’’سازش سازش سازش !پاکستان کے خلاف بین الاقوامی سازش، صہیونیوں کی سازش، مغرب کی سازش۔ اکثر مجلسوں میں کسی نہ کسی سازش کا ذکرسنتا ہوں یہ سب سازشی تھیوریاں ہیں اورمیں کسی سازشی تھیوری (Theory) پر یقین نہیں رکھتا‘‘۔
بعض پڑھے لکھے لوگ یہ باتیںاپنے آپ کو زیادہ حقیقت پسند ثابت کرنے کے لئے کہتے ہیں ۔لیکن اکثر اوقات حقیقت اسکے برعکس ہوتی ہے۔ اگر آپ صرف ایک کتاب ہی پڑھ لیںتو آپ پر ایسی سازشوں کی حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی آپ جان لیں گے کہ امریکہ اورسی آئی اے سمیت بعض ملک اورانکے جاسوسی ادارے اپنے دشمن بلکہ بظاہر دوست ممالک اور ایسے لیڈروں کے خلاف جن سے انہیں مستقبل میں خطرہ محسوس ہورہا ہو منظم سازش کرتے ہیں۔ ا س کتاب کا نام (2004) Confessions of an Economic Hit Man ( معیشت کے ایک اجرتی قاتل کے اعترافات) ہے اور اسے امریکی شہری جان پرکنز(john perkins) نے لکھا ہے ۔ جان پرکنز مختلف بین الاقوامی اور اقتصادی اداروں میں کام کرتا رہا۔ پھر اس سے چند ایشیائی ملکوں کی معیشت کو نقصان پہنچانے کے لئے کام لیا گیا ۔
آجکل پاناما لیکس کا بڑا چرچا ہے اور کئی ملکوں میں طوفان برپا ہے ۔ 4 اپریل کو آف شورکمپنیوں میں روس ،چین ،یورپی یونین کے ممالک اور وزیر اعظم کے بیٹوں سمیت پاکستان کے بہت سے بڑے لوگوں کے نام جمع خطیر دولت کا انکشا ف ہوا ۔سادہ لوح اور بین الاقوامی سازشوں سے ناواقف لوگ اسے بہت بڑا کارنامہ قرار دے رہے ہیں لیکن حقائق پر نظر رکھنے والے صاحبان علم و دانش جانتے ہیں کہ یہ ایک بہت بڑی سازش ہے۔ 6اپریل کو ایک غیر ملکی میڈیا چینل نے مجھ سے اپنے پروگرام میں پاناما لیکس پر بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ۔میں نے کہا کہ مجھے ان لیکس کا تفصیلی مطالعہ کرنے کا موقع نہیں ملا البتہ میں انہیں اس زاویے سے دیکھ رہا ہوں کہ روس ،چین ،یورپی یونین کے ممالک اور پاکستان وغیرہ میں تو گنہگار انسان بستے ہیں لیکن امریکہ اور اسرائیل میں فرشتے رہتے ہیں ۔اینکر پرسن ہنس دیں اور کہا ’’آپ کے نقطہ نظر میں خاصا وزن ہے ‘‘۔میں نے آئندہ کسی پروگرام میں شرکت کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے محترمہ کو خداحافظ کہہ دیا ۔
اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے میں قارئین کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلانا چاہتا ہوں کہ اس وقت اقتصادی ترقی کی جاری طاقتور لہر کے ثمرات سے با لخصوص امریکہ محروم ہے۔ اس لہر کو برپا کرنے والے انتہائی قابل، ذہین، تجربہ کار ،بہادر اور جاندار کردار روس، چین، ترکی اور کچھ دیگر ممالک میں قیادت کر رہے ہیں۔پاکستان میں وزیراعظم نواز شریف چین،جیسے پڑوسی اوردوست ممالک کی مدد سے یہی کام زورو شور سے کر رہے ہیں۔ امریکہ بلا شبہ دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت ہے۔ معاشی لحاظ سے بھی بہت مضبوط ہے لیکن اب چین اقتصادی میدان میں مجموعی طور پر اس پر سبقت لے رہا ہے ۔اسی طرح جناب پیوٹن کی قیادت میں روس بھی بہت بڑی طاقت بن چکا ہے۔ روس اوردو ایک ملکوں کو ایک طرف رکھ دیں تو اقتصادی ترقی کی یہ لہر ایشیائی ملکوں میں ہی برپا ہے اور امریکہ میں مختلف طاقتور لابیاں اور طاقت کے مراکز اسے مستقبل میں اپنے لئے خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ اس طاقتور لہر اور اسے برپا کرنے والے کرداروں کو تباہ و برباد کرنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ لوگ ایشیائی ممالک کو ان قیادتوں سے محروم کر کے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو اقتصادی لحاظ سے اہل اور بہادر قیادت کے دوبارہ ابھرنے اور اقتصادی انقلاب کی قیادت کرنے میں کم از کم پندرہ سے بیس سال لگ سکتے ہیں۔ یوں امریکہ کو اس عرصے میں من مانیاں کرنے کا بھرپور موقع مل سکتا ہے۔ لیکن یہ بات بہت حوصلہ افزاء ہے کہ چین اور روس سمیت بہت سے اہم ممالک نے اس سازش کو ناکام بنا دیا ہے جبکہ چند چھوٹے ملکوں میں یہ سازش کسی حد تک کامیاب ہوگئی ہے۔ پاکستان میں بھی بعض سیاسی کردار اس سازشی ایجنڈے پر عمل کر کے پاکستان کو اقتصادی ترقی سے محروم کرنے کی خاطر وزیراعظم نواز شریف کے خلاف متحرک ہو چکے ہیں۔ ان میں قابل ذکر کردار تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کا ہے۔ عمران خان کو وزیر اعظم بننے کا خواب دکھایا گیا تھا۔ یہ خواب دکھانے والے کچھ ملکی، کچھ غیرملکی کردار اور ایک نجومی ہیں جنہیں میں جانتا ہوں۔ بدقسمتی سے عمران خان انتخابات میں دکھائے گئے خواب کے مطابق ’’جھاڑو ‘‘ نہ پھیر سکے اور وزیراعظم بننے سے محروم ہوگئے۔ وہ اپنی اس محرومی کا ذمہ دار نواز شریف کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے تو محترمہ جمائمہ سے طلاق کا ذمہ دار بھی نون لیگ والوں کو ٹھہرادیا تھا۔
ادھر دشمن اور دوست نما دشمن طاقتیں بھی نواز شریف کو ان کے امن، اقتصادی ترقی اور مضبوط دفاع کے وژن کی وجہ سے اپنے لئے خطرناک سمجھتی ہیں۔ کاش غریب عوام کی دوستی کا دم بھرنے والے یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اگر گوادر سے کاشغر تک معاشی ترقی کی شاہراہ (CPEC) بن جاتی ہے اور پاکستان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری ہوجاتی ہے تو اس کا فائدہ غریب عوام کو بھی پہنچے گا۔ وزارت عظمیٰ سے محرومی نے انہیں خود غرض بنا کر بصیرت سے بھی محروم کردیا ہے اور وہ اس نعرے پر کام کرتے نظر آرہے ہیں کہ ’’اگر میں وزیر اعظم نہیں بنتا تو بھاڑ میں جائے پاکستان‘‘۔ یاد رہے انہوں نے ماضی قریب میں کہا تھا ’’اگر شوکت عزیز وزیراعظم بن سکتا ہے تو میں کیوں نہیں بن سکتا ‘‘۔
محمد نواز شریف نے 1990ء میں پاکستان کو اقتصادی پروگرام دیا تو سرمایہ کاری کے لئے ملک بھر میں ایک دلکش اور خوشگوار فضا پیدا ہوگئی۔ سمندر پار پاکستانیوں نے دھڑادھڑ پاکستان آکر سرمایہ کاری شروع کردی ان دنوں میں نے خود ایک خاص طبقے کے ممتاز لوگوں کو نجی محفل میں گفتگو کرتے سنا کہ ’’اگر نواز شریف کامیاب ہوگیا تو ہمارا مستقبل ہمیشہ کے لئے تاریک ہوجائے گا اس لئے اٹھو اور اسے اقتدار سے باہر نکالو‘‘۔ یوں 1993میں نواز شریف کے خلاف پہلا وار کیا گیا۔ دوسرا وار ان کے خلاف 1999 میں پرویز مشرف کے ہاتھوں کروایا گیا۔ تیسرا وار عمران خان اور طاہر القادری کے ذریعے 2014میں اسلام آباد میں یلغار کی صورت میں کروایا گیا۔ جمہوری بیداری اور پارلیمانی لیڈروں کی حب الوطنی نے اس سازش کو ناکام بنا دیا لیکن اس حملے نے پاکستان کو کھربوں روپے کا معاشی نقصان پہنچانے کے علاوہ لوڈشیڈنگ کے خاتمے کے پروگرام کو ایک سال پیچھے دھکیل دیا۔ چوتھا حملہ 5اپریل 2016سے جاری ہے۔ عمران خان کے مطالبے کو مانتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف صاحب نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھ دیاہے ۔کمیشن کے لئے ایک وسیع دائرہ کار مقرر کر دیا گیا ہے جس میں فرانزک ماہرین کی خدمات حاصل کرنا بھی شامل ہے ۔ پاناما لیکس قانونی ہیں یا غیر قانونی ان میں وزیر اعظم محمد نواز شریف کا نام نہیں ہے ۔انکے دونوں بیٹے سیاست سے کوسوں دوراور دو دہائیوں سے پاکستان سے باہر اپنا کارو بار کر رہے ہیں۔ جن ملکوں میں وہ کارو بار کر رہے ہیں۔ انکے قوانین کی مکمل پابندی کر رہے ہیں ۔اسکے باوجود اگر انہوںنے آف شور کمپنی قائم کر کے ناقدین کے نزدیک کسی غلطی کا ارتکاب کیا ہے تو کمیشن بننے کے بعد عمران خان سمیت جو بھی چاہے وہ ثبوت لیکر اسکے سامنے پیش ہو جائے ۔تاہم عمران خان سمیت کسی کو اس بات کی اجازت نہیں دی جانی چاہئے کہ وہ خود چیف جسٹس یایک نفری انکوائری کمیشن بن کر فیصلے جاری کرتے پھریں ۔آخر میں انتہائی اختصار کے ساتھ بتاتا چلوں پانامہ 10میل چوڑی ایک زمینی پٹی ہے یہ پٹی بحر الکاہل اور بحر اوقیانوس کے درمیان امریکی بحری جہازوں کے مختصر ترین سمندر ی روٹ کے لیے رکاوٹ ہوا کرتی تھی ۔اسے ختم کرنے کے لئے امریکہ نے باغیوں کو اسلحہ اور فنڈز دیئے اور جب کولمبیاکے ان باغیوں نے 1903ء میں حکومت کا تختہ الٹ کر پاناما کی آزادی کا اعلان کیا تو امریکہ نے اسے فوراََ تسلیم کر لیا۔ اسکے بعد آنے والے تمام حکمرانوں نے امریکی کٹھ پتلیوں کا کردار ادا کیا ۔ڈی کلاسیفائیڈ دستاویزات کے مطابق پاناما کا فوجی حکمران مینول نوری ایگاطویل عرصہ تک سی آئی اے کے لئے کام کرتا رہا۔امریکہ کے ڈی کلاسیفائڈ ڈاکومنٹس میں ہی یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ سی آئی اے نے نہ صرف 1953ء میں ایرانی وزیراعظم محمد مصدق کی حکومت کا تختہ الٹابلکہ اس کے بعدسات دیگرممالک میں اسی طرز پر سیاسی عدم استحکام پیدا کیااور ناپسندیدہ حکمرانوں کو چلتا کیا ۔
(یہ مضمون میری ذاتی سوچ ناقابل تردید حقائق اورتجزیے کا عکاس ہے)