• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوپن بیلٹ ریفرنس، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ مسترد کردی، نئی تجاویز طلب

اوپن بیلٹ ریفرنس، سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ مسترد کردی، نئی تجاویز طلب


اسلام آباد (نمائندہ جنگ، جنگ نیوز) عدالت عظمیٰ نے وفاقی حکومت کی جانب سے ’’سینیٹ کے انتخابات کے لئے کھلے عام رائے شماری کا طریقہ کار رائج کرنے‘‘ کے حوالے سے ذیلی قانون سازی سے متعلق قانونی و آئینی رائے کے حصول کیلئے دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کی انتخابی اسکیم پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے نئی تجاویز طلب کرلیں۔

عدالت نے چیف الیکشن کمشنر کو ممبران کی مشاورت سے سینیٹ انتخابات میں شفافیت سے متعلق تمام پہلوؤں کا جائزہ لیکر تحریری جواب تیار کر کے جمع کرانے کی ہدایت کر تے ہوئے کیس کی مزید سماعت آج بروز بدھ تک ملتوی کردی ہے جبکہ دوران سماعت الیکشن کمیشن نے قابل شناخت بیلٹ پیپرز کی مخالفت کردی ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا ہے کہ بیلٹ پیپر پر سیریل نمبر نہیں ہونا چاہیے، قابل شناحت بیلٹ پیپرز کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں ہے، سپریم کورٹ ماضی میں بھی بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔ 

الیکشن کمیشن نے ووٹوں کی خرید و فروخت سے متعلق منظر عام پر آنے والی ویڈیو کا نوٹس لیتے ہوئے اجلاس طلب کرلیا ہے، جس میں ویڈیو کا جائزہ لے کر فرانزک تجزیہ کروانے یا نہ کرانے کا فیصلہ کیا جائیگا۔ 

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ 2018 سے ویڈیو موجود ہے لیکن اس پرکسی قسم کی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے، الیکشن کمیشن کو انتخاب میں ہر قسم کی کرپٹ پریکٹسز کو روکنا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا ووٹ کوہمیشہ کیلئے خفیہ رکھا جاسکتا ہے؟ 

عدالت نے کہا کہ الیکشن میں کرپشن روکیں قانون میں تبدیلی کا نہیں کہہ رہے ووٹوں کی خرید و فروخت روکنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، سینیٹ انتخابات شفاف کیسے ہونگے پوری اسکیم بتائیں۔ چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل پانچ رکنی لارجر بینچ نے منگل کے روز آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر کئے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت کے نوٹس پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ اور دیگر اراکین پیش ہوئے۔ 

چیف جسٹس نے چیف الیکشن کمشنر سے استفسار کیا کہ سینیٹ الیکشن میں ووٹوں کی خریدو فروخت روکنے کیلئے کیا اقدامات کیے؟ جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن اپنی ائینی ذمہ داریوں سے آگاہ ہے، انتخابات سے کرپشن کو ختم کرنے کا طریقہ کار ایکٹ میں موجود ہے۔ ہم نے مانیٹرنگ اور پولیٹکل فنانس ونگ کو مضبوط کیا ہے۔ 

چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو انتخابی عمل سے کرپشن ہر حال میں روکنی ہوگی، جو باتیں آپ کررہے ہیں وہ معمولی ہیں، آپ نے شاید ہمارا کل کا حکم سمجھنے کی کوشش نہیں کی، معاملے کی گہرائی کو سمجھیں، آپ کو معلوم نہیں پاکستان میں الیکشن کیسے ہوتا ہے۔ کوڈ اُف کنڈیکٹ بنانے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ 

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ الیکشن کمیشن آزاد اور آئین کے تحت مکمل بااختیار ہے، کرپٹ پریکٹس کو روکنے کیلئے اقدامات کرنا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے ووٹوں کی خریدوفروخت اور دباؤ کو روکنا بھی الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے، کیا ووٹ کو کاسٹ ہونے کے بعد ہمیشہ کیلئے خفیہ رکھا جاسکتا ہے، انتخابات میں سیاسی مداخلت اور پیسے کا استعمال ہوتا ہے، الیکشن کمیشن میکانزم بتائے کہ کیسے کرپٹ پریکٹس کو روکا جائے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے چیف الیکشن کمشنر سے استفسار کہا کہ کیا آپ کے ابھی تک کئے گئے اقدامات کافی ہیں، کیا ان اقدامات سے انتخابی عمل سے کرپشن روک سکتے ہیں۔ 

دوران سماعت الیکشن کمیشن نے قابل شناخت بیلٹ پیپرز کی مخالفت کردی، اس بارے میں چیف الیکشن کمشنر نے عدالت کو کہا کہ بیلٹ پیپر پر سیریل نمبر نہیں ہونا چاہیے، قابل شناحت بیلٹ پیپرز کی قانون میں گنجائش نہیں، سپریم کورٹ ماضی میں بیلٹ پیپر پر نشان لگانے کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے۔

تازہ ترین