• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی حکومت نے حال ہی میں انسدادِ رشوت ستانی ایکٹ 1947 میں ترامیم کا بل قومی اسمبلی سے منظور کروایا ہے جسے انسدادِ رشوت ستانی ایکٹ 2020 کا نام دیا گیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت 1947 کے قانون کے سیکشن 2،5،5B اور 5C میں ترامیم کرکے کرپشن ثابت ہونے پر سزائیں بڑھا کر 3 سے 5سال، 5 سے 7 سال اور جرمانہ جبکہ 7سال کی سزا بڑھا کر 10 سال کر دی گئی ہے۔ انسدادِ رشوت ستانی ایکٹ 2020 کی (STATEMENT OF OBJECTS AND REASON) میں لکھا گیا ہے کہ کرپشن معاشی ترقی ،عدم استحکام اور قانون کی حکمرانی کو خطرے سے دو چار کرتی ہے۔ اس میں یہ بھی لکھا ہے کہ عوامی وسائل سماجی فلاح و بہبود کے ساتھ ساتھ صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لئے مختص ہوتے ہیں۔ یہ وسائل کرپشن کے ذریعے لوٹے جاتے ہیں جس سے غربت میں اضافہ اور عوام کی پریشانیاں بڑھتی ہیں۔ کرپشن سے نہ صرف سروس ڈلیوری کا نظام کمزور ہوتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ملک کی بدنامی ہونے کےعلاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔ جہاں آپ افسروں کے خلاف (PUNITIVE MEASURES) لینے کی بات کرتے ہیں تو وہاں (INCENTIVES)کی بھی بات کریں تو معاملات متوازن دکھائی دیں گے۔ نیب قوانین میں پہلے سے سینئرافسروں اور سیاستدانوں کے احتساب کے لئے کافی سخت سزائیں شامل کی گئی ہیں بلکہ کئی تو بنیادی انسانی حقوق سے بھی متصادم ہیں۔ احتساب آرڈیننس 20 سال قبل جاری ہوا۔ اس قدر سخت قانون لانے کے باوجود کرپشن میں کمی نہیں آئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون جتنا مرضی سخت کرلیا جائے ، کسی افسر یا سیاستدان کی ساکھ ضرور خراب کردے گا لیکن سسٹم میں بہتری نہیں لائے گا۔ قانون بناتے وقت (RATIONALE) ہونے کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود قانون پر عملدرآمد پھر حقیقی معنوں میں ہونا چاہئے۔ حکومت سخت قانون تو بنا لیتی ہے لیکن پھر انوسٹی گیشن اور پراسیکیوشن کی استعداد بھی ہونی چاہئے جو کہ بدقسمتی سے نظر نہیں آتی۔ ان دونوں کی غیر موجودگی میں کسی قانون کی کوئی حیثیت نہیں۔ نیب جیسے سخت قوانین ہونے کے باوجود انوسٹی گیشن، پراسیکیوشن اور سسٹم میں شفافیت نہ ہونے کے باعث تمام تبدیلیاں کاغذی نوعیت کی ہیں۔ عملی طور پر کوئی فرق نہیں پڑا۔عوام میں سے اکثر یہ جانتے ہوں گے کہ حکومت جب ٹھیکے نیلام کرتی ہے تو اکثر اوقات کرپشن کے کیسز سامنے آتے ہیں۔ میرے ایک اچھے دوست جو سینئر سول سرونٹ ہیں، نے بتایا کہ وہ دورانِ سروس بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں کچھ عرصہ تعینات رہے۔ مجھے ان کی بات سن کر بے حد حیرانی ہوئی کہ کوئٹہ میں افسراتنے خائف تھے کہ ٹھیکوں کے ٹینڈر کے لئے بنائی گئی کمیٹی میں نیب کا نمائندہ بھی رکھا جاتا تھا۔ حالانکہ نیب کا نمائندہ کبھی ٹھیکہ دیتے وقت اس کمیٹی کی میٹنگ میں شریک نہیں ہوا۔

افسر اپنے آپ کو مستقبل کی پیچیدگیوں سے بچانے کے لئے ایسا کرتے تھے۔ سرکاری افسر نے بتایا کہ قانون کے مطابق کوئی تحقیقاتی ادارہ کسی ٹرانزیکشن کے درمیان نہیں بیٹھ سکتا اور بعد میں ہی اس معاملے کی تحقیقات کرسکتا ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو نیب قوانین کے تحت پکڑے جانے والے لوگوں کو اتنی سزائیں نہیں ہوئیں جتنے کیسز پلی بارگین کے تحت حل ہوئے۔ احتساب اور شفافیت کے لئے سخت قوانین بنانے پر کسی کو اعتراض نہیں اور نہ ہو سکتا ہےلیکن کیا ہی اچھا ہو کہ حکومت افسران کو INCENTIVE دے اور پھر دیکھے کہ کیا سخت قوانین کے بعد کمزور انوسٹی گیشن اور پراسیکیوشن سے بہتری آئی ہے یا INCENTIVE دینے سے ریاستی امور زیادہ تیزی اور جانفشانی سے چلائے جاتے ہیں۔ ایک طرف حکومت سروس ڈلیوری پر زور دیتی ہے اور کہتی ہے کہ اگر افسر کام نہیں کریں گے تو (INEFFICIENT) ہونے پر عہدوں سے ہٹا دیا جائے گا۔ حکومت غلطی اور کرپشن میں فرق سمجھنے سے قاصر ہو تو پھر افسر بھی یہ سمجھتے ہیں کہ کرپشن کا الزام لگوانے سے بہتر ہے کہ (INEFFICIENT) ہونے کا (TAG) لگوا لیں کیونکہ قانون کے مطابق یہ کوئی جرم تو نہیں ہے۔ اب جنوبی پنجاب میں بیوروکریسی کے ساتھ جو ہو رہا ہے اس پر بھی نظر ڈالتے ہیں۔ پنجاب حکومت نے پہلے جنوبی پنجاب کے عوام کے مسائل حل کرنے کے لئے وہاں انتظامی سیکرٹری تعینات کئے جنہیں مکمل اختیارات دیئے لیکن اسکے بعد اچانک (DELEGATION OF POWERS) میں ترامیم کر دی گئیں جس پر افسر شاہی نے اپنے شدید تحفظات کا اظہار کیا لیکن میر ی اطلاع کے مطابق دو روز قبل وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں افسروں کو تسلی دی گئی کہ ان کے ساتھ اختیارات کے حوالےسے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔ افسر شاہی پہلے ہی حکومت کے جنوبی پنجاب سے متعلقہ ان معاملات کو غیر قانونی، غیرآئینی اور انتظامی طور پر ناقابلِ عمل سمجھتی ہے۔ ان کا خیال ہے کہ پہلے تو جب تک آئین کے آرٹیکل 1 جس میں صوبوں کی حدود کی بات کی گئی ہے میں ترمیم نہیں ہوجاتی اس وقت تک جنوبی پنجاب کے انتظامی معاملات اس طرح چلانا غیر آئینی ہے۔ وہ اسے غیر قانونی بھی کہتے ہیں کیونکہ ایک صوبے میں ایک ہی محکمے کے دو انتظامی سیکرٹری کیسے ہو سکتے ہیں؟ یہ انتظامی طور پر اس لئے بھی غلط طریقہ کارہے کہ عوام کے لئے اب دو چینل بن گئے ہیں پہلے وہ درخواست جنوبی پنجاب میں دیں گے پھر وہ داد رسی کے لئے لاہور آئیں گے۔، عوام کنفیوژ دکھائی دیتے ہیں، اسی طرح جیسے 2001 میں مشرف دور میں اختیارات کی منتقلی کے بعد ڈپٹی کمشنروں کو ڈی سی او بنا دیا گیا۔

تازہ ترین