• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ناراض اراکین سے رابطے: چودھری سرور اور پرویز الہٰی نے مورچہ سنبھال لیا

وفاقی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں میں 3مارچ کو سینٹ کی 48 نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے لئے حکومتی اور اپوزیشن کی پارلیمانی جماعتوں نے اپنے اپنے امیدواروں کی کامیابی کے لئے حکمت عملی اور منصوبہ بندی مکمل کرلی ہے اور سینٹ انتخابات کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کا جوڑ توڑ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوگیا ہے۔ ان سینٹ انتخابات کے نتیجے میں موجودہ ایوان بالا کی ہیئت تبدیل ہو نے جا رہی ہے ۔ سینٹ میں بالادستی کی جنگ کے لئے حکمرا ن اور متحدہ اپوزیشن کی پارلیمانی پارٹیوں کے قائدین غیر معمولی طور پر متحرک ہوگئےہیں۔ 

پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی 11خالی کردہ نشستوں پر پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار سامنے آگئے ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں ممبران کی تعداد کے لحاظ سے پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے 5،5 سینیٹر آسانی سے منتخب ہو جائیں گے تاہم ایک جنرل نشست پر حکومتی اتحادی جماعت مسلم لیگ (ق) کے امیدوار کامل علی آغا اور مسلم لیگ (ن) کے چوتھے امیدوار کے درمیان ہی مقابلہ ہوگا۔ چودھری برادران کے جوڑ توڑ اور پیپلز پارٹی کے پنجاب سے اپنا امیدوار کھڑا کرنے سے حکومتی امیدوار کامل علی آغا کی کامیابی کا امکان روشن ہوگیا ہے جبکہ پی ٹی آئی اور مسلم لیگ (ن) کے ٹیکنو کریٹ اور خواتین کی مخصوص نشستوں پر دو دو امیدوار بیرسٹر علی ظفر، ڈاکٹر زرقا، اعظم نذیر تارڑ اور سعدیہ عباسی پہلے ہی غیر سرکاری طور پر سینیٹر منتخب ہو چکے ہیں۔ 

ان کے علاوہ 7 جنرل نشستوں پر ہونے والے انتخاب میں مسلم لیگ (ن) کے پروفیسر ساجد میر، زاہد حامد، عرفان صدیقی، بلیغ الرحمٰن، سیف الملوک اور پی ٹی آئی کے اعجاز چودھری، عون عباس، چودھری عمر سرفراز چیمہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ پرویز رشید کے ٹربیونل سے کاغذات نامزدگی منظور ہونے کی صورت میں ان کا سینیٹر منتخب ہونا یقینی ہے۔ 

پنجاب سے پی ٹی آئی کی قیادت ناراض اراکین اسمبلی کو منانے کے لئے ان سے رابطے کر رہی ہے انہیں پنجاب سے زیادہ وفاقی دارالحکومت کی نشست کی فکر ہے جہاں سینٹ انتخابات کا سب بڑا انتخابی معرکہ پی ٹی آئی کے وزیر اعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور پی ڈی ایم کے امیدوار سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے درمیان ہوگا۔ 

اس نشست کے انتخابی نتائج ملک کی آئندہ سیاست کا رخ متعین کریں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان ناراض اراکین اسمبلی کے گلے شکوے دور کرنے کے لئے خود میدان میں نکل آئے ہیں۔ ان کے علاوہ پنجاب سے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور اور وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار،اسپیکر چودھری پرویز الٰہی نے پنجاب کا مورچہ سنبھال لیا ہے۔ سینٹ انتخابات پنجاب کی قیادت کے لئے ایک امتحان بن گیا ہے۔ 

پنجاب سے تعلق رکھنے والے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے کئی اراکین حکومتی وزرا ء اور مشیروں سے نالاں ہیں۔ پنجاب میں ڈسکہ اور وزیر آباد کے دو حلقوں کے ضمنی انتخابات کے خون خرابے اور کی پولنگ سٹیشنوں کے انتخابی نتائج کی تاخیر سے انتخابی عمل مشکوک ہونے سے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے اور الیکشن کمیشن پر سوال اٹھنے لگے ہیں۔ 

صوبائی الیکشن کمشنر غلام سرور خان نے بروقت موقع پر پہنچ کر این اے 75 سیالکوٹ کا نتیجہ روک کر تحقیقات کرکے رپورٹ الیکشن کمیشن کو بھیج کر معاملہ کو کسی حد تک ٹھنڈا کردیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ، پولیس اور وزراء اور مشیروں کے ڈسکہ الیکشن کو مس ہینڈل کرنے سے پی ڈی ایم کی تحریک کو آکسیجن فراہم کر دی ہے اور ڈسکہ الیکشن کے نتائج خواہ کچھ بھی ہوں تبدیلی سرکار کو عوامی سطح پر بڑا دھچکا لگا ہے۔ اسی طرح حکومتی پارٹی نے اسلام آباد کے سینٹ الیکشن کو آسان لیا تو اس مرتبہ کوئی بڑا اپ سیٹ ہوسکتا ہے۔ 

پی ڈی ایم کا سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد سے سینٹ کاالیکشن لڑانا حکومت پر حملہ آور ہونے کے مترادف ہے۔ ضمنی انتخابات کے بعد پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کی قومی اسمبلی کی ایک ایک نشست میں اضافہ ہونے سے حکومتی اتحاد کے اراکین قومی اسمبلی کی تعداد 181 اور اپوزیشن اتحاد کے ایم این ایز کی تعدادا 159 ہوگئی ہے جبکہ سیالکوٹ کےنتائج کے بعد قومی اسمبلی کا ایوان مکمل ہو جائے گا۔ 

اسلام آباد کی نشست پر کامیابی کے لئے امیدوار کو کم از کم 172 ووٹ درکار ہوں گے، عددی لحاظ سے حکومتی امیدوار کا پلڑا بھاری ہے اور حکومتی امیدوار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی جیت کا زیادہ انحصار حکومتی اتحادی جماعتوں مسلم لیگ (ق)،جی ڈی اے اور ایم کیو ایم پر ہے۔ اتحادی جماعتوں میں ذرا سی بھی دراڑ پی ڈی ایم کے امیدوار کی کامیابی کی ہموار کر سکتی ہے۔ 

لیکن حکومتی امیدوار کو ناکام بنانا آسان کام نہیں ہوگاجو ڈاکٹر حفیظ شیخ کو اس عہدے پر لے کر آئے وہ ان کی کامیابی کے لئے آخری حد تک جائیں گے پھر بھی اگر پی ڈی ایم کے امیدوار یوسف رضا گیلانی سیٹ جیت جاتے ہیں تو یہ وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کے مترادف ہوگا۔ اس کے بعد پی ڈی ایم لانگ مارچ کے مشکل ٹاسک کی طرف جانے سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کے استعفے پر اپنا سارا زور دے گی۔ 

وزیر اعظم کو اپنی حکومت بچانے کے لئے ایوان سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینا پڑ سکتا ہے۔ پی ڈی ایم کے قائدین مولانا فضل الرحمٰن، آصف علی زرداری، میاں نواز شریف، محمود خان اچکزئی سینٹ انتخابات میں سید یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کے لئے بڑے متحرک ہوگئے ہیں۔ دو سابق وزراء اعظم شاہد خاقان عباسی اور راجہ پرویز اشرف ان کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں۔ ضمنی انتخابا ت میں پنجاب اور کے پی کے میں پی ٹی آئی کے امیدواروں نے پہلے سے زیادہ ووٹ لئے ہیں لیکن ڈسکہ اور نوشہرہ کے ضمنی انتخابات نے پی ٹی آئی حکومت کو آئینہ دیکھا دیا ہے۔ سینٹ انتخابات کے بعد اپوزیشن وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانےسمیت حکومت ہٹانے کے دیگر آئینی آپشنز پر غور کررہی ہے۔

تازہ ترین
تازہ ترین