سندھ ہائی کورٹ نے عمر صدیقی نامی شہری اور دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کرتےہوئے پولیس کی کارکردگی پر اظہارِ برہمی کیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس نعمت اللّٰہ پھلپھوٹو نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پولیس افسران کام ہی نہیں کرتے، صرف کاغذی خانہ پوری کر کے لے آتے ہیں، مگر رزلٹ زیرو ہے۔
دورانِ سماعت لاپتہ افراد کے اہلِ خانہ نے کمرۂ عدالت میں آہ و بکا کی۔
شہری عمر صدیقی کی اہلیہ نے بتایا کہ 3 سال سے شوہر لاپتہ ہے، جے آئی ٹی بنی مگر پتہ نہیں لگایا جا سکا، بچے پڑھ نہیں سکتے، ان کا مستقبل خراب ہو گیا ہے، شوہر کو بازیاب کرایا جائے، میری ساس بھی شدید بیمار ہیں۔
درخواست گزار سعد صدیقی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ سعد صدیقی 2015ء سے لاپتہ ہے، جس کی بازیابی کے لیے 10 جے آئی ٹیز بھی بن چکیں۔
عدالت نے کہا کہ جے آئی ٹیز بنائی جاتی ہیں، پی ٹی ایف کا اجلاس بھی ہوتا ہے مگر لاپتہ شہری کا پتہ نہیں چلتا، سربراہ صوبائی ٹاسک فورس کو لاپتہ شہریوں کا معاملہ سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا، ورنہ جیل بھیج دیں گے۔
سندھ ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ سیکریٹری محکمۂ داخلہ خود لاپتہ شہریوں کے کیس کا جائزہ لیں۔
عدالتِ عالیہ نے وفاقی سیکریٹری داخلہ سے تمام صوبوں کے حراستی مراکز کی تفصیلات طلب کر لی جبکہ آرڈر کی کاپی چیف سیکریٹری سندھ کو بھی بھیجنے کا حکم دیا۔
سندھ ہائی کورٹ نے آئندہ سماعت پر لاپتہ شہریوں سے متعلق پیش رفت رپورٹ طلب کر لی۔