اسلام آباد (انصار عباسی) وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے اپنے چچا (انکل) محمد امیر تیمور کو ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد تین سال کی مدت کیلئے دوبارہ ملازمت پر بھرتی کر لیا ہے اور اس مقصد کیلئے نئی بھرتیوں پر عائد پابندی میں نرمی کرتے ہوئے ایک نیا عہدہ تخلیق کیا گیا ہے۔
پنجاب حکومت کی 9؍ صفحاتی فائل کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کس طرح پابندی کے باوجود قوائد و ضوابط میں نرمی کرتے ہوئے بزدار کے انکل کو بھرتی کرنے کیلئے عہدہ تخلیق کیا گیا، وہ گریڈ 18؍ میں دو ماہ قبل پولیس سے ریٹائر ہوئے تھے۔
25؍ مارچ کو حکومتِ پنجاب کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں بتایا گیا ہے کہ امیر تیمور کو ڈائریکٹر اسپیشل برانچ جنوبی پنجاب مقرر کیا گیا ہے اور انہیں یکمشت ادائیگی کی بنیاد پر تین سال کے کنٹریکٹ پر مقرر کیا گیا ہے۔
تنخواہ کی مد میں انہیں تین لاکھ روپے دیے جائیں گے؛ یہ تنخواہ اس تنخواہ سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے جو وہ ریٹائرمنٹ سے قبل وصول کر رہے تھے۔ اس سے قبل امیر تیمور نے کبھی اسپیشل برانچ میں کام نہیں کیا لیکن اب انہیں اپنے بھتیجے کی وزارت اعلیٰ میں ایس پی اسپیشل برانچ ملتان رکھا گیا ہے۔
اگرچہ امیر تیمور کو اب مقرر کیا گیا ہے لیکن ان کیلئے عہدہ رواں سال جنوری میں تخلیق کیا گیا تھا حالانکہ جنوبی پنجاب میں پہلے ہی زیادہ اسپیشل برانچ افسران موجود ہیں بلکہ وہ ان سے سینئر بھی ہیں۔ ایک سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ ان میں سے کسی ایک کو بھی نئے تخلیق کیے گئے عہدے پر رکھا جا سکتا تھا لیکن عہدہ تخلیق کرنے کا اصل مقصد اپنے چچا کو ایڈجسٹ کرنا تھا۔
دی نیوز کے پاس دستاویزات کو دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آئی جی پولیس انعام غنی نے 16؍ اکتوبر 2020ء کو ایک سمری وزیراعلیٰ پنجاب کو بھیجی اور درخواست کی کہ جنوبی پنجاب میں ڈائریکٹر اسپیشل برانچ کا عہدہ تخلیق کیا جائے اور کنٹریکٹ کی بنیادوں پر نئی بھرتی کے معاملے میں عائد کردہ پابندی میں نرمی کی جائے۔
آئی جی پولیس نے جنوبی پنجاب سیکریٹریٹ کے قیام کا حوالہ دیتے ہوئے نئے عہدے کی تخلیق کا جواز پیش کیا اور کہا کہ پنجاب میں اسپیشل برانچ صوبے میں انٹیلی جنس معلومات جمع کرنے کا بہترین ادارہ ہے اور یہ ادارہ صوبائی حکومت کی آنکھوں اور کانوں کا کردار ادا کرتا ہے، انتظامی لحاظ سے یہ ادارہ ہر اہم کردار ادا کرتا ہے جس میں فوجداری نظام انصاف کا نظام بھی شامل ہے۔
اسپیشل برانچ نے پنجاب میں صوبے کے معاملات میں اہم پوزیشن حاصل کر لی ہے اور گزشتہ چند سال کے دوران ادارے کی ذمہ داریوں میں اضافہ بھی ہوا ہے۔
جنوبی پنجاب میں محکمہ پولیس کے سربراہ کی حیثیت سے ایڈیشنل آئی جی پولیس جنوبی پنجاب کو ایسے تجربہ کار، صاحبِ نظر اور ذہین پولیس افسران کی معاونت درکار ہے جن کی جرائم، قانون، امن عامہ اور داخلی سلامتی کے حوالے سے انٹیلی جنس معاملات پر مہارت اور اہلیت ثابت شدہ ہو۔
سمری میں لکھا ہے کہ ڈائریکٹر (گریڈ 19) اسپیشل برانچ جنوبی پنجاب (ملتان) کا عہدہ تخلیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی پنجاب کے تین ریجنز میں داخلی سلامتی، جرائم، قانون اور امن عامہ اور پبلک سروس ڈلیوری کے معاملے میں ایڈیشنل آئی جی پولیس جنوبی پنجاب کی معاونت کی جا سکے۔
سمری میں لکھا ہے کہ حکومتِ پنجاب نے نئی بھرتیوں پر پابندی عائد کر رکھی ہے جس میں نرمی کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جنوبی پنجاب پولیس کی حقیقی انتظامی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔
سمری میں مزید کہا گیا ہے کہ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ معاملہ وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کے روبرو پیش کیا جائے تاکہ ڈائریکٹر اسپیشل برانچ جنوبی پنجاب کا عہدہ تخلیق اور اس کی بجٹ ضروریات کو پورا کیا جا سکے جس میں یکمشت پیکیج دیا جائے گا اور کنٹریکٹ بنیادوں پر عہدہ دیا جائے گا۔
سمری ایڈیشنل چیف سیکریٹری (داخلہ) کے پاس پہنچی تو انہوں نے اپنا نوٹ لکھا کہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ دوسری فارمیشن کی طرح اسپیشل برانچ کے پاس بھی اپنا پورا سیٹ اپ اور ریجنل اور ضلعی سطح پر موجودگی پائی جاتی ہے۔
اسپیشل برانچ کے ڈھانچے میں 10؍ ریجنل ہیڈکوارٹرز، 36؍ ضلعی ہیڈکوارٹرز اور 199؍ سرکل آفسز انیکسی ای میں موجود ہین۔ اسی دوران، آئی جی پولیس آفس سے کہا گیا ہے کہ وہ اُس عہدے کے تفصیلات (جاب ڈیسکرپشن) فراہم کریں جس کی درخواست کی جا رہی ہے۔
اس کے بعد ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے یہ سمری ایس اینڈ جے اے ڈی اور فنانس ڈپارٹمنٹ کو کمنٹس کیلئے بھجوا دی۔ سیکریٹری ریگولیشن ایس اینڈ جے اے ڈی نے فائل پر لکھا کہ چونکہ یہ معاملہ عہدے کی تخلیق کا ہے اسلئے فنانس ڈیپارٹمنٹ سے درخواست ہے کہ کیس کا جائزہ لے اور اپنی سفارشات وزیراعلیٰ کو پیش کرے۔
29؍ اکتوبر کو سیکریٹری فنانس نے فائل پر لکھا، سمری کا جائزہ لیا گیا ہے، فنانس ڈپارٹمنٹ تجویز کی توثیق کرتا ہے ۔
معاملہ کابینہ کمیٹی برائے خزانہ و ترقی میں پیش کیا جائے۔ یکمشت پیکیج کے حوالے سے تجویز سلیکشن بورڈ میں پیش کی جائے تاکہ ان کی رائے معلوم کی جا سکے۔
اس کے بعد چیف سیکریٹری کے ذریعے یہ فائل وزیراعلیٰ کو بھجوائی گئی جن کے پرنسپل سیکریٹری نے فائل پر لکھا کہ وزیراعلیٰ نے یہ فائل دیکھی ہے اور ان کی خواہش ہے کہ معاملہ فوری طور پر کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کیا جائے تاکہ اس پر غور اور منظوری حاصل کی جا سکے۔
اس کے بعد فائل پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری (داخلہ) کا نوٹ بھی ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ معاملہ کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ میں پیش کیا گیا۔ کمیٹی نے 20؍ نومبر 2020ء کو اپنے 46ویں اجلاس میں ڈائریکٹر اسپیشل برانچ جنوبی پنجاب کا عہدہ تخلیق کرنے کی منظوری دی جس کیلئے یکمشت تنخواہ کا پیکیج ادا کیا جائے گا اور یہ عہدہ کنٹریکٹ کی بنیاد پر ہوگا۔
کمیٹی نے اس عہدے کیلئے کنٹریکٹ پر نئی بھرتیوں پر عائد کردہ پابندی میں بھی نرمی کی منظوری دی۔
نتیجتاً، فنانس ڈپارٹمنٹ نے اس عہدے کی تخلیق پر آمادگی ظاہر کی لیکن شرط یہ رکھی کہ تنخواہ کا پیکیج سلیکشن بورڈ سے منظور کرایا جائے۔ سلیکشن بورڈ نے 31؍ دسمبر 2020ء کو اپنے اجلاس میں اس عہدے کیلئے ماہانہ تین لاکھ روپے تنخواہ کی ادائیگی کی منظوری دی۔
اس کے بعد ایڈیشنل چیف سیکریٹری نے وزیراعلیٰ کو درخواست کی کہ سلیکشن بورڈ کی سفارشات کو منظور کیا جائے اور ساتھ ہی عہدے کیلئے بھرتی کمیٹی کی سفارشات بھی منظور کی جائیں۔
بھرتی کمیٹی میں جن لوگوں کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی تھی ان میں آئی جی پولیس چیئرمین جبکہ ایڈیشنل آئی جی و ڈی آئی جی اسپیشل برانچ، ڈی آئی جی ہیڈکوارٹرز، محکمہ داخلہ کے نمائندے، ریگولیشن ونگ ایس اینڈ جی اے ڈی کے نمائندے اور ڈپٹی سیکریٹری ایس اینڈ جی اے ڈی بحیثیت ارکان شامل ہوں گے۔ 21؍ جنوری 2021ء کو فنانس سیکریٹری نے سفارشات کی منظوری دیدی جس کے بعد فائل پر دستخط ہوئے، چیف سیکریٹری نے وزیراعلیٰ آفس سے رجوع کیا۔
23؍ جنوری کو وزیراعلیٰ کے سیکریٹری (امپلی مینٹیشن) نے فائل پر لکھا کہ وزیراعلیٰ نے فائل دیکھ لی اور سفارشات کی منظوری دیتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اصل فائل، جو صوبائی آئی جی پولیس نے آگے بڑھائی تھی، میں کہا گیا تھا کہ معاملہ وزیراعلیٰ اور صوبائی کابینہ کو پیش کیا جائے تاکہ عہدہ تخلیق کیا جا سکے اور نئی بھرتیوں پر عائد پابندی میں نرمی کرکے اس تخلیق شدہ عہدے پر بھرتی کی جا سکے۔ تاہم، فائل میں ایسی کسی منظوری کا ذکر نہیں جو صوبائی کابینہ نے دی ہو۔