سپریم کورٹ کی جانب سے صدارتی ریفرنس پر 8 صفحات پر مبنی رائے جاری کردی گئی، تحریری رائے میں خفیہ بیلٹنگ 1967ء کے فیصلے کا حوالہ دیا گیا ہے ۔
اوپن بیلٹ سے متعلق صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس پاکستان کی جانب سے رائے تحریر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ 1967ء کے فیصلے میں قرار دے چکا ہے کہ ووٹ کی سیکریسی دائمی نہیں ہے۔
سپریم کورٹ کی تحریری رائے کے مطابق ووٹ کے خفیہ ہونے پر آئیڈیل انداز میں کبھی عمل نہیں کیا گیا، خفیہ ووٹنگ کے عمل کو انتخابی ضروریات کے مطابق ٹیمپر کیا جاتا ہے۔
سپریم کورٹ کی رائے کے مطابق سینیٹ انتخابات آئین وقانون کے تحت ہوتے ہیں، الیکشن کمیشن آرٹیکل 218(3) کے تحت شفاف انتخابات کرانے کا پابند ہے۔
تحریری رائے میں جسٹس یحیٰ آفریدی کا کہنا ہے کہ صدر مملکت کا سوال آرٹیکل 186 کے زمرے میں نہیں آتا، صدر مملکت کے ریفرنس کو بغیر کسی جواب کے واپس بھیجا جاتا ہے، صدر مملکت کا ریفرنس واپس بھیجنے کی وجوہات بعد میں بتائی جائیں گی۔
سپریم کورٹ کا تحریری رائے میں مزید کہنا ہے کہ آرٹیکل 222 کے تحت پارلیمنٹ کا اختیار ہے کہ الیکشن معاملات میں قانون سازی کرے، آئین واضح کرتا ہے پارلیمان کسی بھی قانون سازی سے الیکشن کمشنر کی پاورز پر اثر انداز نہ ہو۔