ملک پاکستان کی جن چند چُنیدہ شخصیات کو عبقری یا نابغہ عصر کہا جاسکتا ہے، ان میں میرے محسن و مشفق استاذ فاضل دارالعلوم دیوبند(انڈیا) شیخ المشائخ و شیخ الحدیث و التفسیر حضرت استاذ مکرم و محترم حضرت مولانا مفتی شمس الدین نور اللہ مرقدہ مرحوم و مغفور سندھ کی بہت بڑی دینی درسگاہ جامعہ عربیہ مفتاح العلوم حیدرآباد کے مہتمم اور تادم آخر مفتی اعظم سندھ کے درجے پر فائز رہنے والے میرے استاذ محترمؒ سرفہرست ہیں جو نہ صرف علم و عرفان، طریقت و روحانیت کے شہسوار تھے بلکہ محقق، مدقق، محدث، تمام علوم و فنون کے بلند پایہ ماہر،محنتی استاذ، صاحب فہم و فراست، اجل فقیہ ہونے کے ساتھ ساتھ وافر دولت درد اور متاع عشق سے بھی سرشار تھے جو بہت شان سے جئے او ربڑے باوقار انداز میں اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔ یہ وہ بڑے لوگ تھے جنہوں نے مجھے بھی مان دیا بلکہ مجھے جینے کے لئے خوبصورت ترغیب بھی دلائی یہ سب ان کی تربیت کاہی اثر ہے کہ میں پارلیمنٹ کا 30برس سے زائد عرصہ حصہ رہا ہوں لیکن کرپشن، دھوکہ دہی کا ایک چھینٹا بھی بفضلہ تعالیٰ میرے دامن پر نہیں ہے۔ آپ سے طالبانِ علوم نبوت کی ایک بہت بڑی تعداد نے استفادہ کیا۔میں جامعہ عربیہ مفتاح العلوم حیدرآباد سندھ میں ان کے زیر تعلیم رہا اور ان کے بحر بیکراں سے کافی عرصہ سیراب ہوتا رہا اس کے بعد بظاہر جسمانی بُعد رہا مگر قلبی قربت ہمیشہ قائم رہی اور ان کی توجہات و توجیہات ان کی ادعیہ مستجابہ سے مستفیض ہوتا رہا۔
ﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت والا رحمہ ﷲ کو بے شمار خوبیوں اور صفات سے نوازا تھا۔ علوم اسلامیہ میں مہارت و فقاہت، تقویٰ، حق گوئی، استقامت دین، کلمہ حق، اتباع سنت، جذبہ جہاد سے سرشار، اسلامی نظام کے نفاذ اور خلافت کے احیا کا جذبہ، عمدہ اخلاق، سادہ منکسر المزاج طبیعت جیسی صفات میں اپنے اکابر و اسلاف کا درخشندہ نمونہ تھے۔حضرت استاذ محترم علیہ الرحمہ کی فنائیت و بے نفسی کے متعلق میر ا ذاتی مشاہدہ ہے کہ کبھی آپ ؒ نے ایک کلمہ بھی ایسا نہیں فرمایا جس میں اپنی تعریف و توصیف کی بو آتی ہو، حبِ جاہ کا دو ر دور تک نشان نہ تھا۔نام و نمود اور ظاہری وضع داری جیسی چیزوں سے پاک و صاف ایک سیدھے سادے کھرے حق گو عالم دین تھے۔ حضرت استاذ محترم علماء کرام حتیٰ کہ اپنے شاگردوں اورطلباء کیساتھ بھی بہت اکرام کے ساتھ پیش آتے ، ہر ایک کے ساتھ جناب ،حضرت مولانا اور صاحب کے نام ضرور استعمال فرماتے۔طبیعت بالکل سادہ تھی، رہن سہن اور غذا میں سادگی پسند تھے۔ لباس ہمیشہ سفید اور صاف ستھر استعمال فرماتے، سر پر سادہ ٹوپی اور کندھے پر رومال رکھتے تھے اور اکثر رومال کی پگڑی بنا کر پہن لیتے تھے۔ سادگی کا یہ عالم تھا کہ بعض اوقات جامعہ کے طلباء آپ کے چاروں طرف حلقہ بنا کر بیٹھ جاتے اور ایسے بے تکلفانہ گفتگو کرتے جیسے بچے اپنے والدین سے کرتے ہیں اور آپ انتہائی شفقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کی باتیں سنتے۔ جامعہ کے بیت المال میں سے خرچ کرنے کے معاملے میں انتہائی درجے کے محتاط تھے، رفقاء کا بہت خیال رکھتے تھے۔ وقت کی بہت قدر کرتے تھے۔ مطالعہ ، اسباق کے باقاعدہ نظام الاوقات تھے اور اس کی سخت پابندی کرتے اور طلباء سے بھی کرواتے۔
استاذ محترم ؒ کی پوری زندگی جہد مسلسل سے عبارت اور شخصیت ہمہ جہت تھی ان کی علمی خدمات زندگی کے بہت سے خوبصورت پہلوئوں اور کارہائے نمایاں پر بہت کچھ لکھا جارہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے اکابرین و اسلاف کو اسی طرح خراج تحسین اور نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ان کے جلائے ہوئے چراغوں کی روشنی میں ان کے نقوش پا پر چلتے ہوئے منزل کی جانب بڑھنے کی سعی کریں یہ استاد محترمؒ کا ہم پر قرض بھی ہے۔ حضرت استاذ گرامی قدر ؒ کی نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط دینی خدمات ان کی زندگی کا روشن باب ہے اور ان سے فیضیاب ہزاروں علماء کرام ان کے لئے صدقہ جاریہ ہیں۔استاد محترم ؒ کے خاندان سے مجھے بڑی محبت و عقیدت ہے اور ان شاء اللہ تادم زندگی رہے گی۔ میں جب بھی حیدرآباد جاتا ہوں تو استاذ محترم ؒکی قبر انور پر حاضری اور صاحبزادگان سے ملاقات میرے سفر کا لازمی حصہ ہوتی ہے۔ حضرت استاذ محترمؒ جمعیت علماء اسلام کے منشور اور ملک میں اسلامی نظام کے نفاذ کی جدوجہد کے زبردست حامی تھے آپ نے حیدرآباد میں جمعیت کی تنظیم سازی کے لئے عملاً بہت کام کیا اکثر فرماتے تھے کہ مسلک علماء دیوبند کی صرف ایک ہی جماعت ہونی چاہئے صرف جمعیت علماء اسلام جس سے ہر محاذ کیلئے کام کیا جائے۔ متحدہ مجلس عمل کی الیکشن مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور متحدہ مجلس عمل کی شاندار کامیابی پر بے انتہا خوش تھے اور فرمایا کہ اسلام کو عزت عطا ہوئی ۔
میرے استاذمہربان قانونِ قدرت کے تحت مورخہ19ربیع الاول 1432ھ بمطابق 23فروری 2011ء بروز بدھ ہم سب کو داغِ مفارقت دے کر راہی جنت ہوئے۔ جنازہ کے وقت اس پاک باز ہستی کے کمالات کا ہر شخص نے اعتراف کیا ہزاروں آدمی اس سیرت ساز آدمی کی زندگی کا پرتو تھے ۔ اکثریت علماء صوفیاء اور ﷲ والوں کی تھی۔رب جلیل ان سے راضی ہوجائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ قیام نصیب فرمائے اور مجھ ناچیز کے علم نافع سے استاذ محترم ؒ کو پور ا پورا حصہ عطا فرمائے ۔ ﷲ تعالیٰ ان کے خاندان کو ان کی برکات عطا فرمائے اور سب کو عزت و عظمت سے نوازے۔ آمین یا رب العالمین
(مرکزی سیکرٹری جنرل جمعیت علماء اسلام پاکستان و سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ آف پاکستان)