• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدارتی ریفرنس کے حوالے سے جاری سپریم کورٹ کی رائے کا متن

سپریم کورٹ آف پاکستان ایڈوائزری دائرہ اختیار چیف جسٹس گلزار احمد ، جسٹس مشیر عالم ،جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس یحیٰ آفریدی ،صدر مملکت نے یہ ریفرنس آئین کے آرٹیکل 186کے تحت دائر کیا ہے

جس میں وفاق کی جانب سے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان اور ان کی ٹیم ، قومی اسمبلی کی جانب سے عبدالطیف یوسفزئی اور ٹیم، سینٹ کی جانب سے سینیٹر محمد علی سیف اور ٹیم ، الیکشن کمیشن کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ ، اور چاروں صوبائی اراکین الیکشن کمیشن ،بمعہ لیگل ٹیم ،حکومت پنجاب کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس اور ان کی ٹیم، حکومت سندھ کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل سلمان طالب الدین اور ان کی ٹیم ، حکومت خیبر پختونخوا کی جانب سے ایڈوکیٹ جنرل شمائل احمد بٹ اور ان کی ٹیم، حکومت بلوچستان کی جانب سے ایڈووکیٹ جنرل ارباب محمد طاہر اور ان کی ٹیم جبکہ اسلام آباد سے ایڈووکیٹ جنرل نیاز اللہ نیازی پیش ہوئے ہیں

جمیعت العلمائے اسلام کی جانب سے کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ ، سندھ ہائی کورٹ بار ایسویسی ایشن کی جانب سے صلاح الدین ایڈووکیٹ، پیپلز پارٹی کی جانب سے رضا ربانی ایڈووکیٹ،جماعت اسلامی کی جانب سے ا شتیاق احمد راجہ ایڈووکیٹ، مسلم لیگ ن کی جانب سے بیرسٹر ظفراللہ ایڈووکیٹ جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کی جانب سے فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ پیش ہوئے ،خرم شہزاد چغتائی ایڈوکیٹ،اظہر اقبال ایڈووکیٹ اوروحید احمد کمال ایڈووکیٹ ذاتی حیثیت میں پیش ہوئے

کیس کی پہلی سماعت 4جنوری 2021کو اور آخری سماعت 5فروری 2021کو ہوئی یوں کل 19سماعت ہوئیں ،::::رائے:::: صدر مملکت نے آئین کے آرٹیکل 186کے تحت رائے لینے کے لئے یہ ریفرنس سپریم کورٹ کو بھیجا ہے جس میں سوال اٹھایا گیا ہے کہ آیا کہ آئین کے آرٹیکل 226کے تحت خفیہ بیلٹ کی شرط صرف آئین کے ما تحت منعقد ہونے والے انتخابات پر ہی لاگو ہوتی ہے یا نہیں ،جیسے صدر مملکت ، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ ، صوبائی اسمبلیوں کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکرز کے انتخابات؟لیکن دیگر انتخابات پر نہیں لاگو ہوتی جیسے سینٹ کے انتخابات ، الیکشن ایکٹ 2017 جسے آئین کے آرٹیکل 222کے،انٹری 41پارٹ 1شیڈیول 4کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے گا ،جوکہ خفیہ یا کھلے عام منعقد ہوسکتے ہیں، جیسا کہ الیکشن ایکٹ 2017میں بیان کیا گیا ہے ،عدالت نے قرار دیاہے کہ ہم نے اٹارنی جنرل ، چاروں صوبائی اوراسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل ،قومی اسمبلی ،سینٹ ،الیکشن کمیشن ،سیاسی جماعتوں ،پاکستان بار کونسل ، سندھ بار ایسوسی ایشن اور انفرادی طور پر ذاتی حیثیت میں پیش ہونے والے بعض درخواست گزاروں کا موقف سنا ہے

تفصیلی رائے بعد میں دی جائے گی ، تاہم ریفرنس کا جواب یہ ہے کہ (1)سینٹ کا الیکشن آئین اور قانون کے ماتحت منعقد ہوتا ہے (2)جیسا کہ سپریم کورٹ 2012میں ورکرز پارٹی بنام وفاق کے مقدمہ میں قرار دے چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ ،صاف ،شفاف، اور قانون کے مطابق بنائے جو کرپٹ پریکٹسز سے پاک ہوں ،(3)آئین الیکشن کمیشن سے اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ آرٹیکل 222کے تحت انتخابات میں بدعنوانی اور کسی بھی قسم کے جرائم سے متعلق تمام تر ضروری اقدامات اٹھائے ، اگرچہ آئین پارلیمنٹ کو کرپٹ پریکٹسز اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے سے متعلق قانون سازی کا اختیار دیتا ہے

لیکن آئین کے پارٹ 8 کے چیپٹر 1کے تحت کوئی بھی قانون الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات پر اثر انداز یا الیکشن کمیشن کو حاصل اختیارات میں کمی نہیں کرسکتا ہے ،(4)آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت تمام وفاقی اور صوبائی حکام الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں ان کی معاونت کے پابند ہیں

(5)جہاں تک ووٹ کی سیکریسی کا تعلق ہے اس حوالے سے 1967میں سپریم کورٹ کا ایک پانچ رکنی لارجر بنچ نیاز احمد بنام عزیز الدین کے مقدمہ میں طے کرچکاہے کہ ووٹ کی سیکریسی کبھی بھی مطلق یا قطعی نہیں ہوتی ہے اور ووٹ کی سیکریسی پر آئیڈیل یا قطعی حوالے سے عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا ہے

(6)آئین کا آرٹیکل 218(3)(جسے آرٹیکل 220 اور آئین اور قانو ن کی دیگر پرویژنز کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے گا )کے تحت، الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ ،صاف ،شفاف، اور قانون کے مطابق اور کرپٹ پریکٹسز کو روکنے جیسے مقد س مقاصدکے حصول کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سمیت تمام تر دستیاب اقدامات کرے گا

جسٹس یحیٰ آفریدی نے اپنے اختلافی نوٹ میں قرار دیاہے کہ نہایت ادب کے ساتھ کہا جاتا ہے صدر مملکت نے جس معاملے سے متعلق رائے طلب کی ہے ،وہ آئین کے آرٹیکل 186کے تحت قابل غور ہی نہیں ہے ،اس لئے میں اس پر کوئی بھی جواب نہیں دے رہا ہوں اور جواب نہ دینے کے حوالے سے تفصیلی وجوہات بعد میں قلمبند کی جائیں گی۔ ،عدالت کی رائے ،،تفصیلی وجوہات بعد میں قلمبند کی جائیں گی ، اس ریفرنس پر چار ،ایک کی رائے دی جاتی ہے ،جس میں جسٹس یحیٰ آفریدی کا اختلافی نوٹ بھی شامل ہے

(1)سینٹ کا الیکشن آئین اور قانون کے ماتحت منعقد ہوتا ہے (2)جیسا کہ سپریم کورٹ 2012میں ورکرز پارٹی بنام وفاق کے مقدمہ میں قرار دے چکی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ ،صاف ،شفاف، اور قانون کے مطابق بنائے جوکہ کرپٹ پریکٹسز سے پاک ہوں ،(3)آئین الیکشن کمیشن سے اس بات کا تقاضہ کرتا ہے کہ وہ آرٹیکل 222کے تحت انتخابات میں بدعنوانی اور کسی بھی قسم کے جرائم سے متعلق تمام تر ضروری اقدامات اٹھائے

اگرچہ آئین پارلیمنٹ کو کرپٹ پریکٹسز اور دیگر غیر قانونی سرگرمیوں کو روکنے سے متعلق قانون سازی کا اختیار دیتا ہے لیکن آئین کے پارٹ 8 کے چیپٹر 1کے تحت کوئی بھی قانون الیکشن کمشنر یا الیکشن کمیشن کے اختیارات پر اثر انداز یا الیکشن کمیشن کو حاصل اختیارات میں کمی نہیں کرسکتا ہے

(4)آئین کے آرٹیکل 218(3)کے تحت تمام وفاقی اور صوبائی حکام الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں ان کی معاونت کے پابند ہیں

(5)جہاں تک ووٹ کی سیکریسی کا تعلق ہے اس حوالے سے 1967میں سپریم کورٹ کا ایک پانچ رکنی لارجر بنچ نیاز احمد بنام عزیز الدین کے مقدمہ میں طے کرچکاہے کہ ووٹ کی سیکریسی کبھی بھی مطلق یا قطعی نہیں ہوتی ہے اور ووٹ کی سیکریسی پر آئیڈیل یا قطعی حوالے سے عملدرآمد نہیں کیا جاسکتا ہے

(6)آئین کا آرٹیکل 218(3)(جسے آرٹیکل 220 اور آئین اور قانو ن کی دیگر پرویژنز کے ساتھ ملا کر پڑھا جائے گا )کے تحت، الیکشن کمیشن انتخابات کے انعقاد کو ایماندارانہ ،صاف ،شفاف، اور قانون کے مطابق اور کرپٹ پریکٹسز کو روکنے جیسے مقد س مقاصدکے حصول کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سمیت تمام تر دستیاب اقدامات کرے گا۔

تازہ ترین