شہر میں گزشتہ کچھ برسوں سے پولیس اہل کاروں کی جانب سے کی گئی فائرنگ سے شہریوں کی ہلاکت ،شہریوں کی ساتھ پولیس کے رویے اور تھانوں میں شہریوں سے روا رکھے جانے والے ناروا سلوک کے بعد پولیس کے ٹریننگ کے نظام اور معیار پر بارہا سوال اٹھائے گئے ہیں ،گو کہ اعلیٰ پولیس حکام کی جانب سے متعدد بار پولیس کی تربیت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے دعوے کیے جاتے رہے۔ تاہم اس کے مثبت اثرات فیلڈ میں دیکھنے میں نہیں آئے۔ بعد ازاں اب پولیس حکام کی جانب سے ٹریننگ کے نظام کو بدلنے کے لیے سنجیدہ کوششیں دیکھنے میں آئی ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ کوششیں کتنی بار اور ہوتی ہیں، کیوں کہ ماضی میں یہی دیکھا گیا ہے کہ افسران کے تبدیل ہونے سے پُوری پالیسی بدل جاتی ہے اور اگر کسی افسر نے محنت اور لگن سے اچھا کام کیا ہوتا ہے تو نیا افسر آکر اپنی پالیسی بناتا ہے اور پھر نئے سرے سے کام کا آغاز کرتا ہے۔پولیس کے ٹریننگ نظام میں حال ہی میں کی جانے والی تبدیلیوں اور اس کی وجہ جاننے کے لیے ہم نے ڈی آئی جی ٹریننگ نعیم شیخ سے ملاقات کی۔
اس موقع پر انہوں نے بتایا کہ پولیس ٹریننگ کا نظام اور نصاب 70 کی دہائی میں بنا تھا،اس کے بعد سے اب تک اس میں معمولی تبدیلیاں گئیں، جو وقت کے ساتھ پُرانی ہوتی چلی گئیں اور نئے آنے والے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ رہیں،80 کی دہائی میں دہشت گرد جو پہاڑیوں تک تھا، وہ شہر کے اندر آگیا ،اس وقت حکام نے پولیس کو assault rifle دینے کا فیصلہ کیا، کیوں کہ دہشت گردوں کے پاس رائفل تھی اور پولیس کے پاس ہینڈ گن تھی اور ظاہر ہے ہینڈ گن کے مقابلے میں رائفل کی دہشت زیادہ تھی۔
اس طرح سے بتدریج پستول کم ہوتا چلا گیا اور کلاشن کوف کا استعمال پولیس میں بڑھ گیا، بعد ازاں کلاشن کوف کا چائنیز ورژن بھی آگیا، جو سستا بھی تھا۔تاہم شہر کے اندر بڑے ہتھیار کے استعمال سے حادثات ہونا شروع ہو گئے اور پولیس کی فائرنگ سے کئی شہریوں کی جان بھی گئی، کیوں کہ اب ملزمان تیس بور یا نائن ایم ایم پستول استعمال کر رہے تھے اور پولیس کے پاس کلاشن کوف تھی ۔
ڈی آئی جی نعیم شیخ نے مزید بتایا کہ اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ پولیس سے بڑا ہتھیار لے کر انھیں پستول دیا جائے، کیوں کہ شہر میں چھوٹے ہتھیار کی ہی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں پولیس ٹریننگ سینٹرز میں کانسٹیبل سے لے کر انسپکٹرز کو ایک ہفتے کے کورس کروائے گئے ہیں، جس میں انھیں پستول کی بنیادی ہینڈلنگ سکھائی جا رہی ہے، جب کہ نئے اہل کار جو ابھی زیر تربیت ہیں۔ انھیں پہلے ہی پستول کی تربیت دی جا رہی ہے، جس سے اُمید ہے کہ اب حادثات میں کمی دیکھنے میں آئے گی۔
انہوں نے بتایا کہ جب میں نے ڈی آئی جی ٹریننگ کا چارج لیا تو کوشش کی کہ ٹریننگ کے معیار کو بہتر بنایا جائے۔ ٹریننگ کو بین الاقوامی معیار اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے اور جو ہمارا نصاب ہے، اسے بھی ہماری ضروریات کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جائے۔سب سے پہلے ہم نے جس چیز کی ضرورت کو محسوس کیا، وہ یہ تھی کہ ہمارے پاس آسان اور سہل زبان میں کوئی ٹریننگ مینوئل موجود نہیں تھا،جو ٹریننگ مینوئل تھا، وہ 70 کی دہائی کا تھا،تمام ٹریننگ مینوئل کو ہم نے ڈرافٹ کیا اور اسے اپنے ٹریننگ مینجمنٹ بورڈ میں پیش کیا اور حال ہی میں آئی جی سندھ کی جانب سے منظوری کے بعد اسے نافذ کرنا شروع کیا ہے۔
اس ٹریننگ مینوئل میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ ہماری ٹریننگ کی جو بھی ضروریات ہیں۔ ان سب کو اس میں شامل کیا جائے،ایک اور چیز جس کی کمی ہم محسوس کرتے تھے کہ ٹریننگ مینوئل میں پریکٹیکل سے زیادہ تھیوریٹیکل چیزیں زیادہ تھیں، جس کو ہم نے اب تبدیل کیا ہے اور فیلڈ میں افسران اور اہل کاروں کو درپیش چیلنجز کے مطابق پریکٹیکل چیزوں کو فوکس کیا ہے۔ کورونا کی وبا کے باعث گزشتہ برس ہماری ٹریننگ کی سرگرمیوں معطل رہیں۔
تاہم رواں برس جنوری سے ہم نے ان سرگرمیوں کو بحال کیا ہے اور سب سے پہلے’’ اپر اسکول کورس‘‘ کا آغاز کیا اور اس میں تاریخ ساز تبدیلیاں کی ہیں،اس کورس کی میعاد پہلے 6 ماہ تھی، جسے ہم نے کم کر کے 4 ماہ کیا ہے، تاکہ افسران کی دل چسپی برقرار رہے۔ ہم نے اس کورس میں ان چیزوں پر زیادہ توجہ دی ہے، جنھیں اس کورس کے بعد افسران کو زیادہ ضرورت پڑھے گی جیسے کے ہم نے تفتیش کو فوکس کیا ہے ،کیس فائل کرنے اور پراسیکیوشن کے معاملات پر تربیت دی ہے۔
اسی طرح ڈیجیٹل ثبوت جس کے بارے میں ہمارے تفتیشی افسران بہت کم جانتے تھے ان ثبوتوں کو جمع کرنا،ان کی پروسیسنگ اور پھر انھیں کورٹ میں پیش کرنے کی تربیت دی گئی ہے۔ اسی طرح بائیولوجیکل ثبوت جیسا کہ ڈی این اے ، سرولوجی اور دیگر کی تربیت دی گئی ہے،جن افسران کو یہ تربیت دی گئی ہے۔ ان میں وہ سب انسپکٹرز شامل ہیں، جو اب انسپکٹرز کے لیے پروموٹ ہوں گے اور یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کے سندھ پولیس میں ایس ایچ او لگنے کے لیے اپر اسکول کورس پاس کرنا ضروری ہوتا ہے۔
ان افسران کو قانون،تفتیش اور انتظامی معاملات کے مختلف پہلوؤں پر تربیت دی جا رہی ہے ،اسی طرح ہم ’’ انسٹرکٹرز ڈیویلپمنٹ ماڈیول‘‘ کورس متعارف کروانے جا رہے ہیں اور مستقبل میں ہماری یہ کوشش ہو گئی کہ جس نے یہ کورس نہ کیا ہو، وہ انسٹرکٹر نہ لگ سکے، اس طرح سے ہمارے ٹرینرز کا معیار بھی بہتر ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ تفتیش کا شعبہ کمزور تھا ،کیوں کہ جب تک شعبہ تفتیش بہتر نہیں ہو گا، تو پراسیکیوشن بہتر نہیں ہو گی اور پراسیکیوشن بہتر نہ ہونے سےملزمان کو فائدہ ہو گا۔اس کے لیے ہم نے تفتیشی افسران کے لیے الگ کورسز ترتیب دیے ہیں اور سندھ حکومت نے 150 انسپکٹرز بھرتی کیے ہیں جو کہ صرف شعبہ تفتیش میں کام کریں گے اور امید ہے کہ جب یہ تربیت حاصل کر کے فیلڈ میں جائیں گے، تو تفتیش کے پُورے نظام پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے، ڈی آئی جی نعیم شیخ کا کہنا تھا کہ ٹریننگ ایک جذبے والا کام ہے اور میری کوشش ہے کہ جب تک میں اس سیٹ پر ہوں اس حوالے سے بہتر فیصلے کر سکوں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ٹریننگ کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے اور مجھے اُمید ہے کہ سندھ پولیس اپنے ٹریننگ کے نظام اور معیار کو بین الاقوامی معیار کے مطابق بنانے میں کام یاب ہو گی۔