ظفر اور مقبول اُپر اتلی کے دو بھائی تھے۔ ظفر کی پیدائش کے دو سال بعد ہی اس کا باپ مر گیا اور مقبول اپنے باپ کی موت کے کچھ ماہ بعد پیدا ہوا تو دورانِ زچگی ماں مر گئی۔ یتیمی اور غریبی میں بیماریاں تو بس بہانہ ہوتی ہیں، اصل میں تو امیر روٹی کھاتے ہیں اور غریبوں کو روٹی کھا جاتی ہے۔ سو مقبول کی ماں بھی راہئ ملکِ عدم ہوئی۔ہمارے معاشرے میں غریبی بذات خود ایک گالی ہے اوپر سے یتیم اور مسکین، دونوں بھائیوں کی خوب مٹی پلید ہوئی۔ ایک دُور کے ماموں اپنے گاؤں لے گئے اور روتے دھوتے ظفر اور مقبول 7 اور 5 سال کے ہو گئے۔
ان کے دور پرے کے ماموں نے شہر میں انہیں ایک کوٹھی میں ملازم رکھوا دیاہے، وہ مہینے کے مہینے آ کر تنخواہ لے جایا کریں گے اور یہاں بچے مفت میں کھا پی لیں گے اور کام کا سلیقہ بھی سیکھیں گے۔ظفر کی ڈیوٹی صاحب کی بِلّی کی حفاظت پر لگی تو مقبول کی ڈیوٹی صاحب کے چھوٹے بیٹے کی دیکھ بھال پر جو بمشکل ساڑھے تین سال کا تھا۔ مقبول ’’چھوٹے صاحب‘‘ کو رات بھرجُھولے میں گھماتا رہتا اور کچھ نہ کچھ کھلاتا رہتا کہ رونے کی آواز سے صاحب اور مالکن کی خلوت میں اثر نہ پڑے۔ صاحب جی کوئی بڑے گورنمنٹ افسر تھے، شخصیت میں رچی فرعونیت اور طبیعت میں بھری کرختگی اتنی تھی کہ کوئی لفظ نہ بول سکے، دولت اتنی کہ پھاوڑوں کاٹے کم نہ ہو۔دونوں بھائیوں کی تو جان جاتی تھی اگر صاحب کی نظر بھی پڑ جائے۔ ایک دن ظفر سے غلطی ہوئی کہ بِلّی کو دودھ ذرا گرم دے دیا، وہ اُچھل کر بھاگی تو صاحب جی نے دیکھ لیا اور کھولتے ہوئے دودھ کا برتن ظفر کے چہرے پر اُنڈیل دیا۔
جہالت کے کرشمے اور امارت کے زعم بیکار نہیں جاتے مگر نقّار خانہ میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے۔بِلّی بھی آخر بِلّی تھی کہاں تک صبر کرتی۔ کسی غریب کا بچہ تو تھی نہیں کہ زندگی کی ہر شرارت کا انتقام چپ سے لیتی، اس نے آخر چھوٹے صاحب کے چہرے پر پنجہ مار ہی دیا۔ کچھ خراشیں اور ایک خون کی قلقاری چھوٹے صاحب کی چیخوں کے لئے کافی تھی۔ مالکن جیسے تیسے بھاگ کر پہنچیں اور خون دیکھ کر تو ان کی جان ہی نکل گئی۔ ایک ہاتھ سے چھوٹے صاحب کو سنبھالا تو دوسرے ہاتھ سے مقبول کا گریبان پکڑا۔ وہ بے چارہ اس ناگہانی پر جیسے ساکت ہی ہو گیا تھا، مالکن نے گلا پھاڑ پھاڑ کے چیخنا شروع کیا، ایک کھِلائی بھاگ کر آئی تو چھوٹے صاحب کو اس کے حوالے کیا اور بل پڑیں بے ماں کے بچے پر۔ بِلّی کا پنجرہ اُٹھا کر منہ پر مارا تو ایک سلاخ کان کے آر پار ہو گئی، گھر کے درودیوار تک حیران تھے کہ ایک ماں ہو کر بِنا ماں کے بچے سے یہ سلوک کیونکر روا رکھا۔ اِس اثناء میں بڑے صاحب بھی آ گئے۔ ظفر بھی چیخ و پکار سن کے آ پہنچا مگر اس کی اتنی ہمت کہاں کہ وہ کسی کا ہاتھ روک سکے۔ جو عمر کارٹون دیکھنے کی ہوتی ہے اس میں جلّاد دیکھ رہا تھا۔ صاحب جی تھے تو پچاس کے آس پاس مگر بیگم کی شکایتوں پر جنون طاری ہو گیا، کچھ لوگ ویسے بھی بڑھاپے میں پہنچ کر جوان ہو جاتے ہیں۔ انہوں نے گھوڑوں کو مارنے والی بید سےمقبول کو مارنے لگے۔ جب صاحب جی کے ہاتھ رُکے تو مقبول تقریباً مر چکا تھا، انہوں نے اُسے اُٹھا کر دوسری منزل سے نیچے پھینک دیا۔ظفر بھاگتا ہوا گیا اور بہ مشکل تمام مقبول کو اُٹھا کر گھر کے باہر مسجد کے پچھواڑے بنے قبرستان میں چلا گیا۔صاحب جی اور مالکن چھوٹے صاحب کی مرہم پٹی اور دلجوئی میں لگے، اِدھر مولوی صاحب نے مائیک کا گریبان چاک کیا، مریدوں پر سکّہ جمانے کیلئے شبِ قدر کی وہ وہ کرامات بیان کیں کہ لگے کہ بیان سن کر ہی بخشے جائینگے۔ مقبول اپنے بھائی کے ہمراہ ایک بوسیدہ قبر پر لیٹا اپنی آخری سانسیں لے رہا تھا، اور قریب میں نیم کے درخت کے وہ نمک خوار پتّے جنہیں ظفر کبھی کبھار پانی دے دیتا، اپنی بے بسی پر ماتم کرتے ہوئے شاخوں کو پھیلا رہے تھے کہ حشر میں ان بچوں پر سایہ کرنے والوں میں لکھے جا سکیں۔ظفر نے آسمان کی طرف دیکھا اور دعا کو ہاتھ اُٹھائے: یا رب العالمین، اے رات کی تاریکی میں پہاڑوں پر چلنے والی چیونٹی کے پاؤں کی آواز سننے والے سمیع و بصیر، ایک گناہگار بندہ، ایک نابکار غلام، تیری سرکار میں تیرے دربار میں تیرے کرم کا طالب، تیرے رحم کا مُلتجی، ذلیل و خوار ہو گیا ہے۔ زمین و آسمان کے مالک، جنگل و بیابان کے بادشاہ، انسانوں و حیوان کے رزاق، شبِ قدر کے رب، کوہ و دریا کے اَنداتا، تیرا نام بڑا، تیرے کام بھلے، تیرم رحم وسیع ، تیرا کرم عمیق، میری فریاد کو پہنچ، میری دہائی کو سُن، میری تڑپ کو آ، میرے صبر کو تول، میری التجا کو سُن، میری پکار کو قبول کر، ،خشکی و تری کے شہنشاہ میری عزت بچا، میری آبرو رکھ، تو غفور و رحیم ہے تو علیم و خبیر ہے۔ پناہ دے کُل جہانوں کے سرتاج پناہ دے۔ بے شک تیری پناہ بڑی چیز ہے۔میرے مالک تجھے تیری خُدائی کا واسطہ، وسیلہ تیرے محبوب صلی ﷲ علیہ وسلم کا، تجھے تیری صفات کا واسطہ، آج مان لے۔مقبول کی زبان سے ایک نحیف آمین نکلی اور اُس کی روح اس بے قرار بدن سے پرواز کرکے اس کے پاس چلی گئی جو سب کو قرار دیتا ہے۔ظفر نے اس کے ماتھے پر آخری بوسہ دیا اور مسجد کی طرف چل پڑا۔ تہجد کا وقت تھا، مولوی صاحب بیان لپیٹ رہے تھے، کہنے لگے، حضرات یقین جانیے، ﷲ نے سُن لی، آپ سب کو آپ کی مرادیں بس مل گئیں، گناہوں سے ایسے پاک ہوئے کہ ابھی جنے گئے ہو۔ خوش و خرم گھر جائیں اور سحری کھائیں۔مسجد کی آخری صف میں بیٹھے ہوئے ظفر کے چہرے پر نجانے کہاں سے مسکراہٹ آ گئی اور اس نے زور سے کہا۔آمین!