• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

استعفے، پیپلز پارٹی نہ مانی تو 9جماعتیں لائحہ عمل کا اعلان کرینگی، شاہد خاقان


کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ پیپلز پارٹی استعفوں پر نہ مانی تو 9جماعتیں مشاورت سے اگلے لائحہ عمل کا اعلان کریں گی، پیپلز پارٹی اس سفر میں ہمارے ساتھ شامل رہتی ہے تو ہمیں بہت خوشی ہو گی، پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے کہا کہ پیپلز پارٹی اے پی سی کے وقت بھی اسمبلیوں سے استعفوں کے حق میں نہیں تھی، دیگر جماعتوں کی طرح پیپلز پارٹی کو بھی اپنی رائے رکھنے کا حق ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں کیا۔ پروگرام میں سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ ، سینئر صحافی و تجزیہ کار فہد حسین نے بھی گفتگو کی۔ پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ پارلیمانی نظا م میں اپوزیشن نہ رہے تو نظام نہیں چلتا،ملکی نظام کو تبدیل کر کے آئین کے مطابق کیا جائے،پیپلز پارٹی اگر سمجھتی ہے کہ مسائل کا حل اسی ناکام اسمبلی کے اندر ہے تو پھر ہمیں اپنے طریقہ کار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ہمارا مقصد صرف سیاست ہوتا تو اسمبلیوں میں بیٹھے رہتے، تحریک عدم اعتماد ، حکومت گرانے یا الیکشن کرانے سے معاملہ حل نہیں ہوگا، جب تک نظام کو آئین کے مطابق نہیں کیا جاتا پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، اس فرسودہ نظام کا حصہ بن کر ہم بھی ملکی مسائل حل نہیں کرسکتے۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پوری دنیا میں آئین کا نظام کامیاب ہوا ہے، پاکستان میں بھی ایک دفعہ اسے آزمالیں شاید چل جائے۔شاہد خاقان عباسی کا کہنا تھا کہ ملکی مسائل کا حل اگر ہمیں گرفتار کرنے میں ہے تو ایک دفعہ پھر گرفتار کرلیں، ہمارے جیل جانے سے ملک کے مسائل حل ہوتے ہیں تو ہم خود جیل چلے جائیں گے،آئین توڑنے سے ملک چلتا ہے تو ہمیں بتادیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنما سعید غنی نے مزید کہا کہ آل پارٹیز کانفرنس کے ایکشن پلان میں کہیں بھی تذکرہ نہیں کہ چیئرمین سینیٹ کا امیدوار کون ہوگا، پیپلز پارٹی اے پی سی کے وقت بھی اسمبلیوں سے استعفوں کے حق میں نہیں تھی، دیگر جماعتوں کی طرح پیپلز پارٹی کو بھی اپنی رائے رکھنے کا حق ہے، ہماری خواہش ہے پی ڈی ایم مل کر اس حکومت سے چھٹکارا حاصل کرے، اپوزیشن میں رہ کر پارلیمنٹ میں جدوجہد کرنا پاور پالیٹکس نہیں ہے۔ سعید غنی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم اجلاس کے دوران آصف زرداری ہی نہیں دیگر رہنماؤں کی باتیں بھی باہر آرہی تھیں، ن لیگ اس کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کو سمجھتی ہے تو یقینا ہمیں اسے دیکھنا چاہئے کہاں سے باتیں لیک ہوئیں، ووٹ مسترد ہونے کے معاملہ پر ہمیں اپنے کسی سینیٹر پر شبہ نہیں ہے، سیکرٹری سینیٹ نے ہمیں کہا کہ باکس میں کہیں بھی مہر لگائی جاسکتی ہے تو ہم نے یہی بات اپنے ارکان کو بتائی۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ پی ڈی ایم قیادت نے ایک دوسرے کے خلاف اپنے خدشات کا کھل کر اظہار کردیا ہے، آصف زرداری کے ڈیل کرنے جبکہ نواز شریف کے قید سے ڈرنے کی باتیں کی گئیں جو نامناسب تھیں، ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس کے باوجود ساتھ چلنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، پی ڈی ایم کا اتحاد ٹوٹے گا نہیں البتہ اس کی افادیت کم ہوجائے گی، پیپلز پارٹی عمران خان کے اقتدار کے آخری دنوں تک استعفے نہیں دے گی، پی ڈی ایم کا لانگ مارچ ایک جلسے جیسا ہوگا اس سے حکومت نہیں جائے گی۔سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کمزورہونے سے حکومت مضبوط نہیں ہوگی، حکومت کا مقابلہ گورننس، مہنگائی اور اپنے آپ سے ہے، اپوزیشن کے کمزور ہونے سے پی ٹی آئی کے اندرونی اختلافات بڑھیں گے، حمزہ اور شہباز شریف کو ریلیف مل رہا ہے جبکہ مریم نواز کے گرد گھیرا تنگ کیا جارہا ہے، ہاؤس آف شریف میں تقسیم پیدا کرنا اب مشکل ہے، مریم نواز کو جیل بھیجا گیا تو حمزہ اور شہباز شریف کی سیاست کو دھچکا لگے گا۔ سینئر صحافی و تجزیہ کار فہد حسین نے کہا کہ پی ڈی ایم کو جتنا موثر ہونا تھا ہوچکی ہے، پی ڈی ایم اتحاد شاید برقرار رہے مگر کمزور ہوجائے گا، پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جے یو آئی ف کے درمیان اب کوئی مشترکہ ایجنڈا نظر نہیں آتا، ن لیگ اور پیپلز پارٹی اس وقت سڑکوں پر احتجاج کیلئے تیار نہیں ہیں، پیپلز پارٹی سندھ حکومت نہیں چھوڑنا چاہتی ہے، پیپلز پارٹی جوڑ توڑ کر کے وفاق یا پنجاب میں اقتدار تک پہنچنا چاہتی ہے، ن لیگ جانتی ہے اس سسٹم میں رہتے ہوئے وہ پاور میں نہیں آسکتی۔ قبل ازیں پروگرام کے آغاز میں میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں اختلافات کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے ہیں، پی ڈی ایم میں اختلافات اب صرف استعفوں تک محدود نہیں رہے، پی ڈی ایم قیادت کو پیپلز پارٹی کے فیصلے کا انتظار ہے، پہلے مولانا فضل الرحمن اور آصف زرداری کے درمیان رابطہ ہوا، آج نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان رابطہ ہوا، اس رابطے میں پیپلز پارٹی کے بغیر تحریک آگے بڑھانے کے امکان پر بھی بات ہوئی، اگر پیپلز پارٹی استعفیٰ نہیں دیتی تو 9جماعتیں ایک طرف اور پیپلز پارٹی دوسری طرف کھڑی ہوگی، یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کا اتحاد حکومت کیلئے خطرہ ہوگا، کیا پی ڈی ایم کے بغیر پیپلز پارٹی کی سیاست کو نقصان نہیں ہوگا، جیو نیوز کے ذرائع کے مطابق نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے استعفوں کے معاملہ پر پیپلز پارٹی کے جواب کے بعد پی ڈی ایم کا اجلاس بلانے پر اتفاق کیا ہے، اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا کہ پیپلز پارٹی آتی ہے تو ٹھیک ورنہ 9جماعتیں لائحہ عمل دیں گی، دونوں رہنماؤں نے جیل بھرو تحریک پر بھی بات کی۔

تازہ ترین