پاکستان پیپلز پارٹی سے دیرینہ وابستگی رکھنے والے سابق وزیرِ اعظم، سیّد یوسف رضا گیلانی کی، جو محترمہ بے نظیر بھٹّو کے دورِ اقتدار میں قومی اسمبلی کے اسپیکر بھی رہ چُکے ہیں، سینیٹ کے انتخاب میں حکم ران جماعت کے مقابلے میں کام یابی سے ایک ایسی بحث کا آغاز ہوا، جس کے کئی پہلو ہیں اور اُن میں سے ہر ایک ہی سیاسی طور پر اہم ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس انتخاب کے کئی روز بعد بھی اُس جیت پر تجزیے ، تبصرے ہو رہے ہیں۔
گیلانی صاحب کی کام یابی سے پہلے ضمنی انتخابات میں حکومت مخالف اتحاد، پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ کے امیدواروں کی فتح، پنجاب اسمبلی کے رُکن، حمزہ شہباز کی طویل اسیری کے بعد ضمانت پر رہائی، اسحاق ڈار اور جے یو آئی کے رہنما، اکرم خان درّانی کے خلاف نیب کی کارروائی بند کیے جانے کے علاوہ بھی کئی ایسے اشارے اور اقدامات نظر آرہے ہیں، جن سے اِس گمان کو تقویت ملتی ہے کہ پاکستان تحریکِ انصاف جب تک اقتدار میں رہے گی، اُس کے لیے سیاسی مشکلات بڑھتی ہی رہیں گی۔
نیز، اِس سیاسی پس منظر کی بنیاد پر بعض حلقوں کی رائے ہے کہ جو ادارے مُلک کے سیاسی، بالخصوص انتخابی معاملات میں اہم اور فیصلہ کُن کردار ادا کرتے ہیں اور جن کی خواہش کو سیاست دانوں کی اکثریت حرفِ آخر سمجھتی ہے، اُنھوں نے نئی صُورتِ حال میں حزبِ اقتدار اور حزبِ مخالف کا سیاسی کردار متوازن رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔علاوہ ازیں، یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اُن اداروں پر اپوزیشن کی جانب سے پی ٹی آئی حکومت کی حمایت میں تجاوز کے جو الزامات عاید کیے جا رہے تھے، وہ داغ دھونے کے لیے بھی اپوزیشن کو ریلیف دیا گیا ہے، جس کی تشریح اپوزیشن کی دانست میں یہ ہے کہ’’ اداروں نے حکومت کے سَر سے دستِ شفقت اُٹھا لیا ہے۔‘‘
سیاسی حالات پر نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ اب’’ نادیدہ ہاتھ‘‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے سَر پر بھی رکھا گیا ہے اور اِس مقصد کے لیے یوسف رضا گیلانی کا انتخاب کیا گیا، جو طویل عرصے سے پس منظر میں تھے۔ یقیناً اس پیش رفت میں آصف علی زرداری کی رضا مندی بھی حاصل کی گئی ہوگی اور اُنھیں اعتماد میں لیا گیا ہوگا۔
اگر یوسف رضا گیلانی سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوجاتے ہیں، تو وہ بلحاظِ عُہدہ قائم مقام صدرِ مملکت بھی ہوں گے، یوں جب تک پی ٹی آئی حکومت قائم رہتی ہے، وہ اُس کے لیے مسلسل دردِ سَر بنے رہیں گے۔ یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ آخر سیاسی توازن کے لیے اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت، پاکستان مسلم لیگ(نون) کو نظر انداز کرکے پی پی پی کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا؟
اِس ضمن میں بظاہر یہی محسوس ہوتا ہے کہ یہ رابطے اور کام یابی آصف علی زرداری کی "سیاسی حکمتِ عملی" کا نتیجہ ہے، جنھوں نے پی ڈی ایم کی تحریک کے دَوران اداروں کے بارے میں الزامات اور تنقید کے حوالے سے’’ ذمّے دارانہ‘‘ طرزِ عمل اختیار کیا۔ نیز، پارٹی چیئرمین، بلاول بھٹّو نے بھی اُن کی ہدایت پر اپنی تقاریر میں اداروں سے متعلق محتاط رویّہ اختیار کیے رکھا، جب کہ مریم نواز اور اُن کے رفقا نے اپنی تقاریر میں مسلسل اداروں اور اہم شخصیات کے نام لے کر اُنھیں للکارا، یہی کچھ خود میاں نواز شریف بھی کرتے رہے۔
البتہ، میاں شہباز شریف کے سیاسی رویّے اپنے بھائی اور بھتیجی سے بہت مختلف تھے۔ اِس لیے اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک مسلم لیگ(نون) کی بجائے آصف علی زرداری زیادہ’’ قابلِ بھروسہ‘‘بنے۔ اس صُورتِ حال میں مسلم لیگ(نون) کے لیے ایک بڑا ریلیف مریم نواز کی بیرونِ مُلک روانگی ہوسکتی ہے، جب کہ شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو بھی مقدمات میں رعایت کی صُورت سیاسی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔
اِن سطور کی اشاعت تک سینیٹ کے چیئرمین کا حتمی فیصلہ ہوچُکا ہوگا۔ وزیرِ اعظم، عمران خان نے یوسف رضا گیلانی کی جیت کے اگلے ہی روز صادق سنجرانی کو دوبارہ اپنا امیدوار بنانے کا اعلان کیا، جب کہ پیپلز پارٹی کی جانب سے یوسف رضا گیلانی کا نام سامنے آیا، تاہم اُن پر بدعنوانی سمیت کئی الزامات بھی لگتے رہے، جن کا تعلق اسپیکر شپ اور وزارتِ عظمیٰ کے ادوار سے ہے۔دوسری طرف، سینیٹ کے الیکشن میں شکست کھانے والے حکومت کے مشیرِ خزانہ، عبدالحفیظ شیخ کے بارے میں بھی خاصی بحث ہوئی،یہاں تک کہ اُن کی نام زدگی پر بعض حکومتی ارکان کو بھی شدید تحفّظات تھے۔اُن کا کہنا تھا کہ حفیظ شیخ غیر سیاسی شخصیت ہیں۔
نیز، اُن کے بارے میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ عالمی مالیاتی اداروں سے دیرینہ وابستگی اُن کی ’’ترجیحات‘‘ پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وزیرِ اعظم، عمران خان پر اُن کی نام زدگی کے حوالے سے دباؤ تھا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اُنھیں اپنا امیدوار بنانا پڑا۔ برسبیلِ تذکرہ یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جب وزیرِ اعظم نے کابینہ کے اجلاس میں سینیٹ کے الیکشن میں فتح وشکست کی بات کی، تو ایک اتحادی جماعت کے واحد رُکنِ اسمبلی نے، جو اہم وزارت پر بھی فائز ہیں، اپنے مخصوص انداز میں حفیظ شیخ کی یقینی کام یابی کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا’’ سرجی! فکر ہی نہ کریں، ہمارا ہی امیدوار کام یاب ہوگا۔‘‘
اُن کی تقلید میں بعض دیگر وزرا نے بھی اسی طرح کی یقین دہانی کروائی، تاہم ایک اور اتحادی جماعت کے دبنگ وزیر نے، جن کا تعلق پنجاب سے ہے، اس موقعے پر کہا کہ’’ ہمیں یوسف رضا گیلانی کو ایک آسان امیدوار کے طور پر نہیں لینا چاہیے۔ اگر آصف علی زرداری نے اُنھیں میدان میں اُتارا ہے، تو اُن کی جیت کا "انتظام" بھی کیا ہوگا۔‘‘
یہاں پی ڈی ایم کے صدر، مولانا فضل الرحمٰن کا بھی ذکر ضروری ہے کہ جنھوں نے پی ڈی ایم کی تشکیل سے لے کر اپوزیشن کی کام یابیوں تک میں اہم کردار ادا کیا۔ تاہم، پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتوں میں اُن کی حیثیت اور اہمیت، احتجاج، منصوبہ بندی اور افرادی قوّت کی فراہمی تک ہی محدود ہے، جو وہ مدارس کے طلبہ کی صُورت فراہم کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ کیا مولانا فضل الرحمٰن کو اب بھی اپوزیشن کی احتجاجی سیاست میں سابقہ اہمیت حاصل رہے گی اور یہ بھی کہ کیا اُنھیں بھی اُن’’ ثمرات‘‘ میں شریک کیا جائے گا، جو بڑی اپوزیشن جماعتیں اور اُن کے قائدین حاصل کر رہے ہیں؟
اس سے پہلے اطلاعات تھیں کہ مولانا فضل الرحمٰن کو سینیٹ کا چیئرمین بنایا جائے گا، تاہم نئی سیاسی پیش رفت میں ایسا ممکن نہیں رہا۔ اب اُن کی جماعت کے لیے بلوچستان اسمبلی اور حکومت میں کسی کردار اور اہم منصب کی خبریں ہیں، لیکن لگتا تو یہی ہے کہ اپوزیشن کو اپنی جدوجہد کے نتیجے میں ابھی تک جو کام یابی یا ریلیف ملا ہے، مولانا فضل الرحمٰن اس کے ثمرات سے محروم ہی رہے ہیں، جب کہ پی پی پی اور مسلم لیگ(نون) نے اپنے معاملات خاصی حد تک بہتر کیے ہیں۔ سو، اس تناظر میں شیخ رشید کی یہ بات کہیں درست ہی ثابت نہ ہو جائے کہ’’ مولانا کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہوگیا ہے اور وہ اکیلے رہ جائیں گے۔‘‘
اسلام آباد کی نشست، حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی جنگ قرار پائی
سینیٹ کے انتخابات میں وفاقی دارالحکومت کی جنرل نشست نے سیاسی صُورت حال میں اضطراب برپا کیے رکھا۔ اِس کی اہمیت کا اندازہ اِس اَمر سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا پہلا واقعہ تھا، جس میں سینیٹ انتخابات کو اسلام آباد کی نشست کے حوالے سے حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے طور پر لیا جا رہا تھا اور یہ بھی پہلی بار ہوا کہ سیاسی جماعتوں کی قیادت، جن میں خود عمران خان بھی شامل تھے، اپنے امیدوار کی خود مہم چلا رہی تھی۔
اتحادی جماعتوں کے علاوہ آزاد اور ناراض ارکان سے بھی آخری وقت تک رابطے جاری رہے۔ ایک طرف پیپلز پارٹی کے چیئرمین، بلاول بھٹّو اور آصف زرداری نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال دئیے تھے، تو دوسری طرف وزیرِ اعظم، عمران خان اپنے منصب کی متقاضی سرگرمیاں اور پروٹوکول نظرانداز کرکے تین روز تک مسلسل ارکانِ اسمبلی سے ملاقاتیں کرتے رہے۔ شہباز شریف اور مریم نواز بھی سرگرم رہے، تاہم مولانا فضل الرحمٰن چوں کہ پارلیمنٹ کے رُکن نہیں ہیں، اِس لیے اُنھوں نے پس منظر میں رہتے ہوئے ہی اپنا کردار ادا کیا۔
ووٹ خراب ہونے کی دل چسپ کہانیاں
سینیٹ انتخابات میں پولنگ کے دَوران ایسے مناظر بھی دیکھنے میں آئے، جو نہ صرف منفرد بلکہ دل چسپ اور یادگار بھی تھے۔سابق صدر، آصف علی زرداری پولنگ بوتھ میں گئے، تو اگلے ہی لمحے واپس باہر آگئے اور ریٹرننگ افسر سے دوبارہ بیلٹ پیپر جاری کرنے کا کہا۔ ریٹرننگ افسر نے سوالیہ انداز میں اُن کی طرف دیکھا، تو اُنھیں پہلا بیلٹ پیپر دِکھایا، جو خراب ہوگیا تھا، جس پر اُنھیں دوسرا بیلٹ پیپر جاری کیا گیا۔اس ضمن میں بتایا گیا کہ مسلسل خرابیٔ صحت کے باعث زرداری صاحب کے ہاتھوں میں رعشہ آگیا ہے، اِس لیے مطلوبہ نشان پر مُہر لگاتے ہوئے اُن کا ہاتھ ہل گیا تھا۔
وزیرِ اعظم، عمران خان ووٹ ڈالنے آئے، تو وزیرِ موسمیات زرتاج گل بھی اُن کے ہم راہ تھیں ۔ پہلے وزیرِ اعظم نے ووٹ ڈالا، پھر اُن کے عقب میں موجود زرتاج گل نے ووٹ کاسٹ کیا۔ ووٹ ڈال کر روانہ ہونے لگیں، تو پولنگ عملے نے دریافت کیا’’ سب ٹھیک ہوگیا؟‘‘ جس پراُنھوں نے جواب دیا’’ جی ہاں، مَیں نے بیلٹ پیپر پر دست خط کردئیے ہیں۔‘‘ عملے کے مذکورہ رُکن نے حیرت سے دوبارہ پوچھا، تو انھوں نے پھر وہی جواب دیا، جس پر اُنھیں بتایا گیا کہ اُن کا تو ووٹ خراب ہوگیا ہے، کیوں کہ دست خط نہیں، نشان لگانا تھا۔
زرتاج گل نے کہا’’ وزیرِ اعظم نے بھی تو دست خط ہی کیے ہیں۔اِس لیے مَیں نے بھی اُنھیں دیکھ کر ایسا ہی کیا۔‘‘کچھ ایسی ہی بات پی ٹی آئی کے وزیرِ مملکت، شہر یار آفریدی نے بھی کی اور اپنا ووٹ ضائع کردیا، جس پر مبیّنہ طور پر وزیرِ اعظم نے اُن کی اچھی خاصی کلاس لی۔
اپوزیشن شخصیات کا خصوصی پروٹوکول
پولنگ کے دَوران پریس گیلری سے یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ جب اپوزیشن شخصیات اپنا ووٹ کاسٹ کرنے آتیں، تو الیکشن کمیشن کے اعلیٰ حکّام کھڑے ہوکر اُن کی تعظیم کرتے، لیکن حکومتی شخصیات کو غیر اہم انداز سے اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے سلام کرنے پر اکتفا کیا۔ اُن کا یہ طرزِ عمل وزیرِ اعظم ،عمران خان، قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر سمیت کئی وزرا کے ساتھ بھی دیکھنے میں آیا، جب کہ اپوزشن لیڈر میاں شہباز شریف اور سابق اسپیکر ایاز صادق اُن لوگوں میں شامل تھے، جن کی آمد پر الیکشن کمیشن کے اعلیٰ حکّام نے اپنی نشستوں سے کھڑے ہو کر خیر مقدم کیا۔
ذاتی قلم کا استعمال
قواعد وضوابط کے مطابق پولنگ کے دَوران ارکانِ اسمبلی، الیکشن کمیشن کی جانب سے فراہم کردہ اسٹیشنری اور پین استعمال کرنے کے پابند ہیں، لیکن دو سے تین اراکین نے انتخابی عمل میں ذاتی پین استعمال کیے، جس پر ریٹرننگ افسر کی جانب سے اعتراض کیا گیا اور ذاتی پین کا استعمال روک دیا گیا۔
مولانا فضل الرحمٰن کی پی ڈی ایم پر مضبوط گرفت
وزیرِ اعظم، عمران خان کی جانب سے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا، تو اپوزیشن نے اُس کا بائیکاٹ کیا، جس سے اپوزیشن کی مکمل یک جہتی اور حکومت کے خلاف تحریک میں ہم آہنگی سامنے آئی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کے خلاف اقدامات اور سرگرمیوں کو پارلیمانی ایوانوں میں رکھنے کا اعلان کیا تھا اور عدم اعتماد کی تحریک بھی اُس کا حصّہ تھی، لیکن مولانا فضل الرحمٰن نے قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی شدید مخالفت کی، جس کے باعث اپوزیشن نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک پر مولانا فضل الرحمٰن کی خاصی مضبوط گرفت ہے۔
اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس میں جہاں پی ٹی آئی کے تمام ارکان نے غیر معمولی جوش وخروش کا مظاہرہ کیا، وہاں پی ٹی آئی کے دو وزیروں، شہریار آفریدی اور زرتاج گل کی خاموشی خاصی معنی خیز تھی، جسے دیگر ارکان نے بھی محسوس کیا۔
یاد رہے، ان دونوں ارکان کے بارے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اُنھوں نے سینیٹ انتخابات میں اپنے ووٹ ضائع کردئیے تھے۔