ایران نے امن کیلئے امریکا سے مشروط بات چیت پر آمادگی ظاہر کردی۔
ایران کے نائب صدر برائے اسٹرٹیجک امور محمد جواد ظریف نے امریکا اور مغربی ممالک کے نام کھلا خط لکھا ہے جس میں کہا ہے کہ 30 جولائی کو جب صدر مسعود پزشکیان نے عہدے کا حلف لیا تھا تو ابھی چند ہی گھنٹے گزرے تھے کہ صدارتی کمپلیکس کے قریب مہمان خانے میں قیام پذیر فلسطینی اتھارٹی کے سابق وزیراعظم اسماعیل ہنیہ کو اسرائیل نے شہید کردیا تھا۔ یہ اس بات کا اظہار بھی تھا کہ صدر پزشکیان کو کن چیلنجز کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
نائب صدر جواد ظریف نے کہا کہ صدر پزشکیان آگاہ ہیں کہ دنیا پوسٹ پولر دور میں داخل ہو رہی ہے اور یہ کہ اس دور میں مقابلہ اور تعاون دونوں ہی ایک ساتھ کیے جاسکتے ہیں، جواد ظریف نے کہا کہ پزشکیان نے لچک دار خارجہ پالیسی اپنائی ہے جس میں تعمیری ڈائیلاگ کو ترجیح دی ہے۔
ایران کے نائب صدر نے زور دیا کہ مسعود پزشکیان مشرق وسطیٰ میں استحکام اور معاشی ترقی چاہتے ہیں، پڑوسی عرب ملکوں سے تعاون اور اتحادیوں سے تعلقات مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں۔ ساتھ ہی وہ مغربی ممالک سے بھی تعمیری طور پر انگیجمنٹ چاہتے ہیں۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ صدر مسعود پزشکیان نیا صدر چننے والے امریکا سے بھی تناؤ مینیج کرنے کےلیے تیار ہیں۔ وہ امریکا سے نیوکلیئر ڈیل اور دیگر امور پر برابری کی بنیاد پر مذاکرات کی امید رکھتے ہیں۔
ایران کے نائب صدر جواد ظریف نے یاد دہانی کروائی کہ 20 برس کی اقتصادی پابندیوں کے تناظر میں امریکا اور مغرب کو جاننا چاہیے، ایران دباؤ کا شکار نہیں ہوتا بلکہ امریکا اور مغرب کے بڑھتے ہوئے ایسے اقدامات مسلسل بیک فائر ہوئے ہیں۔
جواد ظریف نے کہا کہ ایرانی نیوکلیئر سائنسدان محسن فخری زادے کے قتل پر ایران نے نیو کلیئر پروگرام تیز کرنے اور عالمی مانیٹرنگ کم کرنے کا قانون بنایا تھا۔ سال 2018 میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران نیوکلیئر ڈیل ختم کی، اس کے بعد ایرانی سینیٹری فیوجز کی تعداد بھی بڑھائی گئی جبکہ افزودگی کا عمل بھی تین اعشاریہ پانچ فیصد سے ساٹھ فیصد تک پہنچا دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ایران کے نیوکلیئر پروگرام میں اس تیزی کا الزام ڈونلڈ ٹرمپ پر لگایا جانا چاہیے، مغرب ایران پر دباؤ ڈالنے کے بجائے مثبت حل نکالنے کے لیے اقدام کرے، ایران نیوکلیئر ڈیل ایسے بحال کی جائے کہ ایران کو معاشی فوائد ملیں۔ نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اقتصادی اقدامات کیے تو تہران اور واشنگٹن کے مفاد میں ایران ڈائیلاگ کیلئے تیار ہے۔
نائب صدر جواد ظریف نے خبردار کیا کہ ابراہم معاہدہ جیسی حکمت عملی سے ایران اور عرب ممالک کو لڑانے کی کوشش کامیاب نہیں ہوگی تاہم علاقائی استحکام میں ایران کو لازم حصہ بنایا گیا تو تہران اور واشنگٹن تنازعات حل کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل بھی جان لے کہ جن فلسطینیوں کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہ ہو انہیں شکست نہیں دی جا سکتی۔ فلسطینیوں کو حق خود مختاری ملنے تک حماس اور حزب اللّٰہ قائم رہیں گی۔
جواد ظریف نے کہا کہ فلسطینیوں کو جو حل منظور ہو وہ ایران کو قابل قبول ہے تاہم دریائے اردن سے بحیرہ روم کے درمیان رہنے والوں اور مہاجرین کو نظام حکومت چننے کا موقع دیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایران واضح کر چکا ہے کہ وہ غیر منطقی مطالبات کو تسلیم نہیں کرے گا، وہ قومی مفاد کے تحفظ کیلئے ڈٹا رہے گا۔ اس لیے یہ استحکام کیلئے تاریخی موقع ہے جسے دنیا کو گنوانا نہیں کرنا چاہیے۔ کم سے کم تہران استحکام کا یہ موقع یقیناً نہیں گنوائے گا۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ آیت اللّٰہ خامنہ ای کی قیادت میں ایران نے ثابت کیا ہے کہ وہ بیرونی جارحیت سے دفاع کرنا جانتا ہے تاہم نئی انتظامیہ کے زیر اثر ایران پڑوسی ممالک سے تعلقات مین بہتری چاہتا ہے، ایران ایک ایسا ریجنل آرڈر بنانا چاہتا ہے جس میں استحکام، دولت اور سیکیورٹی کو فروغ ملے۔ انرجی سیکیورٹی، نیوگیشن کی آزادی، بین المذاہب ڈائیلاگ بڑھے۔
جواد ظریف نے کہا کہ ایران ایسا علاقائی اہتمام چاہتا ہے جس سے خلیج فارس پر بیرونی طاقتوں کا انحصار کم ہو۔ ایران اور اس کے پڑوسی علاقائی مضبوطی کیلئے ہلسنکی طرز عمل کو اپنا سکتے ہیں، یہ ہلسنکی عمل یورپ میں سیکیورٹی اور تعاون کی تنظیم بنانے کی بنیاد بنا تھا اور قابل عمل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایران عراق جنگ ختم کروانے کیلئے یو این سیکریٹری جنرل کو دیا گیا مینڈیٹ بھی قابل عمل ہے۔ یہ وقت ہے کہ ایران اور عرب دنیا اپنے اختلافات ختم کریں، اس ضمن میں تہران کا فلسطینی مزاحمت سے تعاون ایران عرب ممالک تعاون کا آغاز کر سکتا ہے۔
آخر میں جواد ظریف نے کہا کہ ایران بااعتماد ہے کہ وہ دفاع کیلئے لڑ سکتا ہے مگر وہ امن چاہتا ہے۔ باہمی احترام اور برابری کی بنیاد ہو تو ایران بات چیت کیلئے تیار ہے۔ جواد ظریف نے امریکا اور مغربی ممالک کو پیغام دیا کہ نئے آغاز کیلئے یہ موقع ضائع نہ کریں۔