سابق حکومت کی بدانتظامی کے باعث نہ صرف ملکی معیشت تباہ ہوئی اور اداروں کو نقصان پہنچا بلکہ ملک قرضوں میں ڈوب گیا، جسے ہمارے بچے اور ان کے بچے مستقبل میں اضافی ٹیکسوں کی شکل میں ادا کرتے رہیں گے۔ ہمیں قرضوں کے ضخیم حجم اور ان میں اضافے کے بارے میں کیوں فکرمند ہونا چاہئے؟ کیوں کہ یہ کئی وجوہات کی بنا پر معاشی ترقی کی راہ میں سنجیدہ خطرہ ہے، یہ مجموعی قومی پیداوار کی راہ میں حائل بڑی رکاوٹ کا کام کرتا ہے لہٰذا جس کے نتیجے میں یہ روزگار کے مواقع پیدا کرنے اور غربت کے خاتمے میں بھی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے۔ بڑھتے ہوئے قرضے ملکی اور بیرونی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ قرضے شرح مبادلہ پر دباوٴ ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے اس میں شدید گراوٹ آتی ہے، ملکی قرضوں اور افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے۔ پاکستانی معیشت کی موجودہ شکل بڑھتے ہوئے قرضوں کے منفی اثرات کی عکاسی کرتی ہے۔ اندرونی اور بیرونی قرضے پچھلے پانچ سال میں جس رفتار سے بڑھے ان کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ روپے اور ڈالر کی دونوں کرنسیوں میں لئے جانے والے اندرونی قرضوں میں پچھلے پانچ سالوں (2008-13ء) میں 21.5فیصد کی اوسط شرح کے ساتھ اضافہ ہوا۔ ملکی قرضے جون 2008ء میں 60کھرب تھے جبکہ مارچ 2013ء تک ان میں 136کھرب تک اضافہ ہوگیا۔ اس سے مراد ہے کہ 5سال سے کم عرصے میں ملک کے اندرونی قرضوں میں 76کھرب روپے کا اضافہ ہوا۔ ملکی قرضوں میں اندرونی قرضے، بیرونی قرضوں کے مقابلے میں24.1فیصد کی تیز سالانہ شرح سے بڑھے۔ پاکستان کے تناظر میں اندرونی قرضوں میں غیرمعمولی اضافہ زیادہ تشویشناک ہے کیونکہ یہ بیرونی قرضوں کی نسبت زیادہ مہنگے ہوتے ہیں۔2012-13ء میں قرضوں کے سود کی ادائیگی 10/ارب روپے سے تجاوز کرکے بجٹ میں اخراجات کا سب سے بڑا واحد جزو بن گئی ہے، جس میں سود کی ادائیگی کل رقم کی 90فیصد سے زائد ہوچکی ہے۔ گزشہ برسوں میں بڑے پیمانے پر تواتر سے بجٹ خسارے اور بیرونی آمد زر میں کمی کی وجہ سے حکومت کو بجٹ خسارے کو پورا کرنے کیلئے اندرونی ذرائع پر انحصار کرنے پر مجبور کردیا۔ پچھلے پانچ سالوں میں اندرونی قرضوں کے اندر بھی تبدیلیاں رونما ہوئیں، درمیانی مدت سے طویل مدتی قرضے قلیل مدتی قرض (ایک سال یا اس سے کم مدت) میں بدل گئے جس سے حکومتی قرضوں کے انتظام کے عمل میں سنگین نتائج مرتب ہوئے۔ آج اندرونی قرضوں کا 54فیصد قلیل مدتی قرض کی صورت میں ہے جس کی میعاد قریباً ہر ایک برس بعد پوری ہوتی رہے گی۔ پاکستان کے بیرونی قرضے اور واجب الادا رقوم (ای ڈی ایل) کا حجم جون 2008ء میں46/ارب ڈالر سے ستمبر 2012ء تک 66/ارب ڈالر تک تجاوز کرگیا تھا لیکن مارچ2013ء میں یہ رقم 61/ارب ڈالر ہو گئی جس کی وجہ ایک طرف روانگی زر میں کمی تو دوسری جانب بیرونی قرضوں کی تسلسل کے ساتھ ادائیگی تھی۔ اگر2010ء میں آئی ایم ایف پروگرام معطل نہ ہوا ہوتا تو بیرونی قرضوں کے حجم میں8-9/ارب ڈالر کا مزید اضافہ ہوگیا ہوتا۔ دوسرے لفظوں میں پاکستان کا بیرونی قرضوں کا حجم (ای ڈی ایل)اب تک 74-75/ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ گیا ہوتا۔ سرکاری قرضوں میں بے مثال اضافے میں کون سے عوامل ذمہ دار ہیں؟
سب سے نمایاں عوامل میں متواتر اور خطیر کرنٹ اکاوٴنٹ اور مالی خسارا، شرح مبادلہ میں شدید کمی (شوکت ترین کا مظہر) اور قرضوں کے حصول میں کمی نہ کرنا شامل ہے۔ صرف شرح مبادلہ میں کمی کی وجہ سے سرکاری قرضوں میں 1500/ارب روپے یعنی 18.5 فیصد کا اضافہ ہوا۔ پاکستان کی60 سالہ تاریخ میں جتنا قرضہ جمع ہوا تھا سابقہ حکومت نے اس سے زیادہ قرضہ صرف 5سالوں میں لے لیا اور اسے اس حوالے سے یاد رکھا جائے گا۔ ملک کو قرضوں میں ڈبونے کے حوالے سے سابق مشیر خزانہ کا کردار بھی اہم ہے۔ مشیر خزانہ نے آئی ایم ایف سے11/ارب ڈالر کا پروگرام طے کیا تھا، انہوں نے کبھی نہیں سوچا کہ پاکستان کو اتنی بڑی رقم پروگرام کے اختتام کے دو سالوں کے اندر ادا کرنی ہوگی۔ شاید انہوں نے کبھی بڑھتے ہوئے قرضوں کے نتائج کے حوالے سے نہیں سوچا، جس میراث کی ادائیگی پاکستانی بچوں کو آنے والی کئی دہائیوں تک کرنا پڑے گی۔ مشیر خزانہ نے نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) کی بھی سربراہی کی اور ایک ایسا ایوارڈ مرتب کیا جس میں فنی خامیاں تھیں اور جس کی وجہ سے ملک میں معیشت کلاں کے متواتر بحران کے بیج بو دیئے گئے۔ این ایف سی ایوارڈ نے صوبوں کو مالی امور کے حوالے سے غیر ذمہ دار ہونے کی حوصلہ افزائی کی، مالی بدانتظامی کو فروغ ملا جس کے نتیجے میں بڑا مالی خسارا پیدا ہوگیا۔ روپے کی قدر میں کمی سرکاری قرضوں میں بے مثال اضافے کا باعث بنی، روپے کی قدر میں شدید کمی سے گشتی قرضے میں اضافے اور توانائی کا بحران پیدا بھی ہوا اور افراطِ زر کا دباوٴ بھی تسلسل کے ساتھ رہا۔ سابق مشیر خزانہ کی فاش غلطی کے سبب پاکستان اب دیوالیہ ہونے کے دہانے پر پہنچ گیا ہے۔ روانگی زر کی غیر موجودگی میں آئی ایم ایف پروگرام کی معطلی سے اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں جولائی2011ء سے قرضوں کی ادائیگی کی وجہ سے 8/ارب ڈالر کی کمی واقع ہوئی جس میں آئی ایم ایف کی ادائیگیاں بھی شامل ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر انتہائی کم سطح تک پہنچ گئے ہیں اور30 جون 2013ء تک ان ذخائر کا 3سے3.5/ارب ڈالر کی حد تک پہنچنے کا امکان ہے (زرمبادلہ کے ان اعدادوشمار میں نجی بینکوں سے لئے گئے زرمبادلہ کی رقوم شامل نہیں ہیں)۔ ہر ممکن طور پر سابق مشیر خزانہ کے ملک کو قرضوں میں ڈبونے، گشتی قرضے کو بڑھانے اور معیشت کلاں کے متواتر بحران کے بیج بونے میں کردار کو بالعموم پاکستانی عوام اور بالخصوص معاشیات کے طالب علم کبھی نہیں بھولیں گے۔ ملک کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے کیا کرنے کی ضرورت ہے؟ پہلا نئی حکومت کو اپنی مدت اقتدار کے اختتام تک بجٹ خسارے کو مجموعی قومی پیداوار(جی ڈی پی) کا3.0-3.5 فیصد کی شرح تک لانا ہوگا اور اس مقصد کیلئے قابل اعتماد اقدامات کرنا ہوں گے۔ بجٹ خسارے میں کمی لازمی طور پر ٹیکس وسائل کو بڑھانے سے ہوگی، اس کیلئے ٹیکس کی بنیاد میں اضافہ، ٹیکس کی شرح میں کمی اور ٹیکس نظام کو مستحکم بنانا ہو گا۔ اخراجات کو متصف کرنا خسارے میں کمی کی مشق کا لازم و ملزوم حصہ ہونا چاہئے۔ حکومت کو قومی اداروں کے حوالے سے بردباری پر مبنی اقدامات کرنا ہوں گے۔ جتنا جلدی ان کی نجکاری ہوجائے اتنا ہی معیشت اور قرضوں کی صورتحال بہتر بنانے کیلئے اچھا ہے۔ دوسرا، ملک کے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کیلئے شرح مبادلہ میں استحکام لازمی ہے۔ تیسرا، معاشی بحالی قرضوں میں کمی لانے کی تذویر کا لازم و ملزوم جزو ہونا چاہئے۔ چوتھا، ملکی قرضوں کی انتظامیہ کیلئے وزارت خزانہ کا متحرک ڈیٹ آفس بالکل لازمی ہے، آج کل یہ آفس بالکل ناکارہ ہوچکا ہے۔ پانچواں، این ایف سی ایوارڈ کی فنی خامیوں کو دور کئے بغیر ملک میں مالی نظم قائم نہیں ہو سکتا لہٰذا اس سے قرض کے بوجھ میں کمی نہیں ہوتی۔ بالآخر مالی ذمہ داری اور قرضوں کو محدود کرنے کے 2005ء کے ایکٹ کی عمر 30جون 2013ء تک تمام ہوجائے گی۔ نئی حکومت کو ملک میں مالی نظم کیلئے نئے قانون کا نفاذ کرنا ہوگا۔ آج ہر بچہ پیدائشی طور پر83,000روپے کا مقروض ہے۔ بیرونی قرضوں میں اضافہ تباہی کی راہ ہے۔ کیا ہماری سیاسی قیادت اس موقع پر آگے بڑھ کر ملکی قرضوں کو استحکام دے سکے گی؟