• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اب جبکہ آنے والی حکومت منصوبہ بندی کررہی ہے کہ معاملات مملکت کو کیسے چلایا جائے۔ ایک اہم نکتہ جس کی جانب عمران خان نے بار بار یاد دہانی کرائی تھی وہ یہ ہے کہ چار مختلف درجوں اور طریقوں کے طرز ہائے تعلیم کو یکساں کیا جائے گا۔ اس وقت پاکستان میں مندرجہ ذیل طریقہ تعلیم رائج ہیں۔
(1) انگریزی (2) سرکاری (3) این جی او اور پرائیویٹ اسکول اور (4) مدرسے۔ زبیدہ مصطفی نے اس موضوع پر بہت تحقیق کی ہے۔ عالمی سطح پر طرز تعلیم کے تجربات کو انہوں نے کھنگالا ہے۔ مونٹیسوری طریق تعلیم سے لے کر ڈاکٹر طارق رحمن کی تحقیق اور نوم چومسکی کے تجزیئے کو سامنے رکھ کر، بہت سے نتائج کا نتارا کیا ہے۔ ان کے نقطہ نظر سے تیسری دنیا کے طریق تعلیم اور ذریعہ تعلیم میں سب سے اہم مروج اور پسندیدہ ذریعہ تعلیم انگریزی ہے۔ غریب سے غریب خاندان اپنے بچوں کو انگلش میڈیم اسکول میں بھاری فیس ادا کرکے داخل کراتے ہیں۔ اثر ماں باپ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ہمارے بچوں کو اردو پڑھنا نہیں آتا ہے۔ رہا مادری زبان کا مسئلہ تو سندھ کے چند علاقوں کے علاوہ، مادری زبان میں پڑھانا کسر شان سمجھا جاتا ہے جبکہ میں نے بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں پرائمری اسکولوں میں استادوں کو پڑھاتے ہوئے دیکھا ہے کہ قاعدہ تو اردو میں ہے مگر استاد پڑھا رہے ہیں بلوچی میں اور بچے بھی تصویروں کی مدد سے بلوچی ہی میں یاد کررہے ہیں۔ یہی حال پنجاب اور پختونخوا کا ہے۔ اس بار میں اور ان تضادات کے حوالے سے بہت سے مغربی مفکرین کے علاوہ پاکستان میں بنائی جانے والی مختلف کمیٹیوں نے بھی یہی سفارش کی ہے بچوں کو تیسری جماعت تک مادری زبان میں تعلیم دینی چاہئے۔ اس کے بعد اردو اور انگریزی میں درسی تعلیم دی جاسکتی ہے۔
بہت سے ماہرین نفسیات اور عمرانیات کا کہنا ہے کہ بچہ چھ ماہ بعد، ماں کے پیٹ ہی میں لفظوں کی بنت سیکھنا شروع کردیتا ہے۔ پیدائش کے چھ ماہ کے اندر غوں غاں کرنا شروع کرتا ہے۔ نو ماہ کی عمر میں کچھ بنیادی حروف بولنا شروع کردیتا ہے اور ڈیڑھ سال کی عمر میں باقاعدہ بولنا شروع کردیتا ہے۔ بہت سے ماں باپ آپس میں مادری زبان میں گفتگو کرتے ہیں جبکہ بچوں کے ساتھ اردو بولتے ہیں۔ بہت سے شوہر میاں بیوی کے تقدس کو قائم رکھنے کے لئے بیوی کے ساتھ بھی پنجابی میں نہیں اردو میں بات کرتے ہیں۔ رہا اسکولوں میں پڑھائی جانے والی زبان، کچی پکی ہی سے اردو سکھائی جاتی ہے خود اسکولوں میں بچے ظروف کا مطلب تصویر میں برتنوں کو دیکھ کر اونچی آواز میں کہتے ہیں ”پانڈے“ جبکہ ع کا مطلب تصویر میں بابے کو دیکھ کر وہ عینک نہیں بلکہ بابا کہتے ہیں۔ مونٹیسوری طریق تعلیم میں وضاحت سے کہا گیا ہے کہ بچوں کو ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دی جانی چاہئے۔ البتہ تیسری جماعت سے دو اور زبانیں یعنی انگریزی اور اردو پڑھانی شروع کردینی چاہئے۔ تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ہمارے ملک میں طرز تعلیم بار بار بدلا جاتا ہے۔ ایک دفعہ کہا گیا کہ بچوں کو کچی پکی ہی سے انگریزی پڑھائی جائے گی۔ قاعدے بھی بن گئے مگر اس درجے کے استادوں کو خود انگریزی نہیں آتی تھی۔ ان استادوں کی تربیت بھی نہیں کی گئی تھی۔ آخر کو وہ منصوبہ لپیٹ دیا گیا۔اب اٹھارہویں ترمیم کے بعد، ہر چند تعلیم کو صوبوں کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ ہم لوگوں نے شور مچایا تھا کہ انتظامی سطح پر تعلیم، صوبوں کے اختیار میں ہو مگر نصاب بنانے کا کام مرکزی سطح پر ہونا چاہئے کہ تحریک پاکستان سے لے کر سقوط مشرقی پاکستان کو وضاحت سے بیان کیا جائے۔پاکستان کے شروع دنوں سے ہی لسانی تضادات اور جھگڑے ہوگئے تھے۔ 1973ء میں سندھ میں لسانی فسادات کے بعد، اسکولوں میں سندھی پڑھانے کا اصول مروج ہوا۔ بہت لوگوں نے منہ بنایا مگر پھر اس طرز تعلیم کو تسلیم کرلیا گیا۔ پھر بھی سندھ کی تاریخ، معاشرتی علوم میں پڑھائی نہیں جاتی ہے۔ صوبوں کی تاریخ بنیادی سطح پر پڑھائی جائے اور وہ بھی مادری زبان میں تو بچوں کو اپنے علاقے سے پیار ہوگا اور بنیادی سطح پر ذہنی تربیت ہوگی۔ کہا جاتا ہے کہ سائنسی مضامین آپ کی قومی زبان میں نہیں پڑھائے جاسکتے ہیں۔ہر چند کہ چین، کوریا اور ایران نے اس مفروضے کو اپنے اپنے ممالک میں غلط ثابت کردیا ہے مگر ہم تو یہ ضد کر ہی نہیں رہے کہ سارے مضامین اور سارے درجات میں قومی زبان میں پڑھائے جائیں۔ ہم تو بین الاقوامی سطح پر یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تیسری کلاس سے اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں تعلیم کا سلسلہ شروع کیا جائے اور جب سینئر کلاسز شروع ہوں تو بچے جس زبان خاص کر انگریزی میں اس لئے تدریس حاصل کریں کہ دنیا بھر میں گلوبل تعلیم کا جو سلسلہ ہے اس میں ہمارے بچے بھی شامل ہوسکیں۔
زبیدہ مصطفی نے بہت سے ماہرین تعلیم کی رائے بھی لی ہے اور تجربے نے یہ سکھایا ہے کہ مساوی طریق تعلیم کے باعث، بچوں میں نفسیاتی مسائل پیدا نہیں ہوتے ہیں۔ بہت سے بچے انگریزی سمجھ رہے ہوتے ہیں مگر ذہن ناپختگی کے باعث مافی الضمیر کو انگریزی میں بیان نہیں کرسکتے ہیں۔ بچوں کو شروع ہی سے اونچی آواز میں سبق بیان کرتے، اپنا لکھا ہوا مضمون اونچی آواز میں پڑھنے کی تربیت دی جائے۔ شعر کے سلسلے میں بیت بازی کرنی شروع ہی سے سکھائی جائے تو بچوں میں نہ صرف اپنے بیان میں اعتماد کی قوت آئے گی بلکہ ایسے بچے تقریری مقابلوں میں بھی اپنے ذہن کو استعمال کرنے کی صلاحیت کو فروغ دیں گے۔ یوں طریق تعلیم وہ ان چاروں اسکولوں کے ڈبوں کو توڑ کر، یکساں اور مساوی طریق تعلیم کو فروغ ملے گا۔ بہت مشکل کام ہے۔ ہمارے دیہات میں ہزاروں بچے بلکہ لاکھوں بچے مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ان کے ٹوپی منڈھے سروں میں کچھ نئی ایجادات کے خلئے زندہ ہوں گے۔ وہ بچے جو خود کو انگریزی بولنے کی مہارت رکھنے پر خود کو برتر سمجھنے لگتے ہیں۔ ان کا غرور بھی ذرا نیچے آئے گا۔ زبان کے بارے میں بے حسی دور کرنے کی بے پایا ضرورت ہے۔ خاص کر مادری زبان کی جانب فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تازہ ترین