کراچی کی نجی کمپنیوں کے سیکیورٹی گارڈزکی ویری فکیشن کے لیے آل پاکستان سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن کے دفتر میں خصوصی سیل کا قیام عمل میں آگیا ہے، ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن کا یہ مثبت اورقابل قدر قدم ہے، جس کو شہری حلقوں کی جانب سے بہت سراہا گیاہے۔ سیکیورٹی گارڈزکی ویری فکیشن کے لیے یہ خصوصی سیل کمپیوٹرائز سسٹم نادرا اور سی آراو سے منسلک ہوگا،جس کے بعد کئی مسائل حل ہوجائیں گے۔ اب سیکیورٹی گارڈکو بھرتی سے قبل تصدیقی سرٹیفکیٹ حاصل کرنا لازمی قراردیاگیاہے۔ ماضی میں نجی سیکیورٹی کمپنیوں میں بلا تصدیق سیکیورٹی گارڈز کی بھرتی کر لی جاتی تھی، جس کی وجہ سے مختلف مسائل جنم لیتے تھے۔ خصوصی سیل کی 6 رکنی ٹیم پہلے مرحلے میں نئے بھرتی شدہ سیکیورٹی گارڈز کی ویری فیکشن کرے گی۔
دوسرے مرحلے میں پہلے سے بھرتی ہونے والے سیکورٹی گارڈز کا کرمنل ریکارڈ چیک کیا جائے گا، جس کے لیے 3سافٹ ویر بنائے گے ہیں، جن میں سی آر آئی ، ون ٹو ون اور پی ایف سی شامل ہیں۔ ویری فیکشن سے کرمنل ایکٹیو ٹی میں ملوث سیکیورٹی گارڈ کو بآسانی گرفت میں لیا جاسکے گا ۔ خصوصی سیل کے افتتاح کے موقع پر کراچی پولیس چیف کا کہنا ہےکہ شہرمیں60 ہزار سے زائد پرائیوٹ گارڈ مختلف اداروں میں ڈیوٹی کررہے ہیں، 57سیکیورٹی گارڈز کی تصدیق کی گئی، جس میں سے 3کا کرمنل ریکارڈ سامنے آیاہے ، پولیس 5 ماہ سے فری رجسٹریشن کی پالیسی پر چل رہی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نجی سیکیورٹی گارڈز کی تعداد شہر میں پولیس کی تعداد سے زیادہ ہے، لیکن اسٹریٹ کرائمز کی شرح ماضی کی طر ح بر قرار ہے۔
رجسٹریشن زیادہ ہونے کی وجہ سے اسٹریٹ کرائمز زیادہ نظر آرہے ہیں، ویری فیکیشن سینٹر میں نئے بھرتی ہونے والے سیکیورٹی گارڈز کا کرمنل ریکارڈ بھی چیک کیا جاے گا ۔اس موقع پرچیئرمین سیکیورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن میجر(ر)منیر احمد نے کہا کہ 80 فی صد سیکیورٹی گارڈز عام شہری ہوتے ہیں، ہر گارڈکو3 روز کی ٹریننگ اور10راؤنڈ فائر کرائے جاتے ہیں، جب کہ مختلف سیکیورٹی کمپنیز بھی اپنے طور پر تربیت فراہم کرتی ہیں۔ فورسز کے افراد سیکیورٹی گارڈ بنتے ہیں، تو زیادہ تنخواہ کا تقاضا کرتے ہیں۔ اس وقت سیکیورٹی گارڈز کی کم از کم تنخواہ 12 سے 15 ہزار دی جاتی ہے، جب کہ مقابلے میں جاں بحق گارڈز کی کمپنیاں انشورنس کراتی ہیں۔
بلا شبہ دُنیا بھر میں امن وامان کی بحالی اور جرائم کی روک تھام میں سرکاری اور نجی سیکیورٹی اداروں کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اس کے بر عکس شہر میں موجود نجی سیکیورٹی کمپنیاں بذات خود سیکیورٹی رسک بن چکی ہیں۔ گزشتہ چند عشروں میں پولیس کی نااہلی اور ناقص کارکردگی کے باعث روشنیوں کے شہر کراچی میں بد امنی ،قتل ، دہشت گردی اور لوٹ مارکی برھتی ہوئی وارداتوں کے ستائے ہوئے شہریوں،بڑے بڑے اداروں،ملٹی نیشنل کمپنیوں مالکان ،بینکوں ، شاپنگ مالز،تاجروں، بنگلوں،کاروباری طبقے،باربر سیلون، پرچون اور دودھ کی دکانوں، گلیوں، محلوں، گھروں کے علاوہ انفرادی طور پر بلا تصدیق سیکیورٹی گارد زرکھنا فیشن بن گیا، جس کےنتیجے میں نجی سیکیورٹی کمپنیوں کے رحجان کوفروغ ملا اورجس نےمنافع بخش کا روبار کی حیثیت اختیار کرلی ۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر بھر میں نجی سیکیورٹی کمپنیوں کا جال پھیل گیا ۔
سیکیورٹی گارڈ زکی بڑھتی ہوئی ڈیمانڈکے پیش نظر جس کادل چاہا سیکیورٹی کمپنی بنا کر ملٹی نیشنل کمپنیوں ، بینکوں،اور بڑے بڑے اداروں کو بھاری پیکیجز پر سیکیورٹی گارڈز فراہم کیے جانے لگے ،بغیر ا یس او پی (standard operating procedure) اور ضابطےکے، قلیل تنخواہوں ( 12 سے 15 ہزار روپے)ماہانا کے عیوض غیر تربیت یافتہ ، ناخواندہ ، شہر اور بیرون شہر کے 20سے 65سال کے ضعیف افراد تک کو سیکیورٹی گارڈز بھرتی کر لیا جاتا ہے، جس کے منفی اثرات کی خبریں آئے روز میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہیں۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق شہر میں اس وقت 2ہزار سے زائد نجی سیکیورٹی کمپنیاں کام کررہی ہیں، جن سے 60 ہزار سے زائد سیکیورٹی گارڈز وابستہ ہیں ۔دوسری جانب سیکیورٹی فراہم کر نے والی چند نجی سیکیورٹی کمپنیاں ایسی بھی ہیں، جوایس اوپی اور ملکی قواعد و ضوابط کے تحت خدمات انجام دے رہی ہیں اور ان کےسیکیورٹی گارڈز تربیت یافتہ ریٹائر فوجی اور پولیس اہلکار ہیں ،جن کے پیکیجز بھی عام افراد اور اداروں کی سکت سےباہرہوتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ شہر میں ہونے والی بڑی بینک ڈکیتیوں کی زیادہ تر وارداتوں میں نجی کمپنیوں کے سیکیورٹی گا رڈزہی ملوث نکلے،جب کہ اتفاقیہ طور پر گولی چل جانے سے زخمی ہونے کے زیادہ ترواقعات بھی غیر تربیت سیکیورٹی گارڈز کی غفلت اور لاپروائی کے باعث پیش آتے ہیں،جب کہ خودکشی ،ذاتی دشمنی پر قتل ۔حتی کہ ٹِک ٹَاک کے شوق میں جان گنوانے دینے والے نجی سیکیورٹی گا رڈز کی خبریں بھی ریکارڈکا حصہ ہیں۔