اسلام آباد( تجزیہ: طارق بٹ ) وزیر اعظم عمران خان کے قومی اسمبلی سے اعتماد کا تازہ ووٹ لینے پر کوئی آئینی پابندی نہیں ہے۔ بلند آواز میں اپنی رائے کا اظہار کیا جائے گا۔ اس موقع پر انحراف کی شق بھی لاگو ہوگی، آئینی ماہر اور سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے کہا کہ یہ ایک سیاسی اقدام ہے جسے وزیراعظم استعمال کررہے ہیں ، استفسار پر انہوں نے کہا کہ اعتماد کا ووٹ کی آئین میں کوئی ممانعت نہیں تاہم ایسا کرنے پر کوئی پابندی بھی نہیں ہے
یہ واضح ہے کہ وزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لے کر یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ انہیں وفاقی دارالحکومت سے سینیٹ کی نشست پر یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں عبدالحفیظ شیخ کی شکست کے باوجود قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ عمران خان اپنے سیاسی حریفوں کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ انہیں ایوان زیریں کا بدستور اعتماد حاصل ہے۔
تحریک اعتماد میں کھلے ووٹ کے ذریعہ رائے دی جائے گی، معروف وکیل کاشف ملک کے مطابق اس موقع پر فلور کراسنگ پر پابندی کی شق لاگو ہوگی، وسیم سجاد نے کہا کہ وزیر اعظم کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے معاملے میں آرٹیکل (7) 91لاگو نہیں ہوتا کیونکہ صدر مملکت عارف علوی نے ان سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لئے نہیں کہا کہ شاید وہ ایوان کا اعتماد کھوچکے ہوں۔
یہ تو وزیر اعظم کا خود اپنا فیصلہ ہے ، یہ حکمران اتحاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ ارکان قومی اسمبلی کی سادہ اکثریت کا اعتماد کے ووٹ کے لئے بندوبست کرے۔ اگر تحریک عدم اعتماد خود اپوزیشن لاتی تو اکثریت ثابت کرنا خود اس کی ذمہ داری ہوتی۔