یہ 26 فروری 2016ءکا دن تھا جب دنیا بھر میں محمد علی کا نام گونجا اور ایک عالمی ریکارڈ ان کے نام سے منسوب ہوا۔اس روز نانگا پربت پر درجہ حرارت منفی 52 تھا اور تیز برفیلی آندھی بھی تھی ۔
نانگا پربت جسے قاتل پہاڑ کہا جاتا ہے اور دنیا بھر میں کوہ پیماؤں کی سب سے زیادہ برف کی قبریں اس سرد قبرستان میں موجود ہیں ، پر پاکستانی پرچم لہرایا گیا تھا ۔سردی کے موسم میں بغیر آکسیجن نانگا پربت کو سر کرنا ایک انوکھا ریکارڈ تھا اور ریکارڈ بنانے والے علی بھائی کو کوئی سرپرستی حاصل نہ تھی۔
کروڑوں روپے مالیت کا لباس، برقی حرارت والے جوتے اور خیمہ خریدنا اس کے بس میں نہ تھا کیونکہ وہ صرف ایک پورٹر تھا جو عالمی کوہ پیماؤں کا سامان اٹھا کر ساتھ چڑھتا تھا یا پھر ان کا گائیڈ تھا۔چوٹیوں کو سر کرنے والے اپنا سامان بیس کیمپ پر اس کے حوالے کر جاتے تھے اور وہ متروک شدہ لباس پہن کر اپنا شوق پورا کرتا تھا۔
نانگا پربت فتح ہوچکی تھی اور علی سد پارا کو اسلام آباد بلا کر کچھ شیشے کے بنے اعزازات بھی بخشے گئے تھے مگر مجھے علی بھائی نے بتایا تھا کہ انہیں اس وقت کے وزیر اعظم سے ملاقات کیلئے اسلام آباد بلایا گیا تھا مگر وزیر اعظم کے پاس وقت نہ تھا کہ وہ ایک پسماندہ گاؤں کے کوہ پیما کو ملتے، سو چند افسران نے کارروائی ڈال کر واپس بھیج دیا۔
عالمی دنیا سے کوہ نورد اسکردو پہنچ رہے تھے اور مبارکبادوں کا سلسلہ جاری تھا جب الپائن کلب آف پاکستان کے عہدیداران نے ان کے ایک غیرملکی انٹرویو کے لئے ان سے پیشگی درخواست کی کہ جب ان سے مالی معاونت اور پیشہ وارانہ تربیت کا سوال پوچھا جائے تو جواب میں الپائن کلب آف پاکستان کا نام لیا جائے۔
علی سد پارا نے انکار کردیا اور کہا کہ ایک رسی تک بھی تو تم لوگ فراہم نہیں کرتے پھر میں جھوٹ کیوں بولوں؟ چوٹیوں کو سر کرنے کی گروپ فیس بھی ان کے غیر ملکی ساتھی ادا کرتے تھے کیونکہ اس کے پاس آٹھ ہزار ڈالر کہاں سے آتے۔ہم اپنے بچوں سمیت 29 جولائی 2016 کی سہ پہر سد پارا جھیل کے پہلو میں آباد ان کے گاؤں، ان کے گھر پہنچے تھے ۔
فوزیہ اور حجاب ان کی اہلیہ اور بہو کے پاس چلی گئیں جہاں اردو کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ایک ترجمان لڑکی ساتھ والے گھر سے بلوائی گئی کیونکہ علی بھائی کے گھر صرف گلتی اور بلتی زبان بولی جاتی تھی۔
ساجد کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور وہ چوٹیوں سے خوف زدہ تھا، شاید وہ نہیں جانتا تھا کہ ان کے باپ کا نام پوری دنیا میں انہی بلندیوں کے سبب پہنچا تھا۔ تین گھنٹے ان کے گھر پر یوں گزرے کہ اجنبیت کا احساس تک نہ ہوا۔مس سٹیلا کی برف میں موت زیر گفتگو رہی ۔سٹیلا کی تصویر کو دیکھتے ہوئے علی سد پارہ بھی آبدیدہ ہوگئے۔
علی بھائی کو گلہ تھا کہ کوہ پیمائی سے متعلق سرکاری ادارے اسلام آباد میں بیٹھ کر سارے معاملات نمٹاتے ہیں اور بیشتر تو پہاڑوں کی ابجد بھی نہیں جانتے۔ملٹی نیشنل کمپنیاں بھی وہاں خرچ کرتی ہیں جہاں ان کو فوری فائدہ ملے۔ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ ہمیں بھول گئے تھے۔میری سوشل میڈیا پوسٹس پر ان کا کمنٹ لازمی آتا۔جب وہ فرانس جارہے تھے تو مجھے ان کا فون آیا کہ اگر آپ اسلام آباد آ سکیں تو ملاقات ہو جائے گی۔
نیپال اور کینیڈا کے سفارت خانوں میں ان کے اعزاز میں تقاریب منعقد ہوئیں۔وہ اپنا کام تشہیر کے لئے نہیں بلکہ اپنی تسکین کے لئے کرتے رہے۔ وہ پورٹر سے کوہ نورد ہوئے اور پھر دنیا کی بڑی چوٹیوں پر جھنڈا لہرادیا۔وسائل کی عدم دستیابی کے باوجود ان کا سفر جاری رہا۔ نانگا پربت کو سر کرنے آنے والا برطانوی کوہ پیما اے ایف ممری 1895 میں فاتح ہونے کے بعد کہیں برف میں دفن ہوا اور آج تک نہ مل سکا ۔
1934میں کوہ پیما ولی مرکل اور اس کے 8 ساتھیوں کو برف کی قبریں نصیب ہوئیں۔ 1937 میں ڈاکٹر کارلو وائن اور اس کے ساتھی اپنے خیمے میں سورہے تھے کہ برف کا تودا گرا اور سب لاپتہ ہوگئے۔
1938 میں پال بائر اپنی ٹیم کے ساتھ نانگا پربت پہنچا اور چوٹی سر کرنے لگا کہ ایک دم چار سال پہلے برف میں دفن ہونے والے مرکل اور ان کے پورٹر کی لاشیں برآمد ہوگئیں جو بالکل صحیح سلامت تھیں۔ لاشوں کو دیکھ کر پال بائر خوف زدہ ہوگیا اور مہم چھوڑ کر بھاگ گیا۔عالمی شہرت یافتہ کوہ پیما میسز کا بھائی گینتھر بھی اسی برف میں دفن ہوا۔
علی سد پارا پہلا پاکستانی کوہ پیما تھاجس نے 8000 میٹر بلند دنیا کی سات چوٹیوں کو سر کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔وہ پاکستان کی پانچ بلند ترین چوٹیوں کو بھی سر کر چکا تھا جس میں 8611 میٹرز بلند K 2 بھی شامل ہے۔ لیکن اب کی بار موسم علی سد پارا کے حق میں نہ تھا ورنہ قاتل پہاڑ نانگا پربت کو سر کرنے کے بعد پہلے سے مفتوح ہو چکی کے ٹو چوٹی کی کیا حیثیت تھی ۔ علی بھائی ہماری بھابھی اور آپ کے بچے سد پارا جھیل کے پہلو میں آباد آپ کے گاؤں کے اسی ڈرائنگ روم کی کھڑکی سے جھانکتے ہیں جس کی دیواروں پر جڑے فریم آپ کی تصویری کہانیاں بیان کرتے ہیں۔
ہر شام ہیلی کاپٹرز کی آوازوں میں آپ کی اہلیہ کی سسکیاں دب جاتی ہیں ۔آپ کا بیٹا رات ڈھلے اپنی ماں سے آنکھیں نہیں ملا پاتا اور اگلی صبح پھر نئی امید کے ساتھ نکل پڑتا ہے۔علی بھائی آج پوری قوم آپ کے لئے دعا گو ہے۔
انتظار میں مایوسی کے سائے امید کے سائبان پر گہرے ہوتے جارہے ہیں۔نیپال ، فرانس ، کینیڈا کے برف زاروں کو فتح کرنے کے بعد آپ کے شہر کا برفیلا وجود کیسے آپ کا قاتل ہوسکتا ہے، ہمیں یقین نہیں آرہا۔آپ خود تو کہتے تھے کہ کے ٹو بہت آسان ٹریک ہے تو پھر واپس لوٹنے میں تاخیر کیسی؟ پوری قوم کی دعائیں بے اثر کیوں ہیں ؟ آپ دعاوں کی لاج رکھو اور لوٹ آؤ کہ سد پارا گاؤں کے ایک گھر کی کھڑکی سے جھانکتی آنکھیں ابھی مایوس نہیں ہوئیں۔