• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور صدر اشرف غنی نے دو روز قبل کابل میں طالبان کے ساتھ تعطل کے شکار امن مذاکرات کو تیز کرنے پر تبادلہ خیال کیا تھا جس کے بعد امریکی ایلچی طالبان سے بات چیت کے لئے دوحہ پہنچ گئے۔ زلمے خلیل زاد اور افغانستان میں تعینات امریکی جنرل نے جمعے کو ملا عبد الغنی برادر سمیت طالبان کی مذاکراتی ٹیم سے ملاقات کی۔ دونوں فریقوں نے دوحہ معاہدے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے اور بین الافغان مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے پر تبادلہ خیال کیا۔ تاہم صدر غنی نے ہفتے کو کابل میں پارلیمنٹ کے اجلاس سے خطاب میں طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کو آگے بڑھانے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے ملک میں نئے انتخابات کی تجویز پیش کی ہے جسے صورت حال میں ایک نیا موڑ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اب تک عبوری حکومت کا قیام ہی زیر غور رہا ہے اور ذرائع کے مطابق امریکی نمائندہ خصوصی نے تازہ ملاقات میں بھی افغان سربراہ مملکت سے اسی پر بات کی تھی۔ تاہم صدر غنی نے اپنے خطاب میں قطعی دوٹوک انداز میں یہ موقف اپنایا ہے کہ ’’انتخابات کے ذریعے اقتدار کی منتقلی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔ کوئی بھی ادارہ کسی کاغذ کے ٹکڑے پر خیالی مشورہ دے سکتا ہے لیکن ہمارا آئین ہی ہمارا رہنما ہے۔ ہم عالمی برادری کے زیر انتظام آزاد، منصفانہ اور جامع انتخابات کے انعقاد پر بات کرنے کے لئے تیار ہیں‘‘۔ اصولاً اس موقف کے درست ہونے پر کوئی حرف گیری نہیں کی جاسکتی اور بظاہر کسی کو بھی اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہئے لیکن افغانستان کے خصوصی حالات میں پرامن انتخابات کا انعقاد کس طرح ہوگا؟ یہ نکتہ ضرور قابلِ غور ہے۔ اگر یہ تجویز قابلِ عمل ہے تو صدر غنی لائق داد ہیں کیونکہ ابھی ان کے اقتدار کی نصف مدت بھی پوری نہیں ہوئی ہے تاہم اگر ایسا نہیں تو اس تجویز کوعبوری حکومت یعنی شرکت اقتدار کو ٹالنے کا حربہ قرار دیے جانے کے امکان کو ردّ نہیں کیا جا سکتا۔

تازہ ترین