• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ کثیرالجہتی نصاب، مختلف النوع ذرائع تعلیم اور سماجی تفریق نے وطن عزیز میں تعلیمی شعبے کو استحکام نصیب نہیں ہونے دیا۔ طبقاتی گروہ بندی، مقابلے کے امتحانات میں کمزور کارکردگی، بین الاقوامی سطح پر مقامی ڈگریوں کی بےوقعتی تعلیم یافتہ ہوتے ہوئے بھی ہمارے نوجوانوں کیلئے ناکامیوں کا باعث بنی ہوئی ہے۔ یہ ساری صورتحال من حیث القوم ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ بلاشبہ پی ٹی آئی حکومت اڑھائی سال سے یکساں قومی نصاب (SNC)کے ایجنڈے پر کام کررہی ہے جس کی روشنی میں اسکولوں میں نیا تعلیمی سالِ رواں سال اگست سے شروع کرنے اور یکساں نصاب رائج کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے۔ اس حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ اب تک صرف حکومت پنجاب اس پر عمل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔ سندھ حکومت نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کا حوالہ دیتے ہوئے اسے صوبائی معاملہ قرار دیا ہے جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان کی حکومتیں تاحال کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکیں۔ دوسری طرف نجی اشاعتی اداروں کو شکایت ہے کہ ابھی تک انہیں نئی درسی کتب کی طباعت کیلئے وفاقی حکومت کی طرف سے این او سی نہیں ملا۔ وفاق المدارس العربیہ کا کہنا ہے کہ حکومت نے اپنے نصاب کے حوالے سے سوشل سائنسز اور اضافی مواد کے معاملے پر ان سے مشاورت نہیں کی۔ اس ضمن میں ماہرین تعلیم کا مؤقف ہے کہ کلاس ایک سے پانچ تک بیک وقت یکساں نصاب نافذ کرنے سے لاکھوں بچوں کا پورا تعلیمی کیرئیر خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ موجودہ حالات میں صوبائی سطح پر تعلیمی نظام میں بحران پیدا ہوگا۔ یہ سب معاملات انتہائی توجہ کے متقاضی ہیں۔ زمینی حقائق کا تقاضا ہے کہ اب لاحاصل تجربات سے اجتناب کرنا چاہئے۔ بہتر ہوگا کہ تمام اسٹیک ہولڈروں کے ساتھ مل بیٹھ کر تعلیمی مسائل کا پائیدار حل نکالا جائے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998

تازہ ترین