• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شہر کی روشنیاں اور امن، ملک دشمن اور دہشت گردوں کو ہضم ہی نہیں ہورہا ہے۔دہشت گردوں کو نکیل ڈالنے والے سیکیورٹی ادارے ایک بار پھر ملک دشمن دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔۔گزشتہ دنوں ملک دشمن عناصرکی ایما پر دہشت گردی کے ذریعے ملک میں عدم استحکام پھییلانے اور مذموم مقاصد کے حصول کی غرض سےاورنگی ٹاؤننمبر 5 موبائل چورنگی کے قریب موٹر سائیکل میں دھماکہ خیزمواد نصب کر کے رینجرز کی گاڑی کے گزرتے ہی ریموٹ کنٹرول بم دھما کا کیا گیا ۔جس کے نتیجے میں ایک رینجرز اہلکار 35 سالہ روشن علی ولد خادم حسین شہید ہو گیا جبکہ 2 رینجرز اور ایک پولیس اہلکار سمیت16 شہری زخمی ہوگئے۔ 

تخریب کاروں نےدھماکہ خیز مواد چوری کی موٹر سائیکل میں نصب کیا تھا۔ دھماکے کے باعث قریب کھڑی گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا۔ اطلاع ملنے پر پولیس اور رینجرز کے اعلیٰ افسران سمیت بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی اور جائے وقوعہ کو گھیرے میں لے کر بم ڈسپول یونٹ کو طلب کر لیا ۔بی ڈی یو کے مطابق دھماکہ ،موٹر سائیکل آئی ڈی کا تھا اور موٹر سائیکل کے چیسز کے اندر آئی ڈی تیار کی گئی تھی۔

بم ڈسپوزل یونٹ کے مطابق دھماکے کاہدف رینجرز موبائل ہی تھی ۔دھماکہ ریمورٹ کنٹرول ڈیوائس کی مدد سے کیا گیا اوراس میں ساڑھے 3 سے4 کلو بارودی مواد استعمال کیا گیا،موٹرسائیکل میں نصب بم میں بال بیرینگ کی تعداد بہت زیادہ تھی جس کی وجہ سے نقصان ہوا۔ 

دھماکے میں زخمیوں کی شناخت رینجرز اہلکار 26 سالہ محمد حنیف ولد خوشی محمد،رینجرز اہلکار 26 سالہ اعجاز علی ،اے وی ایل سی میں تعینات پولیس ہیڈ کانسٹیبل 42 سالہ یوسف ولد یونس،34 سالہ یاسرولد قاسم،18 سالہ محبوب ولد رحمت اللہ،38 سالہ ناصر حسین ولد برکت خان،15 سالہ سمیر ،25 سالہ وقاص ولد ایوب ،28 سالہ محمد عرفان ولد ندیم اور 50 سالہ اکبر علی ولد محمد خالق کے ناموں سے ہوئی ہے۔زخمی ہونے والے دیگر افراد میں راہگیر تھے ۔

دوسری جانب ریموٹ کنٹرول بم دھماکے کی ذمہ داری ، کالعدم بلوچ لبریشن آرمی(بی ایل اے ) نے قبول کی ہے۔ دھماکے کا مقدمہ کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی)میں رینجرز اہلکار غلام سرور کی مدعیت میں نامعلوم ملزمان کےخلاف درج کر لیا گیا ہے۔ مقدمے میں قتل ، اقدام قتل ، املاک کو نقصان پہنچانے، ایکسپلوزیو ایکٹ اور دہشت گردی کی دفعات7ATA شامل کی گئی ہیں۔ مقدمہ کے متن کے مطابق موٹر سائیکل سوار 2 نامعلوم ملزمان اپنی موٹر سائیکل سڑک کنارے کھڑی کرکے کچھ دور فاصلے پر جا کرکھڑے ہو گئے، دہشت گردوں نے رینجرز موبائل کے قریب آتے ہی ریموٹ کنٹرول ڈیوائس سے دھماکہ کردیا جس کے باعث موٹر سائیکل میں نصب بارودی مواد زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔

بم دھماکے میں ملوث دہشت گردوں کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی منظر عام پر آگئی ہے جس کی مدد سےسیکیورٹی اداروں نے ان کی بخوبی شناخت کرلی ہے۔ دوسر ی جانب پولیس کی روایتی سست روی اور ٹال مٹول کا عملی ثبوت اس وقت سامنے آیا جب اورنگی ٹائون بم دھماکےمیں استعمال ہو نے والی موٹرسائیکل کی چوری کےحوالے سے اہم حقائق بھی منظر عام پر آگئے ۔جس میں پولیس نےدھماکے میں استعمال کی گئی موٹرسائیکل کی چوری کامقدمہ حسب روایت ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے درج نہیں کیا تھا ۔جبکہ دہشت گردی کاواقعہ پیش آنے کےبعدفوری مقدمہ درج کرلیاگیا۔پولیس کومقدمہ درج کرنےکاہوش تب آیاجب موٹرسائیکل کے مالک 70 سالہ رمضان کوسیکیورٹی اداروں نے حراست میں لیا۔ 

دھماکےمیں استعمال کی گئی موٹرسائیکل اورنگی ٹائون مجاہدکالونی سے 12 روز قبل چوری کی گئی تھی۔موٹرسائیکل کا مالک بائیک چوری کے مقدمے کے اندراج کے لیے تھانےکےچکرلگاتارہا۔ پولیس روایتی بے حسی اور ٹال مٹول کرتی رہی، لیکن مقدمہ درج نہیں کیا۔ بعد ازاں اس دہشت گردی میں اسی کی موٹرسائیکل استعمال ہوئی،جس کے بعد پولیس نے موٹرسائیکل کے مالک رمضان کی مدعیت میں مقد مہ درج کر لیا ۔

مذ کورہ موٹرسائیکل نمبرKMJ.7673 3 مارچ کی شام کوگھرکےباہر سے چوری کرلی گئی تھی ۔موٹرسائیکل مالک رمضان کا کہنا ہے کہ رات ساڑھے گیارہ بجے کےقریب دیکھاتوموٹرسائیکل موجود نہیں تھی، جس پر رات 12 بجے کےبعد میں نےمددگار15پراطلاع دی 12بجکر15منٹ پرتھانے سے فون کرکے مجھے طلب کیاگیا۔میں تھانے پہنچاپھربھی پولیس نے مقدمہ درج نہیں کیا۔گزشتہ روزمقدمہ درج کرنےکےبعد مجھے رہاکیا گیا۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ ایڈیشنل آئی جی کراچی غلام نبی میمن نے واقعہ کا فوری نوٹس لیتے ہوئے تمام ایس ایچ اوز کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ کوئی بھی شہری تھانے آکر مقدمہ درج کراناچاہے تو فوری مقدمےکا اندراج کیا جائے، اگر کسی بھی تھانے سے شکایات موصول ہوئی تومتعلقہ افسر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ایڈیشنل آئی جی کراچی کی ہدایت پر اورنگی ٹائون میں ہو نے والے بم دھماکے میں چوری شدہ موٹر سائیکل استعمال ہونے اور موٹرسائیکل چوری کی ایف آئی آر درج نہ کرنے والے افسر کو محکمے سے برطرف کرنے کا سخت فیصلہ کرتے ہوئے ڈیوٹی افسر اے ایس آئی رومان کو شوکاز نوٹس جاری کردیا گیا۔ کراچی پولیس چیف نے کہا کہ پولیس رول میں جان بوجھ کر مقدمہ درج نہ کرنے والے افسرکی سزا برطرفی ہے۔

ڈیوٹی افسر نے نہ مقدمہ درج کیا نہ اپنے ایس ایچ او کو اس بارے میں آگاہ کیا، ایسے ہی چند اہلکاروں کی وجہ سے پورے محکمے کی بدنامی ہوتی ہے۔ ،ایڈیشنل آئی جی غلام نبی میمن نے تمام تھانوں کے ایس ایچ اوز کو مقد مات درج کرنے کے واضح احکامات جاری کیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ پولیس پہلے سے بہت بہتر کام کر رہی ہے۔ 

واضح رہے کہ آئی جی سندھ ،کراچی پولیس چیف کی جانب سے شہریوں کی شکایات پر فوری مقدمہ درج کرنے کے واضح احکامات کے برعکس روایتی ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتی ہےجس کے باعث شہری مقدمات کے اندراج کے لیے تھانوں کے چکر لگا کر تھک ہار کر خاموش ہو جاتے ہیں ۔

.دوسری جانب ایف آئی اےکےسائبر کرائم سر کل کے بدعنوان افسران فیض اللہ کو ریجواور عبدالغفار کے خلاف ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل کی جانب سے تحقیقات میں ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم سرکل عبدالغفار کو ملازمت سے برخاست کرنے اور سائبر کرائم ونگ کے لئے نااہل قرار دیتے ہوئے ان کے اثاثوں کی چھان بین کی سفارش کی گئی ہے۔تفصیلات کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ میں اختیارات کا غلط استعمال ،خواتین کو ہراساں کرنے ، جرائم میں ملوث اورسافٹ وئیر کمپنیوں سے بھاری رشوت وصول کر کے ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کرنے والی سافٹ وئیر کمپنیوں کو نشانہ بنانے والے، کرپٹو کرنسی( بٹ کوائن )کے ذریعے عام شہریوں سے اربوں روپے فراڈ میں ملوث کمپنی مالک سے کروڑوں روپے رشوت وصول کر کے بیرون ملک فرار کرانے کے الزام میں ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کو ملازمت سے برخاست کرنے کی سفارش کی گئی ہے جبکہ سائبر کرائم سرکل کی خاتون افسر سمیت3افسران اور ڈپٹی ڈائریکٹر کے لئے فرنٹ مین کاکردار ادا کرنے والے3 پرائیوٹ افراد کے خلاف مقدمے کی بھی سفارش کردی گئی ہے۔

ایڈیشنل ڈائریکٹر نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر نے آئی ٹی کمپنیوں کے خلاف کارروائی میں اعلیٰ افسران سے منظوری لیتے ہوئے غلط بیانی کی جب کہ ڈپٹی ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ آئی ٹی کمپنیوں کے خلاف کارروائی حساس اداروں کی رپورٹ پر اعلیٰ افسران کی منظوری سے کی گئی ہے۔انکوائری ٹیم نے سائبر کرائم ونگ کے افسران کو رپورٹ میں ایف آئی اے کی بدنامی کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کراچی میں مالی بے ضابطگیوں، درخواست گزار متاثرہ خواتین کو ہراساں کرنے ،جرائم میں ملوث سوفٹ وئیر کمپنیوں سے بھاری رشوت کے عیوض ملکی خزانے میں سالانہ کروڑوں ڈالر منتقل کرنے والی آئی ٹی کمپنیوں کے خلاف کارروائی کرنے ،پونزی کاروبار میں کرپٹو کرنسی( بٹ کوائن )کے ذریعے عام شہریوں سے اربوں روپے فراڈ میں ملوث کمپنی سے کروڑوں روپے رشوت وصول کر کے بیرون ملک فرار کرانے کے الزام میں ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں 4فروری2021کو انکوائری نمبر 05/2021شروع ہوئی۔ 

اس انکوائری کے افسر ایڈیشنل ڈائریکٹر اینٹی کرپشن سرکل ڈاکٹر محمد اطہر وحید مقرر ہوئے۔ بعد ازاں 8فروری کو اس انکوائری پر ایک جوائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم تشکیل دی گئی جس میں اینٹی کرپشن سرکل کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر محمد علی ابڑو،انسپکٹر محمد راشد بھٹی اور سب انسپکٹر حبیب الرحمن شامل تھے ،جب کہ اس جے آئی ٹی کی معاونت کے لئے اینٹی کرپشن سرکل کے دیگر افسران بھی شامل رہے ہیں۔

دستاویزات کے مطابق اینٹی کرپشن سرکل میں شروع ہونے والی انکوائری میں ابتدائی طور پر ایف آئی اے سائبر کرائم سرکل کے ایڈیشنل ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو ،ڈپٹی ڈائریکٹر سائبر کرائم سرکل کراچی عبدالغفار ،انسپکٹر سائبر کرائم ونگ محمد نعیم اعوان ،انسپکٹر سائبر کرائم ونگ ممتاز حسین،سب انسپکٹر محمد اخلاق کو عہدوں سے ہٹا کر ان کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کی اور انہیں نوٹس جاری کر کے انکوائری ٹیم کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی۔

ایف آئی اے اینٹی کرپشن سرکل میں انکوائری مکمل ہونے کے بعد97صفحات پر مشتمل تفصیلی رپورٹ اسلام آباد ایف آئی اے ہیڈکواٹر ارسال کردی گئی ہے جس میں سائبر کرائم ونگ کراچی کو ایف آئی اے کی بدنامی کاذمہ دار قرار دیا گیا ہے ۔دستاویزات کے مطابق انکوائری ٹیم کے سامنے دئیے گئے بیان میں ایڈیشنل ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو نے اعتراف کیا ہے کہ سائبر کرائم ونگ میں پرائیوٹ افراد ،ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کی نگرانی میں رہتے تھے۔ 

جس پر انہوں نے اعتراض کیا تاہم انہیں بتایا گیا کہ وہ تکینکی معاون کے طور پر کام کرتے ہیں انہیں زیادہ رسائی نہیں دی جاتی ہے۔ اسی طرح شارع فیصل پر قائم سافٹ وئیر کمپنی کے خلاف چھاپے اور مقدمے کے اندراج کے لئے ڈپٹی ڈائریکٹر نے اسلام آباد ہیڈکواٹر میں اعلیٰ افسران سے حقائق پوشیدہ رکھے اور انہیں اندھیرے میں رکھ کر کارروائی کی منظوری حاصل کی۔

اس سافٹ وئیر لیب کے خلاف کی جانے والی کارروائی میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے ساتھ میڈیا کے کچھ لوگوں کا بھی علیحدہ سے دبائو موجود تھا جب کہ ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار نے اپنے بیان میں کہا کہ آئی ٹی کمپنی کے خلاف کارروائی کی رپورٹ حساس اداروں سے موصول ہوئی تھی اور اس کی منظوری اسلام آباد ہیڈکوارٹر کے اعلیٰ افسران سے حاصل کی گئی تھی۔ دستاویزات کے مطابق جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم نے تحقیقات مکمل ہونے کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا کہ ایڈیشنل ڈائریکٹر فیض اللہ کوریجو کے خلاف آئی ٹی کمپنی کی طرف سے رشوت وصولی کے براہ راست ثبوت نہیں ملے ہیں ،تاہم فیض اللہ کوریجو کی سائبر کرائم ونگ

کی سربراہی میں نااہلیت ثابت ہوئی ہے اور ان کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی کے ساتھ ان کے آمدن سے زائد اثاثوں کی بھی چھان بین ضروری کی جائے۔دستاویزات کے مطابق انکوئری ٹیم نے ڈپٹی ڈائریکٹر عبدالغفار کو سائبر کرائم ونگ کراچی میں ایف آئی اے کو بدنام کرنے کا ذمہ دارقرار دیتے ہوئے ان کے خلاف کارروائی کی سفارش کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر نے پرائیوٹ افراد عاقب محمود ،صارم ولد علائو الدین قاسمی ،عمران کو رشوت وصولی اور دیگر غیر قانونی کاموں کے لئے استعمال کیا ۔انسپکٹر شگفتہ شہزاد کا رشوت وصولی میں مشکوک کردار رہاہے۔

انسپکٹر محمد نعیم اعوان ،سب انسپکٹر اخلاق ،ایاز گل رشوت وصولی کے ساتھ سائبر کرائم ونگ میں درخواست گزار متاثرہ خواتین کو بھی ہراساں کرنے میں ملوث رہے ہیں اور متاثرہ خواتین کی درخواست پر ملزمان کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے متاثرہ خواتین کے اہل خانہ کو مختلف جرائم میں بلیک میل کرنے میں شامل رہے ہیں ۔

دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کے افسران و اہلکاروں کے ساتھ جرائم میں ملوث آئی ٹی کمپنی کے اعلیٰ عہدیداران ازنیم بلوانی ،محمد سعد اقبال اور محمد عامر کو بھی ان کے ساتھ شامل تفتیش کیا جائے اور انکوائری ٹیم نے سفارش کی ہے کہ ان ملزمان کے خلاف پریونیشن آف کرپشن ایکٹ1947کے تحت حاصل شواہد کی روشنی میں مقدمے کا اندراج کیا جائے۔

تازہ ترین
تازہ ترین