حقیقت کو پسِ پشت رکھ کر سیاست ہو سکتی تو عمران خان، میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری میں سے کوئی بھی سیاسی افق پر نہ ہوتا۔ جب تک یہ تینوں زندہ ہیں، اپنی چمک دمک نہیں کھو سکتے، کوئی ان سے نفرت کرے یا محبت ہر ایک صورت میں ایک تعلق کے وہ حق دار بہرحال رہتے ہیں۔
عمران خان نے اپنی تحریک کے ،انصاف، کی بنیاد جس خشت اول سے چُنی اس کی فراہمی کا سبب پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ والے ہی ہیں۔ 1977 تا تاحال بھٹوازم اور ضیاازم کے آشیانے اور آستانے ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں اور یہی نبردآزمائی وہ کشش ہے جو مقتدر کی آنکھ کی چمک اور دماغ کی دمک رہی۔ جب جب بھی مقتدر کی زلف کی اسیری پر تحقیق ہوگی تو پاکستان سے عالمی سیاست تک کا محقق یہی کہے گا کہ جو قوتوں کے خلاف جتنا دم رکھتا ہے آخر قوتیں اُسی کو اپنا آلہ کار بنا کر دم لیتی ہیں۔
یہ سچ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے سینے میں بھی دھڑکتا دل ہے جسے ’’پیار‘‘ ہو کر رہتا ہے۔ گویا سیاسی محبت ہو یا غیر سیاسی افادیت کے عنصر کو فراموش کرنا ممکن نہیں۔ ہر عمر کی دہلیز اور ہر ایکوسسٹم کا چیلنج محبت کی راحت اور استعمال کو اپنے زاویے سے دیکھتا ہے۔
اہلِ بینش آشنا ہیں کہ کبھی میثاق جمہوریت ہوا تھا، اور وہ اپنے دور کے دو بڑے قائدین کے درمیان ہوا۔ اس وقت بی بی اور میاں نواز شریف کے مدمقابل جنرل پرویز مشرف، چوہدری برادران ، مولانا فضل الرحمٰن اور قاضی حسین احمد تھے۔ ایم ایم اے’’دوستوں‘‘ کی مدد سے سرحد کی حاکم اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن بنی حالانکہ اپوزیشن لیڈر پیپلز پارٹی کا بنتا تھا۔
یہ بھی یاد رہے کہ مرحوم مخدوم امین فہیم کو مشرف ٹیم کی جانب سے وزارت عظمیٰ کی پیشکش بھی ہوئی بشرطیکہ وہ بی بی کو چھوڑتے۔ وہ نہیں مانے تھے تو پیپلزپارٹی سے پٹریاٹ بنی تھی جیسے مسلم لیگ سے قاف لیگ نے جنم لیا تھا۔
بہرحال اس میثاق کے بے شمار جمہوری فوائد سامنے آئے۔ نون لیگ نے 2008 کے الیکشن کا بائیکاٹ ختم کیا اور پنجاب میں حکومت بنائی۔ پنجاب کی تعمیر و ترقی کے نام پر الیکشن 2013 میں مرکز تک کی کامیابی حاصل کی۔ نون لیگ نے 2010 میں 18ویں ترمیم میں پیپلزپارٹی حکومت کی مدد کی۔ پیپلزپارٹی نے عمرانی دھرنا کے خلاف نون لیگ حکومت کی مدد کی حالانکہ پیپلزپارٹی پارلیمانی اپوزیشن تھی۔
کاش نون لیگ نے وکلا تحریک کو ہائی جیک کرکے بےجا زرداری مخالفت اور بلا ضرورت سید یوسف رضا گیلانی کی وزارت عظمٰی کے خاتمے میں اپنا حصہ نہ ڈالا ہوتا۔ خیر یہ سب بھی اس وقت قابل قبول نظر آتا ہے جب اپنی ایک پارٹی اور اپنا ایک مؤقف ہو ۔ کاش سیاست میں لوگ ایک مکمل نظریہ کے حامل ہوں، آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا معاملہ ہی بگاڑ کی جڑ ہے ورنہ جمہوریت سے بڑا بناؤ ہے کیا؟
آج کل آصف علی زرداری پر جو سوال ان کا اپنا ہی اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم اٹھا رہا ہے اس کو ہم سو فی صد غلط نہیں کہتے مگر اس پر نظرثانی اور سوچ بچار کی ضرورت بہرحال ہے۔ یہ سوالات اگر حکومتی اتحاد اٹھائے تو بات اور ہے، اُن کا بنتا ہے۔
لیکن نون لیگ، پی ٹی آئی اور مولانا فضل الرحمٰن کو سوچنا ہوگا کہ جب جب ان کی حکومتیں ہوتی ہیں یہ مستعفی ہوتے ہیں؟ زرداری صاحب کیا آسانی سے سندھ حکومت چھوڑ دیں؟ کیا اپنے ہی اتحادی قاضی حسین احمد کے کہنے پر مولانا نے 2002 کی ایم ایم اے کی سرحد حکومت چھوڑی تھی؟
کیا 2013 کی پی ٹی آئی نے کے پی حکومت چھوڑی حالانکہ مرکز سے تو سیاسی استعفے بھی دے دئیے؟ ایک بات جو اپوزیشن اتحاد کو ذہن نشین رکھنی چاہئے وہ یہ کہ عمران خان ایک حکومتی ہی نہیں سیاسی حقیقت کا بھی نام ہے۔ جب تک یہ زندہ ہے یہ لیڈر ہے۔
میں بھی ان کہنے والوں میں شامل ہوں جن کی یہ بازگشت ہے کہ پانچ سال پورے کرنے دئیے جائیں تو قاف لیگ کی طرح تحریک انصاف بھی گئی۔ یہ درست ہے مگر عمران خان کا قد کاٹھ چوہدری برادران سے بہت بڑا ہوچکا ہے۔ ملک میں مہنگائی کی انتہا، بےشمار بدانتظامیوں، خارجی محاذوں پر بےحد کوتاہیوں اور کمزور ٹیم کے باوجود ووٹر اور حامی ساتھ کھڑا ہے تو اور شخصی و سیاسی مقبولیت کیا ہوتی ہے؟
جہاں تک آصف علی زرداری کی بات ہے، آپ غصے اور لاعلمی میں ان پر الزامات کو جتنا بھی بڑھاوا دے لیں ان کے مخالفین ہی انہیں مردِحُر بھی کہہ گئے اور بھاری بھی کہہ رہے ہیں۔ پاکستان کھپے سے این ایف سی ایوارڈ اور 18 ویں ترمیم تک کا کریڈٹ ان کو جاتا ہے۔ وہ بیتے دن یاد ہیں جب انہوں نے ایک دفعہ’’ اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی بات کی تھی تو میاں صاحب اور ان کی حکومت نے دوستوں کے ڈر سے ایک ڈنر کی قبول کی ہوئی دعوت ترک کر دی تھی؟
زرداری سیاست بہرحال وزارتِ عظمیٰ سے صدارت تک جلوہ گر رہی، سندھ کی تعمیر و ترقی ہیں اور ایوان میں بھی واضح دِکھتی ہے۔ اپنوں اور بےگانوں کو اختلاف کی اجازت ہے بہرکیف نون لیگ چوہدریوں سے مل کر پنجاب میں عدم اعتماد لانا نہیں چاہتی مگر 9 جماعتیں پی پی سے عدم برداشت لے آئیں!
اجی، استعفے دینا 18ویں ترمیم چُھری تَلے اور ضمنی الیکشن قربان کرنے کے مترادف ہے۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ پی ڈی ایم نے آج تک سب اہداف حاصل کئے، سیاست اور جمہوریت زندہ رکھی۔
سو اس حکومت کو بھی زندہ رکھیں، مدت پوری کرنے دیں، پھل زیادہ میٹھا ہوگا اور یاد رکھئے دیگر سیاسی و جمہوری حقیقتوں کی طرح زرداری بھی ایک حقیقت ہے!