• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اطالوی مفکر نکولو میکاولی کو علم سیاسیات کا ولی سمجھا جاتا ہے۔اس کی مشہور زمانہ تصنیف ’’دا پرنس‘‘دنیا بھر کے حکمرانوں کے لئے رشد و ہدایت کا سب سے بڑا منبع خیال کی جاتی ہے۔ اس استاد اعظم کی کتاب سے استفادہ کئے بغیر کوئی حکمران اپنے اقتدار کو دوام نہیں بخش سکتا۔اس عہد ساز تصنیف میں چالاکی، مکاری، عیاری، فریب، دغابازی اور منافقت کے ایسے ایسے راز آشکار کئے گئے ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے۔ مثلاً ایک جگہ فرمایا گیا ہے کہ سیاست میں سب سے اہم ترین بات یہ ہے کہ آپ مذہب کالبادہ اوڑھے رکھیں۔ایک اور جگہ یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ یا تو لوگوں سے پیار کرو،یا پھر انہیں کچل ڈالو

اگر تم انہیں معمولی نقصان پہنچائو گے تو وہ انتقام لیں گے لیکن اگر تم انہیں اپاہج کردو گے تو وہ کچھ نہیں کر پائیں گے۔اگر کسی کو زخمی کرنا مقصود ہو تو اس قدر گہرا گھائو لگائو کہ وہ انتقام لینے کے قابل نہ رہے۔

اس جملے میں ’’حکمت و دانائی‘‘ کے کس قدر اسرار پوشیدہ ہیں کہ دھوکہ دیکر جو چیز حاصل کی جاسکتی ہے اس کے حصول کے لئے طاقت استعمال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ڈر اور پیار سے متعلق فرمایا، دونوں ایک جگہ نہیں رہ سکتے۔لیکن اگر دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو تو پھر خوف پیار سے بہتر ہے۔یعنی حاکم وقت کو یہ فیصلہ کرنا مقصود ہو کہ وہ رعایا میں ہر دلعزیز ہو یا پھر اس کی دہشت کے چرچے ہوں تو اسے اپنی دہشت کو ہردلعزیزی پر ترجیح دینا چاہئے۔

میکاولی نے اہل اقتدار کو حکومت کرنے کے گُر بتانے کی غرض سے یہ خیالات قلمبند کئے تو سولہویں صدی کا آغاز ہو رہا تھا۔ گویانسخہ ہائے کیمیا سمجھی جانے والی یہ تصنیف 400سال پرانی ہو چکی ہے۔اس دوران حکمرانی کے اندازو اطوار بدل گئے۔ فتوحات اوربادشاہت کا دور تمام ہوا،انسانوں کی خرید و فروخت کاسلسلہ ختم ہوگیا

سائنس و ٹیکنالوجی کی حیرت انگیز پیشرفت کے باعث ترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز ہوا۔’’دا پرنس‘‘میں بیان کی گئی سدا بہار باتوں کی اہمیت اپنی جگہ لیکن اگر نکولو میکا ولی کو موقع میسر آئے،وہ ہمارے عہد میں لوٹ آئے تو یقیناً اپنے خیالات پر نظر ثانی کرتے ہوئے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا چاہے گا۔یونہی خیال آیا کہ میکا ولی موجودہ دور کے حکمرانوں کی رہنمائی کے لئے’’دا پرنس‘‘کے تازہ ایڈیشن میں کیا لکھنا چاہے گا۔

سب سے پہلے تو وہ اپنی کتاب کے پیش لفظ میں عاجزی و انکساری کا اظہار کرتے ہوئے اپنی کم مائیگی کا اعتراف کرے گا اور بتائے گا کہ اس نے اپنے تئیں جو فن دریافت کیا تھا، آج اس پر مہارت رکھنے والے ایسے باکمال فنکار موجود ہیں کہ اسے اپنے آپ پر شرمندگی اور خجالت محسوس ہو رہی ہے۔

میرے افکار آج اس قدرفرسودہ و بیہودہ محسوس ہوتے ہیں کہ میں انہیں واپس لینے پر مجبور ہوں۔ گاہے خیال آتا ہے کہ’’فوگ‘‘ کا بہانہ کرکے کہیں کھو جائوںلیکن ’’فوگ‘‘کی سہولت ہر ایک کو دستیاب نہیں ہوتی۔بہر حال، آپ کے بیحد اصرار پر میں صرف چند معروضات پیش کرنے پر اکتفا کروں گا، اگر پذیرائی میسر آئی تو ’’دا پرنس‘‘کا تازہ ایڈیشن لانے پر غور کیا جائے گا ورنہ میری سابقہ تصنیف پکوڑوں کے لئے وقف کردی جائے گی۔بدلے ہوئے حالات کے تناظر میں حسب ذیل ابتدائی گزارشات پیش خدمت ہیں:

’’اگر آپ کو شیر شاہ سوری بننے کا موقع میسر آئے تو اس پر لعنت بھیج کر آگے بڑھ جائیں کیونکہ قومیں سڑکیں اور پل بنانے سے ترقی نہیں کرتیں۔ دنیا بھر کے کئی حکمران اس مغالطے کا شکار ہیں کہ عوام کی شکایات کا ازالہ کرنے، ان کے مسائل حل کرنے، تعمیر و ترقی کے لئے اقدامات اُٹھانے یا پھر فلاحی ریاست بنانے سے مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔

اول تو مقبولیت کا یہ طریقہ بہت کٹھن ہے اور پھر آپ کو مقبولیت حاصل ہو بھی جائے تو اس کا اچار ڈالیں گے؟اگر اقتدار میں آنا ہی مقصود ہے تو اس کے اور بیشمار آسان طریقے اپنائے جا سکتے ہیں۔میں آج آپ کو اقتدار پانے، اپنی رعایا کو قابو میں لانے اور اقتدار کی مدت بڑھانے کے کچھ تیر بہدف نسخے بتانا چاہتا ہوں۔

٭چونکہ یہ انتخابی سیاست کا دور ہے، آپ نے ووٹ کی پرچی کے ذریعے ہی برسراقتدار آنا ہے اس لئے’’فوگ‘‘سے بنا کر رکھیں۔ اگر آپ نے ’’فوگ‘‘ سے تعلقات خراب کر لئے تو پولنگ ختم ہونے پر ان علاقوں میں دھند یعنی ’’فوگ‘‘بسیرا کرلے گی جہاں آپ جیت رہے ہیں۔

٭آپ منشور ضرور تیار کریں،پڑھے لکھے انداز میں مستقبل کی منصوبہ بندی بھی کریں مگر نعروں کی اہمیت کو نظر انداز نہ کریں۔ اور یہ نعرے عوامی اندازلئے ہوں، مشکل ہرگز نہ ہوں۔

٭سیاست میں منجن فروشی سب سے اہم ہے۔آپ بیشک اسے بیانیہ سازی کہہ لیں مگر سب کام چھوڑ چھاڑ کر اس کی ترویج پر توجہ دیں۔کام بیشک دھیلے کا نہ کریں مگر بیانیے کے فروغ و اشاعت پرپورا روپیہ خرچ کردیں۔

٭تاثر یہ دیں کہ ہمارا قائد ڈٹ جاتا ہے، پیچھے نہیں ہٹتا، کسی سے نہیں ڈرتا، کسی کو نہیں چھوڑتا لیکن جونہی ضرورت پڑے پیچھے ہٹنے کے بجائے دوڑلگا دیں، بیٹھنے کے بجائے لیٹ جائیں اور کسی کی باتوں میں آکر ’’شوخے‘‘نہ ہوں۔

اگر آپ کو یہ معروضات پسند آئیں تو نہ صرف مزید ٹپس دی جائیں گی بلکہ ’’داپرنس‘‘ کے نئے ترمیم اور نظر ثانی شدہ ایڈیشن کی اشاعت پر بھی غور کیا جائے گا۔

تازہ ترین