سپریم کورٹ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دوران سماعت ساتھی جج سے سوال پوچھ لیا۔
سپریم کورٹ میں نظرثانی درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس قاجی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے جج اور اہلخانہ کے خلاف سرکاری چینل سے پراپیگنڈا کیا گیا، یہ جنگ اپنے ادارے کے لیے لڑ رہا ہوں۔
انہوں نے جسٹس عمر عطا بندیال کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ اگر میری جگہ آپ کی اہلیہ اور بچے ہوتے تو آپ لوگ کیا کرتے؟
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ وزیراعظم عمران خان، صدر عارف علوی اور وفاقی وزراء ذاتی حیثیت میں گفتگو کرسکتے ہیں تو کیا میں بطور جج ذاتی حیثیت میں بھی بات نہیں کرسکتا؟
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ بعض اوقات ذاتی معاملات میں اچھا رویہ رکھنا مشکل ہوتا ہے، اعتراضات اور سوالات پر توقع ہے آپ تحمل کا مظاہرہ کریں گے۔
انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا کہ اگر کچھ لوگ آپ کے خلاف ہیں تو آپ کے حامی بھی ہیں۔
اس سے قبل کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کی اقتدار کی ہوس نے ملک تباہ کردیا، سانحہ مشرقی پاکستان پر بات کی جائے تو خاموش کرادیا جاتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ صحافیوں کو اسلام آباد سے اغوا کرلیا جاتا ہے، وزیراعظم کہتے ہیں مجھے کیا معلوم کیا ہوا، ذمہ داروں کا نام بتائیں تو ان کے خلاف ریفرنس آجائے گا، لگتا ہے آج ہم پاکستان میں نہیں گٹر میں رہ رہے ہیں۔
اس پر جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ جج صاحب یہ قانون کی عدالت ہے، آپ کو کسی سے مسئلہ ہے تو اُسے عدالت سے باہر رکھیں، بہتر ہوگا کہ ہم اپنی حدود سے باہر نہ نکلیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ کوئی صحافی اغوا ہوا ہے تو اس کی الگ سے پٹیشن دائر کریں۔