• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنی نوع انسان اپنے ابتدائی دور میں جب غاروں اور جنگلوں میں رہتا تھا تو اس کے لئے راتوں میں چاند کی روشنی سحر سا طاری کردیتی تھی اور جیسے جیسے تہذیب و تمدن نے قدم جمائے اس کی چاند سے محبت اور عشق میں اضافہ ہوتا چلاگیا اور پھر اس عشق میں مبتلا ہو گیاجس نے انسان کو چاند کی حقیقت جاننے کی جانب راغب کیا اور تحقیقاتی اداروں کو تشکیل دیتے ہوئے چاند کی جانب سفر کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی اور امریکہ نے اپالو گیارہ کے ذریعے چاند پر قدم رکھتے ہوئے نئی تاریخ رقم کردی ۔

اپالو گیارہ کے خلا نورد نیل آرمسٹرونگ کے یہ الفاظ’’ انسان کا یہ چھوٹا سا قدم انسانیت کی ایک بڑی جست ہے‘‘ نے دنیا بھر میں خلائی دوڑ کا آغاز کردیا اور دیکھتے ہی دیکھتے کئی ممالک نے چاند پر کمند ڈالنے کے لئے باقاعدہ خلائی ادارے قائم کردیے لیکن بدقسمتی سے کسی بھی اسلامی ممالک میں یہ صلاحیت موجود نہ تھی کہ وہ بھی مغربی ممالک کی طرز پر خلائی ادارہ قائم کرے۔ اس وقت تک کم از کم 5ممالک چاند پر جانے کے منصوبوں کا اعلان کر چکے ہیں اور اب ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نےبھی چاند پر جانے کے پروگرام کا آغاز کرتے ہوئے پہلے اسلامی ملک کا اعزاز حاصل کرلیا ہے۔

ترک صدر ایردوان نے جمہوریہ ترکی کے قیام 1923ءکی صد سالہ سالگرہ کے موقع پر یعنی سن 2023 ءمیں اپنے خلائی مشن کو چاند پربھیجنے کے پروگرام کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے دس سالہ قومی خلائی پروگرام کا اعلان کیا ہے جس میں ترک خلابازوں کے لئے چاند پر ایک خلائی اسٹیشن کے قیام کا منصوبہ بھی شامل ہے۔

انہوں نے خلائی پروگرام سے متعلق تفصیلات فراہم کرتے ہوئے کہا کہ 2023 ءکے اواخر تک پوری دنیا ، عالمی تعاون سے ترکی میں مقامی طور پر تیار کردہ ہائبرڈ راکٹ کی چاند پرلینڈنگ کا نظارہ اور ترک پرچم چاند پر لہراتے دیکھے گی۔

انہوں نے کہا کہ پہلا ہدف حاصل کرنے کے بعد اسی راکٹ کے ذریعے چاند سے متعلق تمام ضروری معلومات کو یکجا کیا جائے گا اور 2028 میں دوسرے ترک راکٹ کو چاند پر روانہ کیا جائے گا اور یہ راکٹ مقامی طور پر ترکی کا خلائی ادارہ ہی تیارکرے گا اور اسے خلا میں چھوڑےگا۔ اس سلسلے میں ترکی نے براعظم افریقہ کے مختلف اسلامی ممالک سے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھا ہوا تھا اور اب جگہ اور مقام کےلئے صومالیہ کو دیگر ممالک پر برتری حاصل ہےاور قرینِ قیاس یہی ہے کہ صومالیہ ہی سے 2023 میں ترک خلائی سیٹلائٹ کوچھوڑا جائے گا۔

ایردوان نے گزشتہ چند سالوں میں خلائی ٹیکنالوجی کی جانب خصوصی توجہ دیتے ہوئے نہ صرف خلائی ادارے کو مضبوط بنایا بلکہ اسے مغربی ممالک کے ہم پلہ بناتے ہوئے خلائی ٹیکنالوجی کی دوڑ میں ترکی کے شامل ہونے کا واضح اعلان کردیا۔ انہوں نے انقرہ میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صدیوں سے اس کرہ ارض پر انصاف، اخلاق اور امن کی رہنمائی میں پیش پیش ہماری تہذیب اب خلائوں کا رخ کریگی۔

ہمارے پائوں زمین پر ہوں گے لیکن ہماری نگاہیں خلا میں ہونگی۔ ہماری جڑیں دھرتی میں پیوست ہوں گی لیکن ہماری شاخیں آسمانوں میں پھیلی ہوں گی۔انہوں نے خلا میں ترکی کی صلاحیت اور قابلیت میں اضافہ کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ فلکیاتی مشاہدات اور زمین سے خلائی عناصر کا پتہ چلانے کی جانب خصوصی توجہ دینے کے لئے ابھی سے ہی بنیادی ڈھانچے کو مضبوط اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے ترک نوجوانوں کو خوشخبری سناتے ہوئے چاند پر جانے والے خلا بازوں کے انتخاب کا سلسلہ شروع کرنے اور خاص طور پر ترک نوجوان خواتین خلاباز وں کو چاند پر بھیجنے کے لئے تیاری شروع کرنے کا اعلان بھی کیا۔

انہوں نے اس موقع پر خلائی ٹیکنالوجی میں رہ جانے والی خامیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ابھی ہمیں راکٹ لانچنگ کے شعبہ میں پوری طرح دستر س حاصل نہیں ہوئی۔ ہم اپنے مصنوعی سیارے کو اپنے ہی راکٹ کے ذریعے چھوڑے جانے کے پروگرام کی جانب خصوصی توجہ دیے ہوئے ہیں۔

گزشتہ سال ہی ترکی کے ادارے راکت سان نے اپنے تیار کردہ راکٹ کے ذریعے سیٹلائٹ چھوڑا تھا اور اب ترکی مقامی طور پر تیار کردہ راکٹوں کے ذریعے اپنے مائیکرو اور منی سیٹلائٹ کو خلا میں بھیجنے کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔

واضح رہے کہ ترکی میں 13دسمبر 2018میں صدارتی حکمنامے کے ذریعے ترک اسپیس ایجنسی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ وزارتِ صنعت و ٹیکنالوجی کے تحت کام کرنے والے اس ادارے نے جنوری 2019میں ’’گبزے‘‘ میں ’’نیشنل اسپیس پروگرام ورکشاپ‘‘ کے تحت اجلاس اور بعد میں تسلسل کے ساتھ جاری رہنے والے اجلاسوں میں صدر ایردوان کو خلائی پروگرام کے بارے میں مسلسل معلومات فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا تھا ۔ اسی دوران مقامی طور پرتیار کردہ ترک ساٹ5 اے سیٹلائٹ کو ایلون مسک کی اسپیس ایکس فرم کی جانب سے خلا میں بھیجاگیا۔

ترکی خلائی پروگرام میں مقامی سطح پر تیار کردہ ٹیکنالوجی کو استعمال کررہا ہے تاکہ اس کے بنیادی ڈھانچے کو مقامی وسائل کا استعمال کرتے ہوئے حتمی شکل دی جاسکے اور ترکی کو مستقبل میں اس شعبے میں کسی کامحتاج نہ ہونا پڑے۔ ترکی جو 2018میں اقتصادی بحران کی جانب بڑھ رہا تھا اور صدر ایردوان کوخلائی پروجیکٹ پر بھاری اخراجات کی وجہ سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا تھا

انہوںنے تنقید کی پروا کیے بغیر خلائی پروگرام کو جاری رکھنے کا اعلان کیا ۔ ان پر تنقید کرنے والے عناصر کو بعد میں اس بات کا احساس ہوگیا کہ اگر موجودہ حالات میں خلائی پروگرام کو حتمی شکل نہ دی جاسکی تو پھر مستقبل قریب میں ترکی خلائی دوڑ سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے باہر ہو جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین