احسن الخالقین اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہترین شکل میں تخلیق کرکے اشرف المخلوقات کے مرتبے پر فائز کیا اور سور ۃالدّھرمیں فرمایا،’’ہم نے انسان کو سُنتا، دیکھتا پیدا کیا۔ ہم نے اُسے راہ دکھائی۔ اب خواہ وہ شُکر گزار بنے ،خواہ ناشُکرا۔‘‘گویا انسان کی ہدایت اور اُس کے طرزِ زندگی کو مطلوبہ ڈھب پر ڈھالنے کے لیے یہی دونوں صلاحیتیں کلیدی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک نعمت سے محرومی انسان کی ممکنہ تخلیقی صلاحیتیں بُری طرح متاثر کردیتی ہے۔اور یہ کمی نہ صرف انفرادی ترقّی ، بلکہ معاشرے کا ایک کارآمد فرد بننے میں بھی رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔سماعت اور بصارت دونوں ہی حواس ِخمسہ میں اہم ترین گردانے جاتے ہیں، لیکن یہ فیصلہ مشکل ہے کہ ان میں سے کون سی حِس زیادہ اہم ہے۔
تاہم،یہ فیصلہ وہی فرد کر سکتا ہے، جو ان دونوں ہی سے محروم ہو۔ہیلن کیلر ایک ایسی ہی اولعزم اور مثالی خاتون تھیں، جو نہ صرف پیدایشی نابینا، بلکہ قوّتِ سماعت سے بھی محروم تھیں۔ ان کا یہ قول سماعت کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ’’نابینا پَن انسان کو اشیاء سے دُور کرتا ہے، لیکن بہراپَن انسان کو انسانوں سے دُور کرتا ہے۔‘‘اللہ تعالی سورۃ المومنون میں فرماتے ہیں،’’اور اُسی نے تمہارے کان، آنکھیں اور دِل بنائے ہیں، تم بہت ہی کم شُکر کرتے ہو۔‘‘ تو گویا کسی انسان میں قوّتِ سماعت کا اپنی مکمل اور بَھرپور شکل میں موجود ہونا، اللہ سبحان و تعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے،جس کی قدر کرنا اور اس نعمت کا شُکر ادا کرنا ہم سب پر فرض ہے۔
قوّتِ سماعت کی کمی کئیمسائل کا سبب بنتی ہے کہ جو افراد سُن نہیں سکتے، اُن میں بول چال کا عمل بھی متاثر ہوجاتا ہے۔سماعت کی اِسی اہمیت کو اُجاگر کرنے کے لیے عالمی ادارۂ صحت کے زیرِ اہتمام ہر سال3مارچ کو’’ورلڈ ہئیرنگ ڈے‘‘ منایا جاتا ہے،تاکہ سماعت سے متعلق چیدہ چیدہ معلومات عام کرکے بہرے پَن کی شرح کم کی جاسکے۔ اِمسال کا تھیم"Hearing care for ALL:Screen.Rehabilitate. Communicate"ہے۔یعنی سماعت کی دیکھ بھال سب کے لیے:تشخیص، بحالی اور بات چیت ‘‘۔عالمی ادارۂ صحت کےگزشتہ برس کےجاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دُنیا بَھر کی تقریباً5فی صد آبادی یعنی46 کروڑ60 لاکھ افراد،جن میں3 کروڑ40 لاکھ بچّے بھی شامل ہیں، سُننے کی فعال صلاحیت سے محروم ہیں اور خدشہ ہے کہ2050ء تک یہ تعداد90 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ ان ہی اعداد وشمار کے مطابق 65 برس سے زائد عُمر کے افراد میں سے ایک تہائی کسی نہ کسی حد تک بہرے پَن میں مبتلا ہوتے ہیں۔
قوّتِ سماعت جانچنے کی اکائی"Decibel"کہلاتی ہے۔ ایک تن درست فرد کی قوّتِ سماعت20سے25ڈیسی بیلز تک ہوتی ہے۔ بالغ افراد کی سماعت میں 40ڈیسی بیلز کی کمی بہرے پَن کو ظاہر کرتی ہے، جب کہ بچّوں میں یہی پیمانہ30ڈیسی بیلزہے۔ بہرے پَن کی درجہ بندی اِسی اکائی کو مدِّنظر رکھ کر کی جا تی ہے۔ مثلاً اگر یہ30سے45ڈیسی بیلز کے درمیان ہو،تو اُسے معمولی بہراپن کہا جائے گا، جب کہ46سے65ڈیسی بیلز تک درمیانے درجے کا بہرا پن، 66سے85ڈیسی بیلز شدید اور اس سے زائد شدید ترین درجے کا بہرا پَن کہلاتا ہے۔
واضح رہے کہ معمولی سے شدید نوعیت کے بہرے پَن سے متاثرہ افراد کے لیے عموماً آلۂ سماعت فائدہ مند ثابت ہوتاہے۔ البتہ شدید ترین بہرے پَن کے شکار افراد میں سےکم عُمر بچّوں کو کاکلیئر امپلانٹ (Cochlear Implant) کے پیچیدہ اور منہگے ترین آپریشن کی ضرورت پڑتی ہے یا پھر انہیںسائن لینگویج (اشاروں کی زبان) کا سہارا لینا پڑتا ہے،جب کہ بالغ افراد کو بات سمجھنے کے لیے Lip Reading یا لکھی ہوئی تحریر پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
یہاں یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ سماعت سے محرومی کو دوبنیادی اقسام میں منقسم کیا گیا ہے۔ایک قسم مستقل اور دوسری عارضی بہرا پَن کہلاتی ہے۔ مستقل بہرا پن عمومی طور پر کان کے اندرونی حصّے، رگِ سماعت یا دماغ میں سُننے کے مختص حصّے کی کم زوری کی وجہ سے ہوتا ہے اور زیادہ تر کیسز میں ادویہ یا عام جرّاحی کے ذریعے اس کا علاج ممکن نہیں ہوتا ۔عارضی بہراپَن کان کے بیرونی یا درمیانی حصّے میں کسی خرابی کی وجہ سے ہوتا ہے اور زیادہ تر کیسز میں قابلِ علاج ہے۔ ایک اندازے کے مطابق بچپن میں ہونے والا60فی صد بہرا پَن قابلِ علاج ہے، بشرطیکہ بر وقت تشخیص ہونے کے ساتھ علاج بھی درست ہو۔
بہرے پَن سے متاثرہ زیادہ ترافراد کا تعلق ترقّی پذیر مُمالک سے ہے، جہاں اکثر و بیش تر تشخیص اور علاج کی سہولتیں ناکافی ہیں۔ افسوس کہ پاکستان بھی ان ہی مُمالک کی فہرست میں شامل ہے، جہاں علاج تک رسائی حکومت اور عوام دونوں ہی کی ترجیحات میںنہیں۔یہی وجہ ہے کہ بہرے پَن کے ایسے مریضوں کی بڑی تعداد بروقت تشخیص و علاج کی سہولت دستیاب نہ ہونے کی وجہ سے سماعت سے محروم رہ جاتی ہے۔ سماعت میں نقائص کی وجوہ کو بھی دوبنیادی اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے۔پہلی قسم اعصابی (Neurological) اور دوسری ایصالی (Conductive) کہلاتی ہے۔ اعصابی بہرے پَن کی وجوہ میں بڑھاپا، موروثیت، دورانِ حمل یا پیدایش کے وقت کی پیچیدگیاں، کانوں کے لیے ضرر رساں ادویہ، دماغی چوٹ، متعدّی، خصوصاً وائرل بیماریاں وغیرہ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ مستقلاً طویل عرصے تک یا پھرحادثاتی طور پر کسی بھی قسم کے غیر معمولی شور یا تیز آوازوں سےواسطہ بھی (جیسے کارخانوں میں اور پُرشور مشینوں کے قریب کام کرنے والے، دھماکا خیز مواد کا پیشہ ورانہ استعمال کرنے والے یا حادثاتی طور پر بہرے پَن کا شکار ہونے والے افراد) باعث بن سکتا ہے ۔
نیز، آج کل آن لائن کلاسز، میوزک پلئیرز یا دیگر آلات، جو ائیر فون یا ہیڈ فون کے ذریعے کان سے منسلک ہوتے ہیں، خصوصاً نوجوانوں میں سماعت کی کمی کا سبب بن رہے ہیں۔ اصل میں ہینڈز فری آلات سے برآمد ہونے والی آوازیں کان کے سماعت سے متعلق انتہائی حسّاس اندرونی حصّے پر براہِ راست منفی اثرات مرتّب کرتی ہیں، نتیجتاً ایسے افراد نوعُمری ہی میں سماعت میں خلل کا شکار ہوجاتے ہیں۔
واضح رہے،اعصابی بہراپَن اگر کم درجے کا ہو، تو اس کا بہترین علاج آلۂ سماعت ہی ہے، جو کہ ایک مخصوص ٹیسٹ آڈیومیٹری کے بعد اور سماعت میں کمی کی درجہ بندی کے لحاظ سے تجویز کیا جاتا ہے۔ اعصابی قوّتِ سماعت کی کم زوری میں آلۂ سماعت عموماً بہت مفید اور کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ تاہم، اکثر اوقات بڑھتی عُمر کے ساتھ پیدا ہونے والے بہرے پَن میں اس کی افادیت محدود رہ جاتی ہے۔ بزرگ افراد اکثر یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ ’’انہیں آواز تو آتی ہے، لیکن الفاظ سمجھ نہیں آتے۔‘‘ اس مشکل کی وجہ بڑھتی عُمر کے ساتھ، اندرونی کان میں واقع سُننے کے ریشوں، رگِ سماعت اور دماغی خلیوں کے بتدریج انحطاط کا پیچیدہ عمل ہے۔ چناں چہ زیادہ تربزرگ افراد کی یہ شکایت آلۂ سماعت لگانے کے باوجود بھی برقرار رہتی ہے اور وہ دورانِ گفتگو مبہم سے شور کے علاوہ واضح الفاظ سُننے اور سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔
نیز، انہیں مخاطب کا مافی الضمیر سمجھنے میں بھی شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہ بات ہم سب ہی جانتے ہیں کہ بولنا اور سُننا باہمی رابطے کا سب سے اہم ذریعہ ہی نہیں، ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم بھی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک حِس میں کمی بیشی انسان کو رابطے کے معاملے میں لاچار بنا دیتی ہے، لہٰذا ایسے بزرگوں سے خصوصی طور پر گفتگو بہت روانی سے نہ کی جائے۔ یعنی الفاظ کی ادائی کی رفتار بہت تیز نہ ہو، بلکہ آہستہ اور ٹھہر ٹھہر کر بات کی جائے۔
بُلند آواز میں بات کرنے سے گریز کریں کہ اس سے آواز کا حجم تو بڑھ جائے گا، لیکن دورانِ گفتگو الفاظ کی شناخت ممکن نہیں ہوگی۔ سماعت سے مکمل محرومی کی وجہ بھی اعصابی ہی ہوتی ہے، جو بالعموم پیدایشی طور پر پائی جاتی ہے۔ اس صُورت میںکان کے اندرونی حصّے میں ایک نہایت پیچیدہ آپریشن کے ذریعے مصنوعی آلۂ سماعت ’’کاکلیئر امپلانٹ‘‘ نصب کردیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بہت منہگا آپریشن ہے، جس کے اخراجات تقریباً پچیس لاکھ روپے تک ہیں۔واضح رہے کہ اس آپریشن کے بہترین نتائج تب ہی حاصل کیے جاسکتے ہیں، جب سرجری پانچ سال کی عُمر سے قبل کی جائے۔
یہی وجہ ہےکہ مکمل طور پر سماعت سے محروم بچّوں کی پیدایش کے چند ماہ کے اندر سماعت کی تشخیص بے حد اہمیت رکھتی ہے۔علاوہ ازیں، وہ بچّے جن میں کسی بھی سبب سے یہ آپریشن ممکن نہ ہو، انہیں آلۂ سماعت ترجیحاً 18 ماہ یا زیادہ سے زیادہ2 سال کی عُمر تک پہنچنے سے قبل لگوا دینا چاہیے، کیوں کہ زیادہ عُمر تک سماعت سے مکمل طور پر محرومی گویائی کی صلاحیت پر بھی شدید منفی اثرات مرتّب کرتی ہے،کیوں کہ جو بچّے درست طور پر سُن نہ سکیں، ان کے لیے درست بولنا بھی ممکن نہیں ہوتا۔
ترقّی یافتہ مُمالک میں بچّوں کی پیدایش کے فوراً بعد سماعت کی جانچ لازمی طور پر کی جاتی ہے،تاکہ قابلِ علاج بہرے پَن کے لیے جلد اور ترجیحی بنیادوں پر ممکنہ اقدامات اختیار کیے جاسکیں ۔افسوس ناک امر یہ ہے کہ سادہ اورنہایت مفید ٹیسٹ کی سہولت ہمارے مُلک میں دستیاب نہیں،جب کہ عام افراد تو کجا، شعبۂ طب سے متعلقہ افراد کو بھی اس کی ضرورت اور اہمیت کا اندازہ نہیں۔
اعصابی سماعت کی کمی کے برعکس ایصالی کم زوری کا علاج خاصی حد تک ادویہ یا عمومی طور پر کیے جانے والے مخصوص آپریشنز کے ذریعے ممکن ہے۔ اس قسم کے بہرے پَن کی وجوہ میں کانوں کا بہنا، کان کے پردے کا پَھٹ جانا، کان کے پردے کے پیچھے نزلے کاپانی جمع ہو نا، زکام، ہوائی سفر یا بُلندی کے باعث کان کے پردوں کا اندرونی جانب کھنچ جانا وغیرہ شامل ہیں۔نیز، بعض کیسز میں کان کے بیرونی حصّے میں میل یا فنگس(پھپھوندی) جمع ہونا بھی وجہ بنتا ہے۔ ان تمام اسباب کو اگربروقت تشخیص کرکے درست سمت میں فوری علاج شروع کر دیا جائے، تو نہ صرف مرض بڑھنے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں، بلکہ بیش ترمریضوں کو آپریشن کی بھی ضرورت پیش نہیں آتی۔
سماعت کی کم زوری نہ صرف انسان کی اپنی شخصی ترقّی اور نکھار میں رکاوٹ ہے، بلکہ سماجی شرمندگی اور میل جول میں جھجک کا باعث بھی بنتی ہے۔ بچّوں میں سماعت کی کم زوری ان کے روزمرّہ معمولات میں رکاوٹ اور ناقابلِ تلافی تعلیمی نقصان کا سبب بننے کے ساتھ ان کی خود اعتمادی کو بھی شدید متاثر کر سکتی ہے۔
پیرانہ سالی میں انسان، سماعت میں ثقل کے باعث اکثر جھنجھلاہٹ اور احساسِ تنہائی کا شکار ہو جاتا ہے، جو بالآخر ڈیپریشن کا موجب بن سکتی ہے۔ یہاں اس بات کی اہمیت بھی اُجاگر کرنا ضروری ہے کہ مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرکے قریباً50سے 60فی صد تک بہرے پَن کی روک تھام ممکن ہے۔ مثلاً بچّوں میں سماعت کی کمی کے اسباب میں خسرہ، کن پیڑے،گرد ن توڑ بخار اورجرمن خسرہ جیسی بیماریاں شامل ہیں،تو ان کا بروقت علاج کروالیا جائے۔
اس کے علاوہ دورانِ پیدایش آکسیجن کی کمی، پیلیا، قبل از وقت پیدایش اور وزن کے عالمی پیمانے کے اعتبار سے کم زور نومولود بچّوں میں بھی سماعت کے خلل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہےکہ دورانِ حمل اور پیدایش کے بعدنومولود کو بروقت حفاظتی ٹیکےلگوانے سے یہ خطرہ تقریباً سو فی صد کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح زکام، ناک کے بڑھے ہوئے غدود یا دیگر وجوہ کی بنا پر ناک کی بندش کے مضراثرات کانوں پر مرتّب ہوتےہیں،لہٰذا بروقت علاج کی بدولت سماعت میں کمی کا امکان کم کیا جا سکتا ہے۔سماعت کی اعصابی کم زوری رکھنے والے افراد کے لیے درست آلۂ سماعت کافی موثر ثابت ہوتا ہے، لیکن دیکھا گیا ہے کہ زیادہ تر افراد اس کے استعمال میں جھجک محسوس کرتے ہیں، جودرست نہیں۔
یاد رکھیے، بہرے پَن کے شکار افراد کو بہتر زندگی گزارنے کے لیے آلۂ سماعت ضرور استعمال کرنا چاہیے۔لیکن یہاں یہ امر بھی قابلِ توجّہ ہے کہ آلاتِ سماعت بیش تر افراد کی قوّتِ خرید سے باہر ہیں، کیوں کہ یہ سب بیرونِ مُمالک سے منگوائے جاتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مُلک میں ان کی معیاری، مگر ارزاں قیمت پر دستیابی یقینی بنائی جائے، تاکہ آبادی کے ایک قابلِ ذکر حصّے کو معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جاسکے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جس طرح انسدادِ نابینا پَن کی کوششیں کی جاتی ہیں، اس طرح بہرے پَن کے لیے نہیں کی جاتیں۔نیز، نابینا افراد سے ہم دردی کا جذبہ عمومی طور پر زیادہ دیکھنے میں آتا ہے، جب کہ سماعت میں خرابی رکھنے والے افراد خواہ عُمر کے کسی بھی حصّے میں ہوں، اکثر و بیش تر تضحیک کا نشانہ بنتے ہیں اور محفل اور تنہائی میں اُن کا مذاق اُڑایا جاتا ہے۔ معاشرے کا یہ رویّہ ان افراد کے لیے نہ صرف سخت تکلیف دہ ہے، بلکہ انہیں سماجی طور پر الگ تھلگ رہنے پر بھی مجبور کر دیتا ہے۔
صحت مند افرادکے لیے اس قسم کے غیر ذمّے دارانہ رویّوں سے احتراز لازم ہے۔بہرے پَن کی بڑھتی ہوئی شرح پر قابو پانے کے لیے نہ صرف متعلقہ شعبے کے ڈاکٹرز، طبّی عملے اور حکومت کو مزید فعال ہونے کی ضرورت ہے، بلکہ صاحبِ ثروت مخیر افرا اور غیر حکومتی تنظیموں کو بھی آگے بڑھ کر اپنا حصّہ ڈالنا چاہیے۔ اس کے ساتھ مریضوں، ان کے اہلِ خانہ اور معاشرے کے دیگر افراد کو بھی سنجیدہ اور ذمّے دارانہ رویّہ اختیار کرنا ہوگا۔ ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ سماعت سے محروم بچّوں اور افراد کے لیے مناسب تعداد میں ایسے ادارے قائم کیے جائیں، جو ان کی دیگر صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں مددگار ثابت ہوں۔ سماعت سے محروم افراد کو خصوصی تعلیم اور فنی تربیت فراہم کر کے نہ صرف معاشرے کا کارآمد فرد بنایا جا سکتا ہے، بلکہ اس طرح ان کا احساسِ کم تری بھی دُور کیا جاسکے گا۔
(مضمون نگار، معروف ماہرِ امراضِ کان، ناک اور گلا ہیں۔ ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز، کراچی سے بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر وابستہ ہونے کے ساتھ پاکستان اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن (پیما)کے بھی رکن ہیں)