انسانی حرص وہوس کس طرح خونی رشتوں کو پامال کرتی ہے اس کی مثالوں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ہوس کے بچاریوں کی حرص معاشرے کے اخلاقی نظام کو تلپٹ کرنے کے علاوہ خونی رشتوں کو بھی کس طرح پامال کرتی ہے اس کے تصور سے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ہوس کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لئے جب بات باپ بیٹی، بہن بھائی یا سسر بہو کے رشتو ں تک پہنچتی ہے تو اس کے نتیجے میں خون کے رشتے کی پامالی تو اپنی جگہ دھرتی خون سے رنگین ہوجاتی ہے۔
چند روز قبل سٹھ میل کے قریب بھائی کے ہاتھوں بہن کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد راز افشاں ہونے کے ڈر سے بھائی نے بہن کو چوتھی مرتبہ اپنی ہوس کا نشانہ بنا کر دوبارہ استعمال کرنا چاہا اور انکار پر اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کرکے نعش کو کھیتوں میں لے جاکر باپ کے رکشے سے پیٹرول نکال کر پیٹرول چھڑک کر نذر آتش کردیا تاکہ واقعہ کو خودکشی کا رنگ دیا جاسکے۔ پولیس نے اپنا کام شروع کیا اور متوفیہ کے موبائل سے اس کے رابطوں کے ذریعے قتل کا سراغ لگا کر اس کے سگے بھائی افتخار رند کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا۔اس سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ پولیس نے فرانزک طریقے سے مقتولہ نمرہ رند کے موبائل کے ذریعے ملزم کا سراغ لگایا جو کہ کوئی اور نہیں اس کا اپنا ہی سگا بھائی افتخار رند تھا ۔
اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر حسین تنیو نے جنگ کو بتایا کہ ملزم افتخار رند نے اپنی عیارانہ ذہانت کے ذریعے پولیس کو چکرا دیا تھا تاہم مقتولہ کے موبائل فون سے کئے گئے مسیج کے ذریعے یہ راز کھلا کہ مقتولہ کے بھائی نے اس شک پر کہ اس کی بہن کے اپنے کزن کے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں، اس کے سر پر شیطان سوار ہوا اور نمرہ جو کہ اس کی چھوٹی بہن تھی اور دونوں ساتھ ہی ایک کمرے میں سوتے تھے، اس نے بہن بھائی کے مقدس رشتے کو ہوس کی بھٹی میں جھونک دیا۔ اسی سے ملتا جلتا ایک واقعہ گزشتہ دنوں، ریلوے گودام کے ساتھ جھاڑیوں میں پیش آیا تھا جہاں سسر ویرو بھیل نے اپنی بہو سے رنگ رلیاں منانے کے دوران اپنے پوتا پوتی کو اس منظر کو دیکھ لینے اور راز کھل جانے کے خدشے پر دونوں بچوں کو اپنی بہو لاڈو بھیل کے ساتھ مل کر تیز دھار آلے سے گردنیں کاٹ کر ہلاک کردیا ۔
واردات کے بعد دونوں قاتلوں نے بچوں کے قتل کا سوانگ بھرا اور پولیس کو باور کرایا کہ کوئی وحشی ان کے بچوں کو قتل کرکے اندھیرے میں فرار ہوگیا ہے اور بچوں کو چیخیں سن کر وہ جب جائے وقوعہ پر پہنچے تو قاتل کر فرار ہوتے دیکھا تھا۔ اس سلسلے میں ایس ایس پی تنویر تنیو کا کہنا تھا کہ ویرو بھیل نے پولیس کو جو ابتدائی بیان دیا اس میں ویروبھیل کا یہ کہنا تھا کہ اس کا بیٹا مخبوط الحواس ہے اور وہ دیوانگی کے عالم میں ویرانوں میں پھرتا رہتا ہے اور اس کی بہو لاڈو بھیل دو بچوں کے ساتھ میرے ساتھ رہتی ہے اور اس کی کفالت بھی میرے ہی ذمہ ہے ۔
تنویر حسین تنیو نے جنگ کو بتایا کہ بچوں کے دہرے قتل کا واقعہ بھی اسی طرح کا کیس تھا جس طرح کا گاؤں میر حسن میں بھائی کے ہاتھوں بہن کو زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد جلانے کا واقعہ تھا۔ تاہم دونوں واقعات میں فرق یہ تھا کہ بہن کو قتل کرنے والے بھائی کو جرم چھپانے کے باوجود اس کی بہن نمرہ کے موبائل فون نے سارا راز فاش کردیا اور نمرہ کی جانب سے اپنے کزن کو جس کے ساتھ اس کے بھائی افتخار رند کے مطابق ناجائز تعلقات تھے، بھیجے گئے میسج میں نمرہ نے کہا کہ تھا کہ میرے بھائی نے میرے ساتھ تین مرتبہ جنسی زیادتی کی ہے اور اب وہ میری جانب سے اس دھمکی کے بعد کہ میں یہ راز ماں باپ کے سامنے کھول دوںگی ، اس خوف میں مجھے قتل کرنا چاہتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح کا یہ ٹیسٹ کیس تھا جبکہ ویرو بھیل کی عمر کو دیکھتے ہوئے یہ گمان بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ اس کےاپنی بہو کے ساتھ ناجائز تعلقات ہوسکتے ہیں۔ تاہم پولیس نے دو گھنٹوں میں اس گتھی کو سلجھا لیا۔
دوران تفتیش ویرو بھیل نے بتایا کہ وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر اپنی بہو سے ناجائز تعلقات استوار کر بیٹھا تھا اور اس رات بھی اس نے ریلوے گودام کے ساتھ جہاں پر وہ مصروف کار تھے ،اپنے پوتا اور پوتی کو تیز دھار آلے سے گلا کاٹ کر اس لیے قتل کیا کہ بچوں نے ان دونوں کو قابل اعتراض حالت میں دیکھ لیا تھا۔ انہیں یہ ڈر پیدا ہوا کہ بچوں نے اگر یہ راز برادری کے سامنے کھول دیا تو وہ کہیں بھی منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔
تاہم بعد ازاں اس مقدمے کو پولیس نے چالان کیا اور کرمنل ماڈل کورٹ کے جج عبدالحفیظ میتلو کی عدالت میں پیش کیا۔ دو کمسن بچوں کے قتل کے مقدمے کے سماعت اور جرم ثابت ہونے پر ملزم ویرو بھیل کو دو بار پھانسی کی سزا سنا دی گئی جبکہ شریک جرم، بچوں کی ماں لاڈو بھیل کو بھی عمر قید کی سزا دی گئی۔
اس طرح یہ دونوں روح فرساں واقعات جن میں ہوس نے اپنا کام دکھایا اور شیطان کے بہکاوے میں آکر انسانی رشتوں کی پامالی کے ملزمان اپنے انجام کی طرف گامزن ہوئے تاہم اس سلسلے میں اہم بات یہ ہے کہ مقدس رشتوں کا تقدس قائم نہ رکھنے کی سزا آخرت میں تو ملنی ہی ہے لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ دنیا میں بھی اس طرح کے لوگ اپنے منطقی انجام تک پہنچ جاتے ہیں تاہم اس سلسلے میں سب سے اہم کردار پولیس کا نظر آتا ہے اور اگر پولیس اپنے فرائض بہتر طریقے سے انجام دے تو کوئی وجہ نہیں ہے معاشرہ جرم کے راستے سے ہٹ کر امن و آشتی کے راستے پر گامزن نہ ہو۔