• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

طیارے حادثے نے زندگی سے متعلق میرا تصور بدل دیا، ظفر مسعود

لاہور (صابر شاہ) 22؍ مئی 2020ء کے پی آئی اے کے طیارے کے حادثے میں بچ جانے دو افراد میں سے ایک بینک آف پنجاب کے چیف ایگزیکٹو آفیسر ظفر مسعود نے کہا ہےکہ طیارے حادثے سے زندگی سے متعلق میرا تصور بدل گیا ، معجزوں پر یقین کرنے لگا ہوں ، حادثے نے ماتحتوں کے بارے میں تصورات بدل دیئے، بینک نے اپنے ورکرز کیلئے بے مثال ویلفیئر پیکیج کا اعلان کیا، خدا پر میرا ایمان مضبوط ہوا ہے، ہمدردی کیساتھ مینجمنٹ اہم ہے بالخصوص اس وقت جب عام شہریوں کو سوشل سیکورٹی میسر نہ ہو، ایسا محسوس ہوتا ہے اگر پائلٹ نے ائیر ٹریفک کنٹرول کی سنی ہوتی تو حادثے کو ٹالا جاسکتا تھا۔ مشہور فرینکلن کووے لیڈرشپ سیریز کے میزبان اسکاٹ ملر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب کریش لینڈنگ ہونے والی تھی میرے ذہن میں بچپن سے لے کر پنجاب بنک کی سربراہی تک میری پوری زندگی گھوم گئی۔ پہلے میں نے خود کلامی کی اور اطمینان ہوا کہ مجھے اپنی زندگی کے بارے میں کوئی پچھتاوا نہیں۔ یہ بھی خیال آیا کہ میرے کون سے بیوی بچے ہیں جو طویل مدت مجھے روتے رہیں گے، اور اب معزانہ طور پر زندہ بچ جانےوالے حادثے کے بعد میرا خیال ہے کہ اللہ نے فیصلہ کرلیا ہوگا کہ یہ میرے جانے کا وقت نہیں اور میں زندہ بچ جاؤں گا۔ اینکر پرسن سکاٹ ملر اس سیریز میں کوئی ڈیڑھ سو پروگرام ریکارڈ کر چکے ہیں۔ انہوں نے ظفر سے کہا کہ وہ اس خوفناک حادثے کو ذہن میں لائیں اور ہمارے دنیا بھر کے ناظرین کو بتائیں کہ ایک بیٹے، بھائی، دوست اور ایک ادارے کے سربراہ کے طور پر انہوں نے کیا نتائج اخذ کیے۔ ظفر مسعود نے کہا حادثے کے بعد زندگی کے بارے میں میرا تصور بدل گیا ہے۔ میں معجزوں پر یقین کرنے لگا ہوں اور خدا پر میرا ایمان مضبوط ہوا ہے۔ اس دن سب کچھ بہت تیزی سے ہورہا تھا۔ لگتا تھا کوئی بڑا واقعہ ہونے والا ہے۔ میں جلدی نہیں اٹھتا لیکن اس دن الارم سے ایک گھنٹہ پہلے میری آنکھ کھل گئی اور میں فلائٹ کی روانگی سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے ایر پورٹ پہنچ گیا۔ حالانکہ میں ہمیشہ عین وقت پر ہی پہنچتا تھا۔ میری ایک اور فلائٹ کی بکنگ تھی جو گیارہ بجے روانہ ہونا تھی لیکن پھر میں نے پی آئی اے کی ایک بجے کی فلائٹ کا فیصلہ کیا تاکہ دو گھنٹے مزید سوسکوں۔ میں دیر تک سوئے رہنے کی عادت کی وجہ سے بدنام ہوں۔ میرے پروٹوکول سٹاف نے میرے لیے کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ بک کرائی تھی لیکن میں نے اپنی پسند کی ایزل پیسیج کی سیٹ سے بدل لی۔ جب طیارہ تین ٹکڑے ہوا تو اسی سیٹ نے ہی مجھے بچالیا۔ اس دن تمام مسافر وقت پر سوار ہو گئے تھے اس لئے طیارہ جلد ی لاہور سے کراچی روانہ ہوگیا۔ نوے منٹ کی پرواز بہت اچھی رہی۔ لینڈنگ بھی معمول کے مطابق ہورہی تھی کہ طیارہ رن وے پر تین مرتبہ اچھلا اور دوبارہ ٹیک آف کرلیا۔ یہ بہت غیر معمولی تھا۔ کم از کم مجھے اس کا تجربہ کبھی نہیں ہوا تھا۔ اس سے مسافر پریشان ہوگئے۔ پائلٹ طیارے کو 3000 فٹ اوپر لے گیا اور دوبارہ لینڈنگ کی کوشش کی۔ انجن فیل ہو گیا اور ہونی ہوکر رہی۔ اس سوال پر کہ وہ ان لمحات میں کیا سوچ رہے تھے اور طیارے میں کیا ماحول تھا، ظفر نے جواب دیا کہ لینڈنگ کی دوسری کوشش سے 30 سیکنڈ پہلے کچھ جذباتی چیزیں ہوئیں۔ کاک پٹ کا دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور پائلٹ کے سامنے کی سکرین سے میں نے دیکھا کہ طیارہ ناک کے بل نیچے جارہا ہے۔ دو ایر ہوسٹسوں اور سٹیورڈ کے چہرے پر پریشانی تھی۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ گڑبڑ ہے، کریش لینڈنگ ہونے والی ہے۔ اس ساری صورتحال کی تصویر کشی بہت مشکل ہے لیکن میں یہ سب کچھ ذہن میں دہراتا رہتا ہوں تاکہ لوگوں کو بتا سکوں۔ اس حادثے نے اپنے خالق اور اس کے معجزوں پر میرے ایمان کو مضبوط کیا ہے۔ میرے معاملے میں معجزہ لاہور سے روانگی سے پہلے سیٹ بدلنے سے ہی شروع ہوگیا تھا۔ میں دھماکے سے چند سیکنڈ پہلے ہی بے ہوش ہوگیا تھا اور اس وقت ہوش آیا جب مجھے ریسکیو کیا جارہا تھا۔ اس سوال پرکہ آخری لمحات کا کچھ بتائیں، ظفر نےگہری سانس لیتے ہوئے کہا چونکہ میں بے ہوش ہوگیا تھا اس لئے مجھے کچھ یاد نہیں کہ میں طیارے سے زمین پرکیسے گرا۔کچھ لوگوں نے قریب آکر مجھے بتایا کہ انہوں نے کیا دیکھا۔ دراصل میری سیٹ پچاس ساٹھ فٹ کی بلندی سے ایک عمارت کی چھت پر گری۔ وہاں سے اچھل کر وہ بالکل سیدھی گلی میں کھڑی ایک کار کے ہڈ پر آگری۔ اگر سیٹ ٹیڑھے زاوئیے سے یا الٹ کر گرتی تو میرے سارے اعضاء ٹوٹ گئے ہوتے۔ اس طرح یہ اختتام بھی معجزانہ تھا۔ میں ملبے سے ڈھکا ہوا مدد کیلئے پکار رہا تھا۔ جس کار پر میں گرا، اس میں تین آدمی تھے۔انہوں نے ملبہ صاف کیا اور مجھے اٹھاکر دو عمارتوں کے درمیان تنگ راستے سے ایمبولینس تک لے گئے۔ جس جگہ سے گزرے چند لمحے بعد وہاں آگ لگ گئی۔ چند لمحے کی تاخیر سے میں جل کر کوئلہ ہوسکتا تھا۔ جب لوگ مجھے لے کر جارہے تھے، میں دوسرے مسافروں کے بارے میں پوچھتا رہا لیکن انہیں اور ایمبولینس والوں کو کچھ پتہ نہیں تھا۔ اچانک ہی میرا باقی مسافروں سے ایک عجیب تعلق پیدا ہوگیا تھا۔ ہسپتال میں بھی میں دوسرے مسافروں کے بارے میں پوچھتا رہا۔ میں نے اپنی والدہ سے بات کرنا چاہا۔ ایک لیڈی ڈاکٹر نے مہربانی کرتے ہوئے اپنا فون دیا۔ میں نے ملایا تو والدہ کا فون مصروف تھا۔ پھر والد کا نمبر ملایا اور انہیں بتایاکہ میں زندہ ہوں۔ انہیں جیسے یقین نہیں آیا، انہوں نے اسی نمبر پر کال کرکے پھر پوچھا۔ میرا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ بائیں پنڈلی بھی جگہ جگہ سے ٹوٹی ہوئی تھی۔ میرے جسم کی رطوبتیں اوپر سے نیچے آرہی تھیں۔ خون کی روانی بحال کرنے کے لیے میری ٹانگ کو چار بار خشک کرنا پڑا۔ میرے متعدد آپریشن ہوئے اور اسی دوران مجھے کورونا وائرس بھی لگ گیا۔ یہ سب بہت پیچیدہ تھا اور کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ میری نہ بچ جانے والے دوسرے شخص سے ملاقات ہوئی نہ۔ مرنے والوں کے سوگواروں سے ملنے کا حوصلہ ہوا۔ میں نے سوچا کہ وہ سوچ سکتے ہیں کہ اللہ نے مجھے کیوں بچالیا اور ان کے پیاروں پر مہر بان کیوں نہ ہوا۔ میرے لئے اموات اور جنازوں پر جانا اب بھی مشکل ہے۔ لیکن اس نفسیاتی مسئلے پر قابو پانے کی کوشش کر رہا ہوں۔ کووڈ 19 کے بعد اپنے بنک کے ملازمین کیلئے پیکیج، ساتھیوں اور ماتحتوں سے تعلقات اور ادارے کے بزنس کلچر کے بارے میں ظفر مسعود نے کہا اس حادثے میں بچ جانے کے بعد ماتحتوں کے بارے میں میرے تصورات قطعی بدل گئے ہیں۔ پنجاب بنک حکومت کا ہے اور اسے پرانے برٹش بنکنگ کلچر کے مطابق چلایا جارہا تھا۔16 اپریل 2020 کو چارج سنبھالا تو یہ کچھ پیچھے تھا۔ 18 ماہ سے یہ کسی CEO کے بغیر چل رہا تھا۔ سٹاف میں مایوسی سی تھی۔ افسروں اور ماتحتوں کے درمیان رابطے کی سخت کمی تھی۔ پھر کورونا کا تباہ کن حملہ شروع ہوا۔ لوگوں کو گھر سے کام کرنے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان کی خیریت کیلئے کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تھے۔اس لئے دفتر میں پہلے ہی دن میں نےایک خط جاری کیا جس میں اپنی جانیں خطرے میں ڈالنے والی اپنی ورک فورس کی بہبود کیلئے اپنا پلان بیان کیا۔ پھر بنک آف پنجاب کے بورڈ آف ڈائریکٹرز نے کارکنوں کیلئے ایک بے مثال پیکیج کی منظوری دی۔ کارکنوں کی حوصلہ افزائی کیلئے میں نے سپیشل بونس کا اعلان کیا۔ ہمارے اقدامات بنکنگ صنعت کیلئے ایک ماڈل بن گئے۔ ان اقدامات سے مجھے ایک بہترین ٹیم بنانے میں مدد ملی اور ہمارے بزنس کلچر میں 360 درجے کی تبدیلی آگئی۔ طیارے کے حادثے سے ملنے والے سبق کے بارے میں ظفر مسعود نے کہا اس حادثے نے سبق دیا کہ زندگی تو ایک بلبلے کی طرح عارضی ہے۔ لوگوں سے جو محبت اور شفقت ملی اس نے مجھے یہ احساس دیا کہ مجھے پوری دیانتداری اور پوری صلاحیت کے ساتھ کام کرنا چاہیے اور ملازمین کی بھلائی کے لیے جو کچھ ممکن ہو کرنا چاہیے۔ یہ “Management with Empathy۔”کہلاتی ہے۔ میں نے سیکھا ہے کہ ہمیں اپنے ماتحتوں کو سراہنا چاہیے۔ اب میں اس حقیقت سے آگاہ ہوگیا ہوں کہ اپنے ارد گرد کے لوگوں سے مخلصانہ اور دوستانہ تعلقات سے خالق ہم سے خوش رہتا ہے۔ انسان پیسے اور شہرت سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ میں یہی بات چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں۔ مال دولت سب کچھ ایک دن ختم ہوجائیں گے۔ میں چاہتا ہوں کہ ملازمین سے تعلقات کے سلسلے میں مجھے ایک چینج ایجنٹ، ریفارم اور ایمان دار لیڈر کے طور پر یاد رکھا جائے۔ تعلق خاطر، ہمدردی اور احساس ارد گرد کی زندگی کو بدل دیتے ہیں۔ ان سے معیشت اور انسانی وسائل کی پائیدار ترقی ہوتی ہے۔ بدلتے ہوئےزمانے میں بالخصوص کووڈ19 کے بعد تعلق خاطر وقت کی ضرورت بن گیا ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں کمزور معیشت کی وجہ سے کوئی سوشل سیکورٹی نہیں ہے، یہ اور بھی ضروری ہے۔ خدا کو خوش کرنے کیلئے رسمی باتیں کافی نہیں۔مجھے یقین ہے اللہ کو میری کوئی بات پسند آئی کہ اس نے مجھے نئی زندگی دی۔اس لئے اب میں بونس کی زندگی گزار رہا ہوں، اسے حیات مستعار کہہ سکتے ہیں۔آئر لینڈ کے ایک بینڈ دی کورس نے مئی 2004 میں ایک سانگ البم Borrowed Heaven ریلیز کیا تھا۔ یہ سننے کے قابل ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ ہر شخص یہ سنے اور اس کے پیچھے جذبے کو محسوس کرے۔ ہمیں لوگوں پر بھروسہ کرنا چاہئیے۔ چند ہی اس قابل نہیں ہوسکتے۔ ہمیں خود میں برداشت، رواداری، تحمل اور بقائے باہمی کی خوبیاں پیدا کرنی چاہئیں۔ غرور اور تکبر مہلک ہیں۔ ہمیں انہیں نکال باہر پھینکنا ہوگا۔ یہ پائلٹ کا غرور ہی تھا جس نے 97 جانیں لے لیں۔ اس نے ایر ٹریفک کنٹرولر کی بات مان لی ہوتی اور واپسی اور لینڈنگ کیلئے لمبا روٹ اختیار کرلیا ہوتا تو یہ المیہ پیش نہ آتا۔ ہم سب کو طاقت اور اختیار حاصل ہونے پر انکساری کا رویہ اختیار کرنا چاہئیے۔ عالی شان دفتروں میں بیٹھے لیڈروں کو اپنے مفادات کی قربانی دینی چاہئیے۔ طیارے کے اس حادثے نے مجھے ایک اور بات بھی سکھائی ہے کہ ہمیں اپنے واجبات جلد از جلد ادا کردینے چاہئیں۔ انہوں نے مزید کہا مضبوط قوت ارادی ہمیں حالات پر قابو پانے میں مدد دیتی ہے۔ میں نے حادثے کے ایک ماہ بعد ہی ہسپتال کے بیڈ سے کام شروع کردیا تھا۔ اس سے مجھے نفسیاتی دباؤ پر قابو پانے میں بھی مدد ملی۔ زندگی کام ہے۔ عملے کو محنت کرنی چاہئیے، جتنی ان سے توقع کی جاتی ہے اس سے بڑھ کر کام کرتے ہوئے خود کو ترقی کا مستحق ثابت کرنا چاہئیے۔ خدا مواقع دیتا ہے، ہمیں ان سے مستفید ہونا چاہئے۔

تازہ ترین