• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ڈسکہ الیکشن، ابتدائی تحقیقات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا ثبوت نہیں ملا، رانا ثناء

ڈسکہ الیکشن، ابتدائی تحقیقات میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا ثبوت نہیں ملا، رانا ثناء


اسلام آباد (انصار عباسی) مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں اسکینڈل پر مبنی دھاندلی کے حوالے سے پارٹی کی ابتدائی تحقیقات میں اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کے شواہد نہیں ملے۔ دی نیوز سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت، بلدیاتی انتظامیہ اور پولیس اس واقعے میں ملوث تھی اور ’’گمشدہ پریزائڈنگ افسر‘‘ کا آپریشن ڈی ایس پی پولیس کی کمان میں کیا گیا۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ 20؍ ’’گمشدہ پریزائڈنگ افسران‘‘ کو ان کی مرضی سے اسپیشل برانچ والوں نے اٹھایا اور انہیں حاجی امتیاز نامی شخص کے فارم ہائوس پر لے جایا گیا جہاں وزیراعلیٰ پنجاب کی میڈیا ایڈوائزر فردوس عاشق اعوان بھی مبینہ طور پر موجود تھیں۔ ن لیگ کے رہنما نے کہا کہ ڈی ایس پی ذوالفقار ورک نے یہ کارروائی کی، انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت نے ورک کو پہلے ڈسکہ میں ڈی ایس پی لگایا تھا تاکہ وہ ضمنی الیکشن میں بندوبست کریں، اپوزیشن کی شکایت کے بعد اور الیکشن کمیشن کی مداخلت کے بعد ورک کو ڈی ایس پی ڈسکہ کے عہدے سے ہٹایا گیا لیکن انہیں اسپیشل برانچ میں اسی علاقے میں تعینات کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ ڈپٹی کمشنر اور بلدیاتی انتظامیہ بھی منتخب پولنگ اسٹیشنوں پر اپنی پسند کے پریزائڈنگ افسران لگوانے میں ملوث ہیں، پی ٹی آئی کی شکست محسوس ہوتے ہی 20؍ پولنگ اسٹیشنوں پر مخصوص پریزائڈنگ افسران کو ان کی مرضی سے فارم ہائوس لیجایا گیا، انہوں نے الزام عائد کیا کہ فردوس عاشق بھی فارم ہائوس پر موجود تھیں جہاں ’’گمشدہ‘‘ پریزائڈنگ افسران کو لیجایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ن لیگ کا امیدوار تین ہزار ووٹوں سے جیت رہا تھا اسلئے فارم ہائوس پر موجود لوگوں نے پی ٹی آئی کے11 ہزار ووٹوں کا اضافہ کر دیا تاکہ پی ٹی آئی کے امیدوار کو جتوایا جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ اس صورتحال کے نتیجے میں اِن مخصوص 20؍ پولنگ اسٹیشنوں پر ووٹرز کا ٹرن آئوٹ اچانک 80؍ سے 90؍ فیصد تک بڑھ گیا جبکہ دیگر پولنگ اسٹیشنوں پر ٹرن آئوٹ 40؍ فیصد سے کم رہا۔ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ گمشدہ پریزائیڈنگ افسران علیحدہ علیحدہ غائب ہوئے لیکن ڈی ایس پی ورک کی جانب سے ’’برآمد‘‘ کرنے کے بعد انہیں ایک ساتھ ریٹرننگ آفس لیجایا گیا۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ڈسکہ الیکشن دھاندلی میں ن لیگ کو اسٹیبلشمنٹ کے ملوث ہونے کا پتہ لگا ہے تو انہوں نے کہا کہ ’’نہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ پوری کارروائی بھونڈے انداز میں کی گئی جس میں صوبائی حکومت، بلدیاتی انتظامیہ اور پولیس ملوث تھی اور ڈی ایس پی ذوالفقار ورک نے اہم کردار ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ فیلڈ میں الیکشن اسٹاف کو ڈپٹی کمشنر اور بلدیاتی حکومت کے دیگر ملازمین کی مدد سے لگایا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اس ضمنی الیکشن کے نتائج روک لیے تھے اور این اے 75؍ سیالکوٹ میں دو درجن کے قریب پریزائڈنگ افسران کے پولنگ بیگز کے ہمراہ ’’غائب‘‘ ہونے کا اعلان کیا۔ الیکشن کمیشن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ 6؍ گھنٹے بعد اِن غائب ہونے والے پریزائڈنگ افسران کی جانب سے جمع کرائے گئے نتائج عمومی وقت سے زیادہ وقت گزرنے کے بعد جمع کرائے گئے، ان میں ہیرا پھیری ہوئی ہوگی، جس کی وجہ سے غیر مصدقہ نتائج کا اعلان روک دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے قرار دیا کہ این اے 175؍ کے نتائج غیر ضروری تاخیر کے بعد موصول ہوئے اور واضح کیا تھا کہ پریزائڈنگ افسران سے رابطے کیلئے کئی مرتبہ کوششیں کی گئیں لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی کہ چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) نے بذات خود پنجاب کے آئی جی پولیس سے رابطہ کیا اور متعلقہ کمشنر سے بھی رابطہ کیا کہ وہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسر اور ریٹرننگ افسر سے معلوم کریں کہ گمشدہ پریزائڈنگ افسران کہاں ہیں، لیکن وہ بھی اُن سے رابطے میں ناکام رہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے کہا کہ پنجاب کے چیف سیکریٹریٹ سے رات تین بجے رابطہ کیا گیا تاکہ گمشدہ پریزائڈنگ افسران کا پتہ لگانے اور این اے 75 کے نتائج سے بھرے پولنگ بیگز ریکور کرنے کی یقین دہانی کرائی جا سکے لیکن بعد میں وہ بھی دستیاب نہیں ہو پائے۔ 

تازہ ترین