• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آزاد کشمیر کے شہر پلندری کے قریب ’بارل قلعہ ‘

آزاد کشمیر کا سب سے چھوٹا ضلع ’سدھنوتی‘ سرسبز پہاڑوں کے درمیان واقع ہے۔ اس علاقے میں سدھن قبیلہ آباد ہے جس کے باشندوں کو سدوزئی کہا جاتا ہے۔ سدھنوتی کے قدیم شہر پلندری سے 12کلو میٹر کے فاصلے پر بارل گاؤں آباد ہے۔ بارل کے وسط میں اونچی گھاٹی پر خستہ حال ’قلعہ بارل‘واقع ہے۔ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے اور قدرتی آفات کے باوجود یہ قلعہ آج بھی ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ 

اس کے شمال میں پلندری، جنوب میں سہنسہ، مشرق میں کوہالہ اور مغرب میں اٹکورہ ہے۔ قلعے تک لے جانے والا راستہ نہایت خوبصورت اور ہرابھرا ہے۔ اگر سبزہ زار دیکھنا ہے تو یہاں جانے کے بہترین ماہ مارچ تا اکتوبر ہیں کیونکہ سردیوں میں ہریالی دیکھنے کو نہیں ملتی۔

تین کنال کے رقبے پرپھیلے ہوئے اس قلعے کا سنگِ بنیاد تقریباً پونے دوسو سال قبل (1837ء) مہاراجہ گلاب سنگھ کے دور میں رکھا گیا اور اس کو تعمیر کرنے میں تین سال کا عرصہ لگا۔ اس کو تعمیر کرنے پر مزدوروں کو ايک آنہ یومیہ مزدوری دی گئی۔ 

قلعے کی تعمیر کا مقصد اس علاقے میں ہمیشہ کے لیے اپناتسلط برقرار رکھنا اور یہاں کے لوگوںکی جانب سے اٹھنے والی کسی بھی تحریک آزادی کو دبانا تھا۔ بارل قلعہ تقریباً 100برس تک ڈوگرا حکمرانوں کے ظلم و بربریت کا مرکز بنا رہا۔ تاہم، اس علاقے کی غیور عوام نے غلامی کی زنجیریں پہننے سے انکار کرتے ہوئے آزادی کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔

قلعہ بارل کی تعمیر میں جو پتھر استعمال کیا گیا اسے قریبی علاقے ’سہر نالہ‘ سے لایا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیڑھ میل کی مسافت سے پتھر لانے کا کام انسانی زنجیر کے ذریعے کیا گیا یعنی مزدور قطار بناتے اور پتھر کو حرکت دیتے تھے، یہ سلسلہ صبح سے شام جاری رہتا تھا۔ قلعہ کی تعمیر میں مختلف حجم کے پتھر استعمال کیے گئے ہیں۔ 

ایک پتھر کی لمبائی 96انچ ہے جو کہ بڑے دروازے سے داخل ہوتے ہی بائیں جانب موجود ہے۔ عمارت میں استعمال کیے گئے تمام پتھروں میں سب سے بڑا پتھر12انچ لمبا اور 7انچ چوڑا ہے جبکہ سب سے چھوٹا پتھر7انچ لمبا اور 4انچ چوڑا ہے۔ علاوہ ازیں، پانچ میل کی دوری پر واقع پنیالی سے سُرخی اور چونا لایا گیا۔

قلعے کی فصیل (بیرونی دیوار) کی چوڑائی 38انچ جبکہ اندرونی دیوار کی چوڑائی 22انچ ہے۔ اس میں ہلکی توپیں اور بندوقیں چلانے کی جگہ بنائی گئی ہے۔ اس کا اندرونی حصہ دو دالان (ہال) اور اٹھارہ کمروں پر مشتمل ہے۔ اس کے وسط میں ایک کنواں ہے جو کہ دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث اب مٹی اور پتھروں سے بھر چکا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس کی گہرائی بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔ 

دورِ حاضر میں قلعے کے اندر ہاڑی، شہتوت اور جنگلی انار کے علاوہ بے شمار قسم کی خود رو جڑی بوٹیاں اُگی ہوئی ہیں۔ قلعے کے برج میں اوپر سے نیچے تک واضح شگاف صاف نظر آتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دیواریں، دروازوں، محرابوں اور کھڑکیوں کے کنارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ دیواروں میں دراڑیں پڑچکی ہیں۔

خستہ حال قلعے کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ پہلے یہ دو منزلہ ہوا کرتا تھا، بعد میں چھت میں سے بیمیں نکال لی گئیں۔ دونوں منزلوں پر آتش دان بھی بنائے گئے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ محض دفاعی نقطہ نظر سے تعمیر نہیں کیا گیا تھا بلکہ یہ رہائشی مقاصدکے لیے بھی استعمال میں آیا۔ قلعے کی نچلی منزل سپاہیوں کی رہائش جبکہ بالائی منزل ڈوگرا حکمرانوں کے لیے مخصوص تھی۔ قلعے کے تین برج ہیں، آزاد کشمیر میں تعمیر کردہ دیگر قلعوں کی طرح بارل قلعے کے برج بھی آٹھ زاویوں والی شکل کے بنائے گئے ہیں۔ 

شمال مغرب میں موجود برج پر اوپر سے نیچے تک بجلی کی مانند واضح شگاف صاف نظر آتا ہے۔ یقیناً، بارش کی وجہ سے یہ شگاف بڑھتا جارہا ہے۔ داخلی دروازے کے اوپری جانب مستطیل طرز کی خالی جگہ چھوڑی گئی تھی تاکہ قلعے پر حملہ اور داخلے کی کوشش کرنے والے حملہ آوروں پر کھولتا ہوا تیل یا پانی ڈال دیا جائے۔

19ویں صدی میں ڈوگروں نے کشمیر حاصل کرنے کے بعد اس کی تزئینِ نو کروائی تھی۔ انہوں نے مرکزی دروازے پر ایک آراستہ نوک دار محراب بنائی تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ بعد میں زبردست توڑ پھوڑ کرکے چوکھٹ سمیت لکڑی کے بنے دروازے نکال لیے گئے۔ دروازے کے دونوں طرف دیوار میں دو چوکور سوراخ ہیں، جن میں لکڑی کے دروازے کو تقویت دینے کے لیے بھاری بیم ڈالی گئی تھی۔

بارل قلعہ 100برس تک ڈوگرا حکمرانوں کی بربریت کا مرکز بنا رہا۔ قیامِ پاکستان کے بعد ڈوگرا حکمران نے یہاں کے لوگوں کی آزادی سلب کرنے کی غرض سے حملہ کیا تو انھوں نے متحد ہو کر ڈوگرا افواج کو یہاں سے بھاگنے پر مجبور کر ديا ۔ 

اس علاقے سے ‎ ڈوگرا سا مراج کے قدم اکھڑتے ہی بارل قلعے کو ہر خاص و عام بچے کے لیے تربيت گاہ میں تبدیل کردیا گیا تھا کیونکہ علاقے میں اسکول کے لیے کوئی دوسری عمارت موجود نہ تھی۔ 10سال کے عرصے تک اس سے مڈل اسکول کے طور پر کام لیا گیا۔ قلعے کی مناسب دیکھ بھال کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ اس ثقافتی ورثے کو محفوظ بنایا جاسکے۔

تازہ ترین