• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

لاہور میں جب تک پتنگ بازی پر پابندی نہیں تھی لاہور میں سب سے بڑا تہوار بسنت کا تھا۔ ہفتے کی رات، اتوار کی صبح اور تمام سرکاری تعطیلات کے موقع پر لاہور میں رات گئے بلکہ انتہائی تیز لائٹیں لگا کرگڈیاں، گڈے، پتنگیں، کپ اورتیرا وغیرہ اڑائے جاتے تھے۔

اندرون لاہور میں شاید ہی کسی مکان کی چھت (جسے لاہوریئے ڈور کوٹھا بھی کہتے تھے) خالی ہوتی ہو۔ لائوڈ اسپیکرز پر مخالف کی پتنگ کٹ جانے پر نعرے بازی ہوا کرتی تھی اور بگل بجا کر اپنی فتح کا اعلان کیا جاتا تھا۔ طرح طرح کے کھانے پکائے جاتے تھے۔ دوستوں کو بھی بلایا جاتا تھا۔ قیمے والے نان تو لازمی ہوتے تھے۔ پتنگ اور ڈور بنانا باقاعدہ ایک فن تھا۔ اس کے لاہور میں باقاعدہ استاد ہوا کرتے تھےجن کے باقاعدہ شاگرد بھی ہوتے تھے۔ پھر لاہور کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل نے بھی بسنت منانا شروع کر دی اندرون شہر کے لوگوں نے اپنے گھروں کی چھتوں کو کرائےپر دینا شروع کر دیا تھا۔ پتنگ اور مانجھا ہر کوئی نہیں بنا سکتا تھا۔ مانجھا بنانے والے بھاٹی گیٹ کے باہر باغ سے موچی گیٹ کے تاریخی باغ تک زمین پر دو ڈنڈے جن پر مختلف سوراخ ہوتے اور دونوں ڈنڈے کم از کم تیس اور پچاس فٹ کے فاصلے پر لگائے جاتے تھے۔ ان پر 8نمبر اور 10نمبر کا دھاگہ لگا کر اس پر مانجھا لگایا جاتا تھا۔ شوقین لوگ اپنا دھاگہ لا کر اپنے سامنے مانجھا لگوایا کرتے تھے۔ یہ بہت بڑی ہوم انڈسٹری تھی جس سے لاکھوں لوگ وابستہ تھے مگر اس کاروبار سے وابستہ لوگوں نے ہی اس کو تباہ کر دیا۔ جیسا کہ ہم اکثر کہتے ہیں کہ اس لاہور کو سب سے زیادہ تباہ و برباد اس کے اپنے مکینوں نے کیا ہے۔ ایسا مانجھا لگانا شروع کیا کہ جس سے لوگوں کی گردنیں کٹنے لگیں اور پھر ان کا روزگار بھی کٹ گیا۔ بسنت کا سب سے زیادہ زور ہمیں یاد ہے کہ رنگ محل، بھاٹی گیٹ، سید مٹھا، سوتر منڈی، موچی گیٹ، واچھو والی اور لوہاری دروازے میں ہوتا تھا۔ لاہور کا صحیح اور اصل کلچر صرف تیرہ دروازوں کے اندر ہی تھا۔ جو اب تبدیل ہو چکا ہے لاہور جسے اندرون شہر بھی کہتے ہیں۔ اس کے باہر صرف اچھرہ، ماڈل ٹائون، سمن آباد، گلبرگ اور لاہور کینٹ تھا جو اس زمانے میں یعنی آج سے ستر برس قبل بہت دور کے علاقے لگتے تھے ۔ آنے والے چند برس میں تو لاہوریے اصل دیہات دیکھنے کو ترس جائیں گے۔ خیر بسنت بھی بُری روایتیں پڑنے پر ختم ہو گئی اور اب شاید کبھی بھی بسنت دوبارہ شروع نہیں ہو سکے گی۔ لاہورایک دن اپنی تمام اچھی اور خوبصورت روایات کو ناصرف کھو دے گا بلکہ ہر اچھی ریت اور رواج بھی ختم ہو جائے گا، لاہور میں ایک زمانے میں تقریباً ہر شخص کے سر پر کوئی ٹوپی، پگڑی، صافا، جناح کیپ، قراقلی ٹوپی یا لال رنگ کی ترکی ٹوپی ضرور ہوا کرتی تھی۔ خاکی رنگ کا ہیٹ اکثر لوگ پہنا کرتے تھے، جو بڑا مضبوط ہوتا تھا۔ ہمارے پاس بھی تھا۔ پرانے لاہوریوں کو یاد ہو گا کہ بے شمار لوگ شیروانی اور چوڑی دار پاجامہ بھی پہنتے تھے۔ مسجد میں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ نماز بغیر ٹوپی کے کوئی شخص ادا کرتا ہو۔ ہم نے اپنے بچپن میں بے شمار افراد اور اپنے اساتذہ کو ترکی ٹوپی پہنے دیکھا تھا۔ عزیز قارئین یہ بات آپ کے لئے یقیناً دلچسپی کا باعث ہو گی کہ ایک امریکی جوڑے نے 1850میں لاہور کے بارے میں ایک کتاب پڑھی تو انہوں نے امریکہ میں ورجینیا میں ایک چھوٹا سا گائوں آباد کیا اور اس کا نام لاہور رکھا۔ یہ چھوٹا سا گائوں جو اب ایک چھوٹا سا شہر ہے آج بھی لاہور کے نام سے آباد ہے ،ہم نے امریکہ میں اس کا بورڈ بھی پڑھا تھا۔ جب ہم آج سے کئی برس قبل ورجینیا گئے تھے۔ امریکہ کے فلمی شہر ہالی وڈ کے مشہور فلم ساز ادارے ایم جی ایم نے مشہور زمانہ فلم بھوانی جنکشن کی شوٹنگ لاہور میں کئی ہفتے تک کی تھی۔ یہ اعزاز لاہور کو حاصل ہے کہ ہالی وڈ نے پہلی مرتبہ کسی فلم کی لاہور میں شوٹنگ کی تھی۔ اس فلم میں فلم ا سٹار نیلو نے بارہ برس بعض حوالوں سے پندرہ برس کی عمر میں پہلی مرتبہ کام کیا تھا۔ اس فلم میں فلم اسٹار ساقی نے بھی کام کیا تھا۔ اس فلم کے لئے لاہور اسٹیشن کے دو پلیٹ فارم فلم کے سیٹ کے طور پر استعمال کئے گئے تھے پلیٹ فارم نمبر 1اور 2اس فلم میں ایک ہزار سے زائد لاہوریوں نے کئی چھوٹے موٹے کردار ادا کئے، اس فلم کے ہدایت کار جارج کیوکر تھے اور اس کی ہیروئین ایوا گارڈنز دو ماہ سے زائد عرصے لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھہری رہیں۔ آج بھی اس ہوٹل میں ایوا گارڈنز سویٹ ہے۔ جس کا ایک رات کا کرایہ پچاس ہزار روپے ہے۔ اس فلم کے ہیرو ا سٹیورٹ گرنیر تھے۔ اس فلم کی یادیں اور ایواء گارڈنز کی خوبصورتی کے چرچے لاہوریوں نے ایک مدت تک یاد رکھے۔ اب بھی لاہور میں چند لوگ ضرور موجود ہیں جنہوں نے اس فلم کی شوٹنگ 1955 میں دیکھی تھی یا اس میں حصہ لیا تھا۔ جاتے جاتے ہالی وڈ والے لاہور اسٹیشن کو سائونڈ سسٹم دے گئے جو ایک مدت تک کام کرتا رہا۔ پھر اس کو خراب کر دیا گیا اور یہاں نیا سائونڈ سسٹم لگایا گیا۔ یہ کیا شہر تھا اور کیا ہو گیا؟ کبھی اس مال پر ہم نے جیکوین کینیڈی، شاہ ایران کی اہلیہ فرح شاہ پہلوی، عیدی امین، یاسر عرفات، کرنل قذافی، شاہ فیصل کو دیکھا تھا۔ اس مال پر کبھی ہم نے ملکہ کا بت بھی دیکھا تھا۔اس شہر لاہور کے بس کنڈیکٹروں کی یہ آوازیں سنی بھی تھیں چلو بھئی ملکہ کا بت آ گیا ۔ چلو بھئی دفتر لارڈ صاحب آ گیا ، چلو بھئی رتن باغ آ گیا ۔ سب سے لمبا روٹ بس نمبر 1کا تھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین