• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسّی کی دہائی میں جوان ہونے والی پاکستانی نسل کو اچھی طرح یاد ہو گا کہ جس طرح پاکستانی شہری دبئی اور سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک میں ملازمت کیلئے جانے کے لئے کوشاں رہتے تھے اسی طرح بنگلہ دیش کے شہری بڑی تعداد میں پاکستان کے مختلف شہروں خصوصاً کراچی میں نظر آیا کرتے تھے، خاص طور پر نچلے درجے کی ملازمتوں میں: گنے کے رس کی مشینوں پر، مچھلی کی دکانوں پر، صفائی ستھرائی کے کاموں پر یا دفاتر اور گھروں کی چوکیداری کیلئے بنگالی ملازمین کم پیسوں میں باآسانی مل جایا کرتے تھے، اس وقت پاکستانی روپیہ بنگلہ دیشی ٹکے سے خاصا طاقتور ہوا کرتا تھا جس سے نہ صرف بنگالی شہری اپنی مقامی ضروریات پوری کرتے بلکہ بنگلہ دیش میں اپنے اہل خانہ کو بھی ایک معقول رقم بھجوایا کرتے تھے۔ مطلب یہ کہ اسّی کی دہائی میں بھی پاکستانی معیشت اس قابل تھی کہ پڑوسی ممالک کے شہری، جن میں افغانستان بھی شامل تھا، پاکستان ملازمت کیلئے آیا کرتے تھے، پھر اسّی کی دہائی کے آخر میں پاکستان میں نام نہاد جمہوریت آئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ جمہوریت پاکستانی معیشت کو نقصان پہنچانے لگی، جس کے بعد پاکستانی معیشت تباہی کے دہانے تک پہنچ گئی اور وہ پڑوسی ممالک کے شہری جو پاکستان ملازمت کےلئے آیا کرتے وہ بھی اپنے اپنے ممالک واپس جانے لگے کیونکہ ان کے اپنے ملک کی معیشت پاکستان سے بہتر ہونے لگی تھی، یہاں ہم پاکستانی معیشت کا دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت سے مقابلہ نہیں کر رہے بلکہ صرف بنگلہ دیش کی معیشت سے ہی تقابل کریں تو حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑیں۔ حقیقت میں تو بھارت کی معیشت بھی اسّی کی دہائی میں پاکستان سے کافی پیچھے تھی اور پاکستان کا روپیہ علاقے کے ممالک کی کرنسیوں میں کافی طاقت ور سمجھا جاتا تھا۔ بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، تھائی لینڈ، افغانستان کے مقابلے میں پاکستانی معیشت کافی بہتر سمجھی جاتی تھی لیکن آج کا بنگلہ دیش پاکستان کو معاشی میدان میں پیچھے چھوڑ کر بہت آگے بڑھ چکا ہے جو ہمارے لئے انتہائی افسوس کی بات ہے۔ اس وقت بنگلہ دیش کی مجموعی برآمدات چالیس ارب ڈالر سے بڑھ چکی ہیں ،جبکہ پاکستان تاحال برآمدات میں پچیس سے چھبیس ارب ڈالر کی حد کو ہی چھو پایا ہے۔ اس وقت جاپان سمیت دنیا کے کئی ممالک بنگلہ دیش میں سرمایہ کاری کررہے ہیں کیونکہ وہاں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو حقیقی سہولتیں فراہم کی جارہی ہے ،وہاں جو پالیسیاں سرمایہ کاروں کیلئے بنائی جاتی ہیں وہ مستقل بنیادوں پر ہوتی ہیں حکومتوں کے ساتھ پالیسیاں تبدیل نہیں ہوتیں، بنگلہ دیش میں تعلیم کا تناسب بھی 73فیصد تک پہنچ چکا ہے جو پاکستان سے کہیں زیادہ ہے ،جبکہ بنگلہ دیش کی حکومت نے تعلیم کا بجٹ بڑھا کر 7.8ارب ڈالر تک پہنچا دیا ہے، سولہ کروڑ کی آبادی میں خواتین میں تعلیم کا تناسب بھی تہتر فیصد ہے جس سے بنگلہ دیش میں ایک تعلیم یافتہ معاشرہ تشکیل پارہا ہے، جبکہ حکومت کی بہتر معاشی پالیسیوں کے سبب اس وقت بنگلہ دیش کی فی کس آمدنی بھی دو ہزار ڈالر سے زائد ہوچکی ہے، اس وقت جاپان کی حکومت نے غیر ملکی ورکروں کو جاپان بلانے کیلئے جس اسکیم کا اعلان کیا ہے اس میں بھی بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں جاپان آ رہے ہیں جبکہ پاکستان کو بھی جاپانی حکومت نے یہی سہولت فراہم کی ہے لیکن دو ہزار انیس میں ہونے والے معاہدے کے بعد بھی پاکستان سے آنے والے ہنرمندوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، وجہ یہ ہے کہ جاپان میں بنگلہ دیشی سفارتخانہ انتہائی دلجمعی سے بنگلہ دیش اور جاپان کے درمیان تجارتی و معاشی تعلقات کے فروغ کے لئے کام کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ بنگلہ دیش کی جاپان کے لئے برآمدات کا حجم ڈیڑھ ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے، بھارت کی جاپان کو برمدآت پانچ ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہیں جبکہ پاکستان کی برآمدات کا حجم شرمناک حد تک گر کر صرف ڈھائی سو ملین ڈالر کے لگ بھگ رہ گیا ہے۔ اس وقت پچیس ہزار سے زائد بنگالی شہری جاپان میں رہائش پذیر ہیں اور بڑی تعداد میں زرمبادلہ بنگلہ دیش بھجوا رہے ہیں۔ بھارت کے چالیس ہزار سے زائد شہری جاپان میں ملازمت اور کاروبار کر رہے ہیں، جبکہ پاکستان کے صرف پندرہ ہزار کے لگ بھگ شہری جاپان میں مقیم ہیں، اس وقت بنگلہ دیش کے کمرشل قونصلر اور دیگر سفارتکاروں کی کوششوں سے جاپان کے معروف برانڈز بنگلہ دیش میں تیار کرکے وہاں سے جاپان بھجوائے جا رہے ہیں جبکہ پاکستان کی جانب جاپان کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ ہماری سفارتی نااہلی کے سوا کچھ نہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے وژن پر عملدرامد کیلئے بیوروکریسی نااہل ہے جس کی طرف فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ورنہ ہم صرف اسی بات کا ماتم کرتے رہ جائیں گے کہ جنوبی کوریا ہم سے سیکھ کر آگے بڑھ گیا، بنگلہ دیش، بھارت، تھائی لینڈ اور سری لنکا اور اب شاید افغانستان بھی، آخر کب تک پاکستان پیچھے رہے گا؟

تازہ ترین