• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کس کو پتہ تھا کہ صادق سنجرانی کو پہلی بار چیئرمین سینیٹ بنانے اور پھر تحریک عدم اعتماد کے دوران بچانے میں جن جن کا ہاتھ تھا اُنہی کے ہاتھ ایک دن کفِ افسوس ملتے ہوئے دیکھےجائیں گے۔ شاید یہ تاریخ کا خود کو دہرانا ہے یا پھر مکافات عمل! آپ کو یاد ہوگا کہ 31جولائی 2019کو جب صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کی قرارداد پیش ہوئی تو 64اراکین نے کھڑے ہو کر قرارداد کی حمایت کی لیکن خفیہ پولنگ کے وقت یہی 64ووٹ 50میں تبدیل ہو گئے، اب بھی یہی ہوا کہ اپوزیشن کی اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو گئی۔ اگر پی پی کے ساتھ یہ ہاتھ ہوا ہے تو اسی طرح کا ہاتھ حاصل بزنجو مرحوم کے ساتھ بھی کیا گیا تھا، اس وجہ سے ہم اسے مکافاتِ عمل کہیں گے اور اگر جیسا کہ کہا جا رہا ہے کہ پی پی ہی نے سات مشکوک اراکین کی شناخت کیلئے انہیں گیلانی صاحب کے نام پر مہر لگانے کی تاکید کی تھی لیکن یہ ووٹ مسترد ہونے کے زمرے میں آگئے۔

ہر دو حوالوں سے یہ حاصل بزنجو کی روح کا انتقام ہے۔ سوشل میڈیا پر تو یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کہ گیلانی صاحب کے نام پر مہر لگانے کی تاکید دراصل تھی ہی اس خاطر کہ ووٹ مسترد ہو سکے اور اس طرح پرانے قولِ ناحق کی پاسداری کا ثبوت فراہم کیا جا سکے۔ ایسی رائے دینے والے یہ دلیل لاتے ہیں کہ اگر گیلانی صاحب کے ساتھ سب کچھ نادانستہ ہوا تو پھر مولاناعبدالغفور حیدری اکثریت کے باوجود کیوں جیت نہ پائے؟ راقم کی ناقص رائے مگر یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی جن جماعتوں نے گیلانی صاحب کو ووٹ دیا تھا، اُن میں سے دو تین جماعتوں نے ممکن ہے مولانا غفور حیدری کو ووٹ نہ دیا ہو۔ اس امر کے امکانات ہیں کہ عدالت میں مسترد شدہ ووٹوں کو درست قرار دیا جائے لیکن ڈپٹی چیئرمین کیلئے مولانا عبدالغفور حیدری کو ملنے والے ووٹوں سے البتہ یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ پی ڈی ایم کی جس جس جماعت کو موقع ملتا ہے وہ اسے سول بالادستی کی بجائے اپنی ذاتی وجماعتی بالادستی کیلئے بروئے کار لے آتے ہیں پھرسول بالادستی کیلئے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی تاریخ کوئی درخشاں روایت کی حامل نہیں۔ موجودہ حکومت آنے کے بعد سول بالادستی کے کئی مواقع آئے لیکن یہ مفاد پرستی کی نذر ہو گئے۔ چیئرمین سینیٹ کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی ناکامی تو اتنی واضح تھی کہ ہم جیسے عام لوگوں نے اس معرکے سے قبل 21جولائی 2019کو روزنامہ جنگ میں اپنے کالم میں لکھا تھا ’’سب سے بڑی آزمائش پیپلزپارٹی کو لاحق ہے، اس جماعت نے جب رضا ربانی پر صادق سنجرانی کو فوقیت دی تھی تو ظاہر ہے کسی سے کمٹمنٹ کے تحت ہی ایسا کیا تھا، اسی سبب سوال کیا جاتا ہے کہ جن سے کمٹمنٹ کی گئی تھی کیا پیپلز پارٹی اس کمٹمنٹ کو بالائے طاق رکھ پائے گی؟‘‘ اب جب 11مارچ 2021کو انتخابات ہورہے تھے تو ایک دن قبل ہم نے لکھا ’’سینیٹ میں تحریک عدم اعتماد کے دوران حاصل بزنجو کیساتھ جو کیا گیا تھا وہی اب گیلانی کیساتھ ہونے والا ہے‘‘۔ کہنا یہ مقصود ہے کہ ایسا کیوں ہے کہ ہم جیسے عام لوگ بھی انتخابات سے قبل جان جاتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اکثریت کوئی معنی نہیں رکھتی اور یہ کہ اصل دارومدار اُن کھلاڑیوں پر ہوتا ہے جو یا تو بک جاتے ہیں یا اپنے عیوب کے سبب بلیک میل یا پھر ایسے مواقع کو بلیک میلر سے وفاداری کے ساتھ پیسے و مزید اختیار کیلئے استعمال میں لے آتے ہیں۔ ایسے ابن الوقت سیاستدان جانتے ہیں کہ اس موقع سے ملک و عوام کے بہتر مستقبل کی جانب پیش رفت کی جا سکتی ہے لیکن وہ اسے اپنے مستقبل کیلئے کام میں لے آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیاست جو مملکتی ایسے امور جو عوامی خدمت سے عبارت ہو، کا نام ہے، اب اسے منافقت کہا جانے لگا ہے۔ شکست کے بعد مولانا عبدالغفور حیدری کا یہ کہنا کہ پی ڈی ایم کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے، سو فیصددرست ہے۔ آج اگر پاکستان کے ہاتھ میں کاسہ گدائی ہے اور ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا بھارت معاشی طورپر خودکفیل اور قرض دینے والے ممالک میں شامل ہے تو اس کی واحد وجہ بلاشرکت غیرے جمہوریت ہے۔ لہٰذا خود احتسابی کی بات کرتے وقت یہ سچ بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ جہاں آمروں نے اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیا تو وہاں وہ کون تھے جنہوں نے ان کیلئے امریکی جہادوں کو جائز بنایا؟ کس نے پرویز مشرف کی آمریت کو 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے تحفظ فراہم کیا؟ آج وہ کون ہیں جو کبھی بلوچستان میں سرکاری اُمیدوار کے 9ووٹوں کو گیارہ بنا دیتےہیں اور کبھی حاصل بزنجو کی ہار میں سرکار کے دست و بازو بن جاتے ہیں؟

تازہ ترین