لوگ بند کمروں میں بیٹھ کر پالیسی بنانے کے فرسودہ نظام کا حصہ نہیں بنتے بلکہ عمل کے میدان میں نکل کر ان لوگوں کی آواز بنتے ہیں جن کو حکومتی سطح پر پذیرائی نہیں حاصل ہوتی۔ پنجاب کی مساوی ترقی کے لئے اس طرح کے اقدامات قیامِ پاکستان سے فوراً بعد شروع ہو جاتے تو آج پورا پنجاب خوشحال ہوتا۔ بہرحال امید ہے کہ اب قبائلی علاقوں میں بسنے والے لاکھوں لوگ بھی صحت اور دیگر ضروریات سے استفادہ حاصل کر سکیں گے۔ انہیں ایمرجنسی میں ہسپتال پہنچنے کیلئے دوسرے شہروں کا سفر نہیں کرنا پڑے گا،یقیناً یہ کاوش اس علاقے کو سیاحتی اعتبار سے بھی نمایاں کرے گی اور معاشی استحکام کا باعث بھی بنے گی۔ یونیورسٹی آف راجن پور، گرلز ڈگری کالج روجھان اور لڑکوں اور لڑکیوں کے 20اسکولوں کا قیام اس بات کا شاہد ہے کہ تعلیم اس علاقے کو جگمگانے والی ہے۔ یہاں کے طالب علموں کو اپنے علاقے میں سکول، کالج اور یونیورسٹیاں مہیا ہوں گے تو وہ تعلیم کی طرف زیادہ رغبت محسوس کریں گے۔ مزید برآں صحت کے شعبے میں مدر اینڈ چائلڈاسپتال، نرسنگ کالجز کی تعمیر کے علاوہ سڑکوں کی تعمیر و بحالی، فراہمی اور نکاسی آب کے منصوبہ جات کے ساتھ ساتھ دربار خواجہ غلام فریدؒ کی توسیع اور راجن پور شہر کی تزئین و آرائش، کھیلوں کے وسیع میدان کے منصوبوں کے علاوہ 13 برساتی نالوں پر ڈیم بنانے کے لائحہ عمل پر تیزی سے کام جاری ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کی حفاظت کے لئے ریسکیو 1122 سروس متعارف کروائی جا رہی ہے جو شہریوں کے لئے ہنگامی صورتحال میں مددگار ثابت ہو گی۔ ان تمام کاوشوں سے خیر کے رستے پر چلنے والوں کے لئے امید کی ایک توانا کرن جگمگا اٹھی ہے۔ وہ دن دور نہیں جب یہ تمام منصوبے مکمل ہوں گے اور ہم یہاں کے لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے دیپ جلتے دیکھیں گے اور چہروں پر کامرانی کے رنگ بکھرتے محسوس کریں گے۔ آمد و رفت کا سلسلہ بڑھے گا اور سیاحت کے رسیا اس علاقے کی خوبصورتی کو دنیا پر اجاگر کریں گے۔ بقول شاکر شجاع آبادی

اج موسم شاکر چَس دا اے

دِل آہدا اے یار کُوں مِل آواں

تازہ ترین