• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پچھلے ہفتے سیاست کا بھیانک چہرہ آپ کے سامنے رہا۔ آپ نے بکتے ہوئے اور پھر بکے ہوئے اراکین کو اعتماد کا ووٹ دیتے ہوئے دیکھا۔ برا بھلا کہتے ہوئے، گالیوں، تھپڑوں اور جوتوں کے بعد اخلاقیات کا درس دیتے ہوئے سیاستدان بھی دیکھے۔ آپ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ کس طرح سیاستدان ایک دوسرے کو چور، لٹیرا اور ڈاکو قرار دیتے رہے۔ عہدوں کا پاس نہ کرتے ہوئے سیاستدان محلے کے آوارہ لڑکوں کی طرح نظر آئے۔ ایک لمحے کے لئے رکیے اور سوچیے کہ یہ ہیں ہمارے رہنما، یہ ہماری رہنمائی کریں گے؟ یہ ہے ہماری سیاست، جس میں سے شرافت تلاش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ ہیں ہمارے جمہوری رویے، جن میں سے بہترین انتقام تلاش کیا جاتا ہے۔ ہماری جمہوریت کے ماتھے پر ایک نہیں بےشمار داغ ہیں، اب داغ دھبوں سمیت سیاست کا بھیانک چہرہ معاشرے کے حسین آنگن کا حصہ بن گیا ہے۔ اس آنگن میں اخلاقیات کہاں سے، کیسے ڈھونڈیں کہ سیاست نے اسے بدصورت بنا دیا ہے۔ لوگوں کو اخلاقی پستی میں دھکیل کر سیاستدان جھوٹ، بددیانتی، منافقت اور مار دھاڑ کا درس دے رہے ہیں۔

سمجھنے کیلئے ایک ہفتہ کافی ہے، اس ایک ہفتے میں وڈیو کلپس بھی سامنے آئے، اس کے چند کردار بھی۔ بکائو مال اور خریدار بھی دکھائی دیے۔ اداروں پر تنقید، الزامات اور مار کٹائی بھی سامنے آئی۔ کس طرح ایک سابق وزیراعظم کے صاحبزادے لوگوں کو ووٹ ضائع کرنے کا طریقہ سمجھاتے ہوئے نظر آئے، کس طرح کروڑوں میں ضمیر بکے اور پھر اقرار کے بعد کس طرح ایک سابق وزیراعظم یہ کہتے ہوئے دکھائی دیے کہ ’’ووٹ مانگنا ہمارا حق ہے‘‘۔ مختلف اسمبلیوں میں جو خریداری ہوئی وہ ایک طرف مگر وہ جو قومی اسمبلی میں ہوا، وہ عجیب کرشماتی کام ہے۔ ایک حکومتی امیدوار ہار جاتا ہے اور خاتون حکومتی امیدوار جیت جاتی ہے۔ اس انہونی پر مجھے دو شخصیات یاد آئیں، ضمیر جعفری مرحوم لکھتے ہیں ’’ضمیر غائب، ضمیر حاضر‘‘ نواب ڈاکٹر امبر شہزادہ نے تیس برس پہلے سیاستدانوں کی ضمیر فروش کانفرنس کا انعقاد کیا تھا۔ ان کا سلوگن تھا ’’لیڈر بےضمیر عوام بےوقوف‘‘۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ جب ڈاکٹر حفیظ شیخ کو ووٹ کم پڑے اور وہ ہار گئے تو حکومت کے بقول لوگ بک گئے اور اپوزیشن کے بقول لوگوں کا ضمیر جاگا۔ ایک سابق صدر اور سابق وزیر اعظم کے صاحبزادے کہنے لگے ’’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘۔ ایک سابق وزیر اعظم نے اسے ضمیر کی آواز قرار دیا۔ ایک اور سابق وزیر اعظم نے اسے موجودہ وزیراعظم پر عدم اعتماد قرار دیا۔ سابق وزیراعظم کی صاحبزادی کہنے لگیں ’’وزیراعظم پر عدم اعتماد ہو گیا ہے، اب وہ وزیراعظم ہائوس پر قابض ہیں، پیسہ نہیں ن لیگ کا ٹکٹ چلا‘‘۔ سابق صدر نے اپنے امیدوار سے متعلق کہا کہ اس کو بیس ووٹ کم ملے۔ وزیر اعظم نے الیکشن کو بکروں کی منڈی قرار دیا اور الیکشن کمیشن پر تنقید کی۔ شفاف الیکشن نہ کروانے کا شکوہ کیا۔ خاتون امیدوار کی بات پر وزیراعظم کو اعتماد مل جاتا ہے، ووٹ بھی 174نکل آتے ہیں۔ وزیراعظم اس صورتحال میں مخمصے کا شکار ہو گئے۔ انہوں نے قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا، ووٹنگ سے پہلے قوم سے خطاب بھی کر ڈالا، اپوزیشن کو للکارا، تنقید کی اور اقتدار سے بے غرضی کی باتیں بھی کیں۔

اعتماد کے لئے ووٹنگ ہوئی تو وزیراعظم کے حق میں 178ووٹ آ گئے یعنی چند اور اراکین کا ضمیر جاگ گیا اور یہ وہی ارکان تھے جو بکے ہوئے تھے پتہ نہیں ان اراکین کو ’’اخلاقیات‘‘ کے کن اصولوں کے تحت ایک رات پہلے معاف کر دیا گیا اور پھر پتہ نہیں کن ’’اعلیٰ اخلاقی اقدار‘‘ کے تحت ان سے ووٹ لیا گیا۔ ووٹنگ کے روز باہر بھی ایک تماشا لگا رہا۔ دونوں اطراف سے بدتمیزی ہوئی۔ ایک طرف کارکن تھے تو دوسری طرف رہنما۔ اچھی بات تو یہ تھی کہ اپوزیشن رہنما اپنے مخالف کارکنوں کے ہجوم میں نہ جاتے۔ جا کر اشتعال انگیز باتیں نہ کرتے مگر یہاں تو قومی اسمبلی کے ایک بوڑھے لیگی رکن گالیاں دیتے رہے، سابق وزیراعظم نے تھپڑ مارا اور تھپڑ کھا لیا۔ پھر انہوں نے چھٹی جماعت کے طالب علم کی طرح گفتگو کی کہ ’’باہر نکلو، میرے سامنے آئو، اگر ایمبولنس پر نہ گئے تو میرا نام بدل دینا‘‘۔ کیا یہ گفتگو ان کے شایانِ شان تھی؟ ایک سابقہ وزیر نے کہا کہ ’’اگر غنڈے بنو گے تو ہم بڑے غنڈے بنیں گے‘‘ کیا یہ ان کے شایان شان تھا؟ مخالف کارکنوں کو بھی برداشت کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا، تھپڑ رسید کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے تھا، جوتے نہیں برسانے چاہئے تھے مگر اب سابق وزیراعظم کی صاحبزادی اداروں پر الزامات کی بارش کرتے ہوئے مخالفین سے کہہ رہی ہے کہ ’’اگر تم ایک تھپڑ مارو گے تو ہم دس تھپڑ ماریں گے‘‘۔

پیارے ہم وطنو! یہ ہے ہماری سیاست اور یہ ہیں ہمارے سیاستدان۔ جنہوں نے گزشتہ 35برس سے معاشرے میں نفرت، ظلم، زیادتی، ناانصافی اور تنزلی کے سوا کچھ نہیں بویا۔ جنہوں نے لوٹ مار اور ضمیر فروشی کی، ملک مقروض بنایا، اب یہ لوگ معاشرے میں گالیاں، نفرت، تھپڑ، جوتے اور غنڈہ گردی برپا کرنا چاہتے ہیںتفّ ہےایسی سیاست اور ایسی جمہوریت پر جو لوگوں کی آسوں، امیدوں اور خوشیوں پر پانی پھیر دے کہ بقول سرور ارمان ؎

اک قیامت تھی کہ رسوا سرِ بازار تھے ہم

اور پھر اس کی وہ تشویش بھی بازاری تھی

تازہ ترین