گذشتہ سال کی طرح اس مرتبہ بھی عورتوں کا عالمی دن کورونا کی وبا کے ساتھ منایا جا رہا ہے۔اس وبا سے نمٹنے میں خواتین رہنمائوں کی کامیابیوں کو دیکھتے ہوئے اقوام متحدہ نے اس دن کا موضوع ’’وبا والی دنیا میں مساوی مستقبل کے حصول کے لئے کوشاں خواتین قیادت ‘ ‘کو لکھاہے۔دنیا نے دیکھا کہ جن ممالک کی قیادت عورتوں کے ہاتھوں میں تھی انہوں نے کورونا کی وبا سے نمٹنے میں زیادہ کامیابی دکھائی۔
ایک حالیہ تحقیق کے مطابق ان ممالک میں جہاں خواتین حکمران تھیں ۔وہاں کورونا کے کیسز اور اموات کی تعداد کہیں کم تھی۔ایسی ہی صورتحال امریکا کی ان ریاستوں میں دیکھنے میں آئی جہاں خواتین گورنرز تھیں۔اسی طرح ان تنظیموں اور اداروں نے وبا کے دوران بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جن کی سربراہ یا لیڈرز خواتین تھیں۔
ہارورڈ بزنس اسکول نے 2020 ءمیں مارچ سے جون تک 454مردوں اور 366عورتوں کی قائدانہ صلاحیتوں کا جائزہ لیاتو عورتوں کو زیادہ بہتر اور موثر پایا۔جب کہ مردوں نے ٹیکنیکل یا پروفیشنل مہارتوں میں قدرے بہتر مظاہرہ کیا۔عورتیں پہل کاری، سیکھنے، دوسروں کو متحرک کرنے ،ترقی دینے ایمانداری اور محنت سے کام کرنے میں مردوں سے آگے رہیں۔انہوں نے مردوں کے مقابلے میں بہتر طور پر مسائل کو حل کیا اور بہتر نتائج دکھائے۔ یو این ویمن کے مطابق ڈنمارک، ایتھوپیا، فن لینڈ، جرمنی، آئس لینڈ، نیوزی لینڈ اور سلواکیہ کی خواتین سربراہان حکومت نے جس موثر طریقے سے کورونا کی وبا سے نمٹا ، اسے دنیا بھر نے سراہا۔خواتین کی قیادت کا اسٹائل انفرادی سے زیادہ اشتراکی تھا۔عورتیں مسابقت سے زیادہ شراکت اور حکم چلانے سے زیادہ سکھانے میں یقین رکھتی ہیں۔
یو این ویمن نے اسی لئے 8مارچ 2021ءکے یوم خواتین کا موضوع ’’Women in leadership:Achieving an equal future in a COVID-19 world" رکھا ہے ،تا کہ دنیا بھر کی عورتوں اور لڑکیوں کی ان کوششوں کو سراہا جائے جو وہ مساوی مستقبل حاصل کرنے اور COVID19 کی وبا سے نمٹنے کے لئے کر رہی ہیں۔یہ موضوع کمیشن آن دی اسٹیٹس آف ویمن کے پینسٹھویں اجلاس کے ترجیحی موضوع سے مطابقت رکھتا ہے یعنی پبلک لائف میں عورتوں کی بھرپور اور موثر شراکت ، فیصلہ سازی اور ساری عورتوں اور لڑکیوں کی خود مختاری اور صنفی مساوات کے حصول کے لئے تشدد کا خاتمہ۔اس کے علاوہ یہ موضوع مختلف نسلوں کے درمیان مساوات کی مہم سے بھی جڑا ہوا ہے ،جس میں عورتوں کے لئے زندگی کے ہر شعبے میں فیصلہ سازی کا حق ، مساوی اجرت ، بلا معاوضہ دیکھ بھال اور گھریلو کاموں میں مردوں اور عورتوں دونوں کے حصہ لینے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
عورتیں COVID 19بحران کی صف اولین میں کھڑی نظر آئیں ، خواہ وہ ہیلتھ کئیر ورکرز ہوں یا اپنے خاندان کے بیمار افراد کی دیکھ بھال کر رہی ہوں،موجد ہوں یا کمیونٹی آرگنائزریا اس وبا کا مقابلہ کرنے والی قومی رہنما یاسربراہ مملکت یا حکومت ہوں۔وہ ممالک جنہوں نے اس وبا کا کامیابی سے مقابلہ کیا، ان میں سے اکثر کی سربراہ عورتیں ہیں، مگر اکیس ممالک کے علاوہ باقی دنیا کے فیصلہ ساز اداروں میں عورتوں کی تعداد آج بھی کم ہے۔دنیا بھر کی پارلیمانوں میں کل اراکین کا صرف ایک چوتھائی حصہ عورتوں پر مشتمل ہے۔صحت کے شعبے میں خواتین کارکنوں کی تعداد ستر فی صد ہے لیکن دنیا بھر کے وزرائے صحت میں سے صرف چوبیس اعشاریہ سات فی صد خواتین وزرا ہیں۔
جہاں تک خواتین مینجرز کا تعلق ہے، عالمی ادارہء محنت کی رپورٹ کے مطابق خواتین مینجرز کی تعداد کے معاملے میں اردن سب سے آگے ہے جہاں ان کی تعداد 67 فی صد ہے۔اگر آپ اردن، سینٹ لوسیا، بوٹسوانا، ہونڈراس یا فلپائن میں کام کر رہے ہیں تو اس کا امکان بہت زیادہ ہے کہ آپ کا باس کوئی مرد نہیں بلکہ عورت ہو گی۔
دوسری طرف جب بھی کوئی بحران آتا ہے تو اس کے منفی اقتصادی اثرات عورتوں پر زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔دنیا بھر میں عورتیں کماتی بھی کم اور بچاتی بھی کم ہیں۔ان کی ملازمتیں بھی غیر محفوظ ہوتی ہیں، کیونکہ زیادہ تر وہ غیر رسمی شعبے میں کام کرتی ہیں۔ عام طور پر بیوگی یا طلاق کی صورت میں بچوں اور گھر کا خرچ عورت ہی اٹھاتی ہے،اس لئے اقتصادی دھچکہ برداشت کرنا اس کے لئے مشکل ہوتا ہے۔اکثر گھرانوں میں اسکولوں کے بند ہونے اور سماجی فاصلوں جیسے اقدامات کی وجہ سے عورتوں پر دیکھ بھال اور گھریلو کاموں کا بوجھ بڑھ گیا ہے جب کہ پیسا کمانے کے مواقع کم ہو گئے ہیں۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں صورتحال اور بھی خراب ہے، کیونکہ زیادہ تر لوگ غیر رسمی شعبوں میں کام کرتے ہیں جہاں انہیں سوشل سیکورٹی جیسے ہیلتھ انشورنس اور با معاوضہ بیماری کی چھٹی جیسی سہولت میسر نہیں ہوتی۔
ایشیا اور پیسفک میں یو این ویمن کے سروے کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں زیادہ تیزی سے روزگار کے مواقع کھو رہی ہیں اور آمدنی کے متبادل ذرائع بھی ان کے پاس کم ہیں،جب کہ امریکا میں فروری 2020 میں بے روزگار مردوں کی تعدا د تین اعشاریہ پچپن ملین تھی جو اپریل میں بڑھ کر گیارہ ملین ہو گئی۔جب کہ اس وبا سے پہلے بے روزگاری عورتوں میں کم تھی، مگر اسی عرصے میں وہ دو اعشاریہ سات ملین سے بڑھ کر گیارہ اعشاریہ پانچ ملین ہو گئی۔(یو ایس بیورو آف لیبر اسٹیٹسٹکس)
کورونا کی وبا سے نمٹنے میں خواتین رہنمائوں اور خواتین تنظیموں نے زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔آج سب اس بات کو ماننے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ عورتیں اپنے ساتھ نئے تجربات،تناظر اور مہارتیں لے کر آتی ہیںاور لوگوں کی فلاح کے لئے بے مثال فیصلہ سازی، پالیسی سازی اور قانون سازی کرتی ہیں۔
نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈن کی کورونا کی وبا سے کامیابی سے نمٹنےپر دنیا بھر میں تعریفیں ہوئی ہیں۔ان کی بیس رکنی کابینہ میں آٹھ عورتیں ہیں۔ کابینہ میں نیوزی لینڈ کے ہر طبقہء فکر کے نمائندے موجود ہیں۔اسی طرح جرمنی کی چانسلر اینجلا مرکل نے انسانیت کی روشن مثال قائم کرتے ہوئے ستم رسیدہ مہاجروں کے لئے جرمنی کے دروازے کھول دئیے۔امریکا میں پہلی مرتبہ نائب صدر کے عہدے پر ایک خاتون کملا حارث منتخب ہوئی ہیں۔
ٹیو ٹوریل پوائنٹ کے مطابق عورتیں بتدریج کاروباری منتظم کے طور پر ، ایڈمنسٹریشن، تعلیم ، صحت اور دیگر شعبوں میںعلاقائی، قومی اور بین ا لاقوامی سطح پر اپنی موجودگی کا احساس دلا رہی ہیں۔اب عورتوں کو لیڈرشپ پوزیشن حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا،مگر تعداد کے لحاظ سے اعلیٰ عہدوں پر فائز عورتیں ابھی بھی اقلیت میں ہیں۔کارپوریٹ، نان پرافٹ، گورنمنٹ، تعلیم،طب، فوج، مذہبی اداروں میں مرد سربراہ اکثریت میں ہیں۔اس کی وجہ ڈاکٹر شان اینڈریو کے بقول یہ ہے کہ خود کو لیڈر کی حیثیت سے تسلیم کرانے کے لئے عورت کو اکثر باہم متصادم توقعات کے درمیان بنے ہوئے پل صراط پر چلنا پڑتا ہے۔
فورچون 500کمپنیوں میں صرف انیس فی صد عورتیں بورڈ ممبرز ہیں۔جب کہ صرف پندرہ فی صد ایگزیکٹیو افسران کی پوزیشن پر ہیں۔اس تناظر میں دیکھا جائے تو عورتوں کو ابھی طویل مسافت طے کرنی ہے۔ڈاکٹر شان کے بقول عورتوں کو اپنے کیرئیر میں آکے بڑھنے کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں، ان میں ایموشنل ا ینٹلیجنس اور صنف یا جینڈر کی ثقافت شامل ہے۔ عورتوں کی لیڈرشپ کی راہ میں چار رکاوٹیں حائل ہیں ،جن ساختیاتی رکاوٹیں، انسٹیٹیوشنل مائنڈ سیٹ، انفرادی مائنڈ سیٹ اور لائف اسٹائل کا انتخاب شامل ہیں ۔ذیل میں ان کے بارے میں مختصراً ملا حظہ کریں ۔
ساختیاتی رکاوٹیں: عورتوں کی اکثر اہم غیر رسمی نیٹ ورکس تک رسائی نہیں ہوتی جیسے گالف کورس،کھیلوں کے ایونٹس، یا محض دفتری اوقات کے بعد کافی ہائوس یا چائے خانے میں بیٹھ کر گپ شپ کرنا۔ گالف کاروباری حضرات اور ان کے گاہکوں کے درمیان رابطہ پیدا کرنے کا اہم ذریعہ ہے،حالانکہ اعلیٰ طبقے کی کچھ عورتیں بھی گالف کھیلتی ہیں لیکن عام طور پر اس کھیل پر مردوں کی اجارہ داری ہے اور اسے وہ کاروباری تعلقات بنانے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
انسٹیٹیوشنل مائنڈ سیٹ:اس میں بہت سے صنفی تعصبات اور اسٹیریو ٹائپنگ شامل ہے۔مثال کے طور پر ایک عورت اچھی فوجی افسر ثابت ہو سکتی ہے لیکن اس کے ماتحت اس سے تعاون نہیں کریں گے ،کیونکہ اس کے کام کو نسائی خصوصیات سے متصادم سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح ایک مرد بہت اچھا نرس بن سکتا ہے لیکن لوگ عورت کو ہی بہتر نرس سمجھیں گے۔
انفرادی مائنڈ سیٹ: یعنی خود عورتوں کی اپنی سوچ اور روئیے انہیں آگے بڑھنے سے روک سکتے ہیں۔
لائف اسٹائل کی چوائسز: اس میں اپنے کام اور گھریلو زندگی میں توازن پیدا کرنا ضروری ہے جو آسان نہیں ہوتا۔
کورونا کی وبا دنیا بھر کے لیڈروں کے لئے ایک بڑی آزمائش ثابت ہوئی اور سب اپنے طور پر اس کا مقابلہ کرنے کے لیےاٹھ کھڑے ہوئے ،مگر جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہواکہ وہ ممالک اس وائرس سے نمٹنے میں زیادہ کامیاب رہے جن کی سربراہ عورتیں تھیں۔ان ممالک میں کورونا سے ہونے والی اموات کی تعداد چھ گنا کم تھی۔آئس لینڈ کی کیترین نے اپنے سارے شہریوں کو مفت ٹیسٹ کی سہولت فراہم کی۔جرمنی کی اینجلا مرکل کے اقدامات کے نتیجے میں جرمنی میں دیگر یورپی ممالک کے مقابلے میں بہت کم اموات ہوئیں۔اور نیوزی لینڈ کی جیسنڈا نے تو اپنے مثبت روئیے اور اقدامات کی بدولت ساری دنیا سے تعریفیں سمیٹیں۔
ان چند لیڈروں کی کامیابی اپنی جگہ مگر کورونا کی وبا کی وجہ سے دنیا بھر میں عورتیں اور لڑکیاں غیر متناسب طور پر متاثر ہوئیں۔عورتیں زیادہ تر صحت کے شعبے میں کام کرتی ہیںاور گھر میں بھی بیماروں کی دیکھ بھال وہی کرتی ہیں،اس لئے ان کے کورونا سے متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ تھا۔اس وبا کی وجہ سے لاک ڈائون کیا گیا اور لوگوں کو طویل عرصہ تک گھروں میں بند رہنا پڑا ،جس کے نتیجے میں دنیا بھر میں عورتوں پر گھریلو تشدد میں اضافہ ہوا۔
کئیر نامی تنظیم نے تیس ممالک کا سروے کیا تو معلوم ہوا کہ:
٭ان ممالک میں کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لئے بنائی جانے والی قومی سطح کی کمیٹیوں میں مردوں اور عورتوں کا تناسب مساوی نہیں تھا۔جن ممالک میں یہ کمیٹیاں بنی تھیں ، ان میں سے 74 فی صد میں خواتین ارکان کی تعداد ایک تہائی سے بھی کم تھی، صرف ایک کمیٹی میں مردوں اور عورتوں کی تعداد مساوی تھی۔اوسطاََ ان کمیٹیوں میں عورتوں کی تعداد چوبیس فی صد تھی۔
٭سات ممالک میں جو اس سیمپل کا پچیس فی صد بنتے ہیں، اس تنظیم کو کوئی ایسے شواہد نہیں ملے کہ حکومتوں نے صنفی تشدد،جنسی و تولیدی صحت یا عورتوں کی اقتصادی لحاظ سے مدد کے لئے رقوم مختص کی ہوں یا پالیسی بنائی ہو۔
٭54فی صد ممالک میں صنفی تشدد کے بارے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔
٭وہ ممالک جہاں لیڈرشپ پوزیشن میں عورتیں زیادہ تعداد میں ہیں، وہاں اس وبا سے صنفی نقطہ ء نظر سے نمٹنے کے امکانات زیادہ پائے گئے۔اس کا بھی خطرہ ہے کہ صنفی مساوات کے حصول کی سابقہ کامیابیاں بھی اس وبا کی وجہ سے کہیں ضائع نہ ہو جائیں۔
٭مقامی عورتوں کے حقوق کی تنظیموں اور اداروں کی خواتین سربراہوں کو کورونا کی وبا سے متعلق فیصلہ سازی اور پالیسی سازی میں شامل نہیں کیا گیا ۔
بہت سی رکاوٹوں کے باوجود عورتیں ایکٹیوسٹ کی یا انفرادی حیثیت سے ، لیڈر کے طور پر یا رضا کار کے طور پرکسی نیٹ ورک کی رکن کے طور پر اس وبا سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ تجربے سے ثابت ہوا ہے کہ جب عورتوں کو مساوی شرکت کا موقع دیا جاتا ہے تو موثر نتائج حاصل ہوتے ہیں۔
حکومتوں کو چاہئیے کہ،کورونا کی وبا سے متعلق فیصلہ ساز اداروں اور کارروائیوں میں صنفی مساوات کے لئے کوٹہ مقرر کرتے ہوئے فیصلہ سازی میں عورتوں کی با معنی شراکت کو درج ذیل طریقوں سے فروغ دے:
٭عورتوں کی سربراہی میں چلنے والے ادارے عورتوں کے حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کریں۔فیصلہ ساز اداروں میں عورتوں کی شمولیت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کرے اور انہیں ختم کرنے کے لئے اقدامات کرے۔
٭کورونا کی وبا سے نمٹنے کے لئے صنفی طور پر متوازن میکانزم تشکیل دیا جائے۔
٭اس بات کو تسلیم کیا جائے کے عورتیں صحت کے شعبے میں فرنٹ لائن میں ہیں۔ ان کے کام میں ان کا ساتھ دیا جائے۔
پاکستان کے لئے یہ بات باعث فخر ہے کہ کہ عالمی ادارہء صحت اور ویمن ان گلوبل ہیلتھ کی دنیا کی 100ممتاز خواتین نرسوں اور مڈ وائف کی 2020 کی فہرست میں پاکستان کی آٹھ نرسیں اور مڈ وائف شامل ہیں۔ان آٹھوں کا تعلق آغا خان کے اسکول آف نرسنگ سے ہے۔اس فہرست میں 43ممالک کی 100نرسیں اور مڈ وائف شامل ہیں۔
ورلڈ بنک کی رپورٹ کے مطابق عورتیں پاکستان کی لیبر فورس کا 25 فی صد ہیںجو اس خطے کے ممالک میں سب سے کم ہے۔بنک حکام کا کہنا ہے کہ اس تعداد کو بڑھا کر 43فی صد کرنا چاہئے۔ عورتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ وہ گھر سے باہر نکلیں اور اس کےلئے بچوں کی دیکھ بھال کے مراکز قائم کئے جائیں اور معاشرے سے جنسی ہراسانی کو ختم کیا جائے۔جہاں تک انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ورک فورس کا تعلق ہے تو اس میں عورتوں کی تعداد اور بھی کم ہے۔
پاکستان نے صنفی مساوات کے لئے بہت سے اقدامات کئے ہیں، مگر عالمی درجہ بندی میں پاکستان بہت نیچے ہے۔ پاکستان نے عورتوں کے خلاف ہر طرح کے امتیاز کے خاتمے کے کنونشن پر دستخط کئے اور اس کی توثیق کی ہے۔انسانی حقوق کے معاہدوں کے ساتھ ساتھ وہ پائیدار ترقی کے مقاصد ’’ SUSTAINABLE DEVELOPMENT GOALS کو حاصل کرنے کا بھی پابند ہے۔
پاکستان کی آبادی 208ملین ہے ،جس میں عورتوں کی تعداد 49فی صد ہے(201 7 کی مردم شماری)۔پاکستان کی آبادی کا انتیس فی صد حصہ پندرہ تا انتیس سال کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔اس وقت پاکستان کی 63فی صد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔اور نوجوان لڑکیوں کی اکثریت بھی دیہی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے۔ویسے تو سارے نوجوانوں کو پاکستان کی ترقی کے لئے متحرک کرنا چاہئیے لیکن فوری ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ صنفی عدم مساوات اور عالمی صنفی اشارئے میں پاکستان کا نمبر 153ممالک میں سے 151نمبر پر ہونے کی وجہ سے نوجوان لڑکیوں پر توجہ دی جائے۔
پاکستان میں بچوں اور نوجوان لڑکیوں کے لئے ماحول سازگار نہیں حالانکہ آئین انہیں تحفظ فراہم کرتا ہے اور ان کے لئے بہت سے قوانین بھی بن چکے ہیں جیسے عورتوں سے متعلق رسم و رواج کے خلاف، غیرت کے نام پر قتل،گھریلو تشدد، کام کی جگہ اور عوامی مقامات پر عورتوں کے خلاف جنسی ہراسانی، کم عمری کی شادیوں کے خلاف قانون وغیرہ۔ان اہم قوانین میں سندھ ہوم بیسڈورکرز ایکٹ، سندھ ویمن ایگریکلچرل ورکرزرائٹس ایکٹ اور الیکٹرول ایکٹ شامل ہیں۔لیکن ابھی بھی درج ذیل وجوہات کی بنا پر رکاوٹیں برقرار ہیں۔مثلاً
٭قانون میں کمزوری جو عمل درآمد میں رکاوٹ بنتی ہے۔
٭قانون پر عمل درآمد کے لئے درکار سپورٹ سسٹم اور میکانزم یا تو موجود نہیں ہیں یا نا کافی ہیں۔
٭جن لوگوں پر ریلیف اور تحفظ فراہم کرنے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، ان میں شدید قسم کے صنفی تعصبات پائے جاتے ہیں اور عملدرآمد کرنے والے اداروں کے درمیان باہمی رابطے کا فقدان ہوتا ہے۔
٭کمزور مانیٹرنگ سسٹم اور نا کافی معلومات
٭احتساب کا فقدان
ب:نوجوان لڑکیوں میں مواقع کے بارے میں معلومات اور علم، مہارتوں اور اعتماد اور ایکسپوژر کا فقدان ہوتا ہے۔
٭رسمی ادارے تعلیم ، ہنر، صحت کی سہولتوںتک نوجوان لڑکیوں کو رسائی دینے میں ناکام رہے ہیں۔
٭غیر رسمی ادارے(خاندان، برادری، مذہب،شادی)ان ہی عقائد کا پرچار کرتے ہیں جو شادی کو تعلیم اور ملازمت پر فوقیت دیتے ہیں۔(یو۔این۔ویمن رپورٹ)
کورونا کی وبا اور اس کی بدولت پیدا ہونے والی اقتصادی مشکلات کے باوجود پاکستان میں صنفی مساوات کو بڑھانے کے لئے اقدامات کئے جاتے رہے ہیں۔عورتوں کو با اختیار بنانے کی کوششوں کے نتیجے میں پاکستان نے کمپنیز ایکٹ میں ترمیم کی ہے ،تا کہ مردوں اور عورتوں کو کاروبار شروع کرنے کے مساوی مواقع حاصل ہو سکیں ۔ اب کمپنی کھولنے اور میمورنڈم وغیرہ جمع کرانے کے لئے کے لئے کاروباری منتظم خواتین کو باپ یا شوہر کے دستخطوں کی ضرورت نہیں ہو گی۔یہ اصلاحات حکومت پاکستان، ورلڈ بنک کے ویمن گروپ، بزنس اینڈ لا ایڈوائزری پروگرام کے اشتراک کے نتیجے میں ہوئیں اور اور خواتین منتظمین کی مالیاتی پہل کاریWe-Fi تنظیم اور ورلڈ بنک کے ایک پراجیکٹ نے انہیں سپورٹ کیا ۔
سندھ میں تولیدی صحت کی دیکھ بھال کے حق کا قانون بھی بن گیا ہے۔پاکستان میں حمل سے متعلق پیچیدگیوں کے نتیجے میں ہر روز 80عورتیں مر جاتی ہیںاور وہ لاکھوں عورتیں جو مرنے سے بچ جاتی ہیں، دیگر پیچیدگیوں جیسے فسٹیولا، جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریایوں اور بانجھ پن کا شکار ہو جاتی ہیں۔امید ہے اس قانون کی بدولت تولیدی صحت بہتر ہو گی اور زچگی کے دوران اموات میں کمی واقع ہو گی۔
عورتوں پر تشدد اور پدر سری نظام کی خرابیوں کے باوجود پاکستان نے دنیا کو بے نظیر جیسی لیڈر دی جو کسی اسلامی ملک کی پہلی خاتون اور سب سے کم عمر وزیر اعظم تھیں ، وہ دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم بنیں اور اگر انہیں قتل نہ کر دیا جاتا تو تیسری مرتبہ بھی بنتیں۔فہمیدہ مرزا کو قومی اسمبلی کی پہلی خاتون اسپیکر اور حنا ربانی کھر کو پہلی خاتون وزیر خارجہ بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔شمشاد بیگم اسٹیٹ بنک کی گورنر بنیں۔ملالہ نے نوبل انعام اور شرمین عبید چنائے نے دو آسکر جیتے۔ثمینہ بیگ نے مائونٹ ایورسٹ سر کی۔
پاکستانی عورتیں زیادہ تر زراعت کے شعبے میں کام کرتی ہیں ان کی محنت کسی کو نظر نہیں آتی۔اور نہ ہی انہیں اپنی محنت کا کوئی معاوضہ ملتا ہے حالاں کہ اب سندھ میں زرعی عورتوں کے حقوق کے بارے میں قانون بن چکا ہے لیکن اس پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا۔ اگر ہمیں اپنی عورتوں کو با اختیار بنانا ہے تو انہیں فیصلے کرنے کا حق دینا ہو گا۔
مواقع اور وسائل تک رسائی دینا ہو گی۔انہیں گھر میں اور گھر سے باہر اپنی زندگی کا انچارج بننے کی اتھارٹی دینا ہو گی۔عورتوں کی خود مختاری کثیر ا لجہتی ہے۔عورتوں کی خود مختاری کے یہ سارے اجزا اور جہتیں باہم منسلک ہیں، کسی ایک حصے کو بدلنے سے کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئے گی جب تک کہ سب کو نہیں بدلا جائے گا۔
چیدہ چیدہ
سیاست:گذشتہ پچیس سالوں میں دنیا بھر میں عورتوں کی سیاسی نمائندگی میں دو گنا اضافہ ہوا ہے لیکن ابھی بھی 4 پارلیمانی نشستوں میں سے صرف ایک عورت کے پاس ہے۔
ملازمت /کام: دنیا کی بڑی کمپنیوں کے 500چیف ایگزیکٹیو افسران میں سے صرف 7 فی صد عورتیں ہیں
ثقافت اور سائنس: 1901-2019تک 900 سے زیادہ افراد کو نوبل انعام مل چکا ہے۔ان میں صرف 53عورتیں ہیں۔مادام کیوری پہلی خاتون ہیں ، جنہیں دو مرتبہ نوبل انعام ملا۔
صحافت: نیوز میڈیا میں عورتوں کی شراکت، نمائندگی اور انہیں کس طرح پیش کیا جاتا ہے، اس بارے میں دنیا کے 114ممالک میں 20سال تک اسٹڈی کی گئی تو معلوم ہوا کہ ریڈیو سننے، ٹیلی وژن دیکھنے اور اخبارات پڑھنے والے لوگوں میں عورتوں کی تعداد صرف 24 فی صد ہے۔
تفریح: میڈیا کے دیگر ذرائع کی طرح فلم اور ٹیلی وژن صنف اور صنفی مساوات لوگوں کے خیالات اور رویوں کو تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیںلیکن 11ممالک کی مقبول فلموں کے تجزئیے سے معلوم ہواکہ مکالمے ادا کرنے والے کرداروں میں صرف 31فی صد عورتیں تھیں۔اور مرکزی کردار صرف 23 فی صد خواتین نے ادا کئے تھے۔ فلم سازوں میں صرف 21 فی صد خواتین تھیں۔
اسپورٹس/کھیل: پہلے کے مقابلے میں اب خواتین کھیلوں کے میدان میں زیادہ نظر آتی ہیں۔ٹوکیو 2020 اولمپکس میں عورتوں اور مردوں کی نمائندگی تقریباًمساوی تھی جب کہ 1900 میں ہونے والے اولمپکس میں صرف 22عورتوں نے شرکت کی تھی۔
کھانا پکانے کا فن: اگرچہ گھروں میں کھانا پکانا روایتی طور پر عورتوں کی ذمہ داری سمجھا جاتا ہے لیکن ریستورانوں اور ہوٹل انڈسٹری کے دروازے خواتین شیف پر بند رہے ہیں۔ دنیا کے مشہور ریستورانوں میں صرف 4فی صد اعلیٰ درجے کی شیف خواتین نظر آتی ہیں۔(یو این ویمن)