صوبہ خیبر پختونخوا کے تاریخی شہر پشاور میں فنِ تعمیر کا عظیم شاہکار ’قلعہ بالا حصار‘ کئی صدیاں گزر جانے کے باوجود بھی اپنی شان و شوکت دکھا رہا ہے۔ ’بالا حصار‘ فارسی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی اونچائی پر واقع محفوظ قلعے کے ہیں۔ تاریخی طور پر پشاور شہر کی جنوبی ایشا میں ایک خاص اہمیت رہی ہے اور یہ خطے کی تمام تہذیبوں کا مرکز رہا ہے۔ یہ برصغیر کا دروازہ تھا اور ہر نئے حملہ آوروں کا پہلا پڑائو یہیں ہوتا تھا۔ یہاں موجود قلعہ بالا حصار ہمارے ملک کا ایک تاریخی ورثہ ہے، یہ غالباً اتنا ہی پرانا ہے جتنا کہ پشاور شہر۔ یہ ایک بہت بڑا قلعہ ہے، جس کا ایک ہی دروازہ ہے اور اس کا رُخ ہندوستان کے راستے کی جانب ہے۔
بالا حصار ایک بلند ٹیلے پر موجود ہے، جسے باقاعدگی سے اونچائی پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ابتدا میں شاہی رہائش گاہ قلعے کے زیریں حصے میں تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کے چبوترے کو بلند کرنا شروع کیا گیا۔ پرانی تعمیر کے اوپر نئی تعمیرات کی جاتی رہیں جس سے اس کی بلندی میں اضافہ ہوتا گیا۔ زمین سے قلعہ کی مجموعی اُنچائی 92فٹ ہے جبکہ اندرونی دیواروں کی بلندی 50فٹ ہے۔
پختہ سرخ اینٹوں سے دیواریں تعمیر کی گئی ہیں۔ دوہری دیواروں والا یہ قلعہ کُل سوا پندرہ ایکڑ رقبہ پر محیط ہے جبکہ اندرونی رقبہ تقریباً دس ایکڑ بنتا ہے۔ بل کھاتی ہوئی ایک پختہ سڑک قلعہ کے اندر جاتی ہے۔ قلعہ کے احاطے میں دو مزارات ہیں۔ قلعہ کی اندرونی دیوار کے جنوب مشرقی کونے میں ایک مزار کے قریب 120فٹ گہرا پرانا کنواں موجود ہے۔
پاکستان کے ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر احمد حسن دانی کے مطابق630ء میں چینی سیاح ہیون سانگ نے پشاور کا دورہ کیا اور وہاں موجود شاہی رہائش گاہ کے متعلق بات کی۔ اس کاکہنا تھا کہ بلند و بالا دیواروں والا حصہ، شاہی رہائش گاہ کا سب سے اہم اور خوبصورت مقام تھا۔ ڈاکٹر احمد حسن دانی نے ا س خطے اور قلعے کے حوالے سے لکھا کہ دریائے باڑہ کی گزر گاہ نے ایک اونچی جگہ کو گھیرا ہوا تھا، جس میں قلعہ بالاحصار اور اندر شہر واقع تھا۔ دریا کا شمالی حصہ بالا حصار کی بنیادوں کو چھوتا ہوگا۔
جب 988ء میں غزنی کے امیر سبکتگین نے پشاور فتح کیا تو اس نے 10ہزار گھڑ سواروں کے ساتھ یہاں پڑائو ڈالا۔ سبکتگین اور اس کی فوج نے یقیناً اسی قلعے میں قیام کیا ہوگا۔ سلطان محمود غزنوی نے پشاور کے ہندو راجائوں جے پال اور انند پال کو1001ء سے 1008ء کے دوران شکست دی۔ راجائوں کی فوجوں نے بھی قلعہ بالا حصار سے پشاور شہر کا دفاع کیا ہوگا۔ شہاب الدین غوری نے پشاور کی اہمیت کے پیش نظر 1179ء میں اس قلعہ پر قبضہ کیا۔
اس کے علاوہ مغل بادشاہ ظہیرالدین بابر نے بھی اپنی خودنوشت ’تزک بابری‘ میں باگرام یعنی پشاور کے قریب اپنی فوجوں کے اترنے اور شکار کے لیے روانگی اور قلعہ بالا حصار کا ذکر کیا ہے۔ افغان بادشاہ شیر شاہ سوری نے مغل بادشاہ ہمایوں کو شکست دینے کے بعد قلعہ بالا حصار کو تباہ کر دیا تھا مگر شاہ ایران کی مدد سے جب ہمایوں نے اپنا تخت دوبارہ حاصل کیا تو کابل سے واپسی پر پشاور میں قیام پذیر ہوا۔
ہمایوں نے قلعہ بالا حصار کی تعمیرِ نو کروائی اور ازبک جرنیل سکندر خان کی نگرانی میں وہاں ایک بڑا فوجی دستہ تعینات کیا۔ اس وقت قلعہ میں پہلی مرتبہ توپیں نصب کی گئیں۔ 18ویں صدی میں فارس کے نادر شاہ نے درہ خیبر کے راستے ہندوستان پر حملہ کیا تو سب سے پہلے پشاور شہر کو مغلوں سے حاصل کیا اور وہاں اپنا گورنر مقرر کیا، جس کی رہائش قلعہ بالا حصار میں تھی۔
نادرشاہ کے بعد احمد شاہ ابدالی نے وہاں حکومت کی۔ اس کے فرزند تیمور شاہ ابدالی کے دور میں پشاور موسم سرما میں درانی سلطنت کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ روایت ہے کہ تیمور شاہ نے ہی اس قلعے کا نام بالاحصار رکھا، جو طویل عرصے تک درانیوں کے زیرِ استعمال رہا۔ درانی شاہان نے قلعہ میں رہائش کے لیے محلات تعمیر کروائے اور حفاظتی دستے کیلئے تاجک اور ایرانی سپاہیوں کو بھرتی کیا۔1834ء میں سکھ پشاور پر قابض ہوئے تو انھوں نے قلعہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ بعد میں ہری سنگھ نلوہ اور سردار کھڑک سنگھ نے قلعہ بالاحصار کی اہمیت کے پیش نظر اس کی تعمیرِ نو کروائی۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے حکم پر شیر سنگھ نے کچی اینٹوں سے قلعہ بنوایا اور اس کا نام تبدیل کرکے سمیر گڑھ رکھ دیا گیا مگر مقامی سطح پر یہ نام مشہور نہ ہو سکا۔ قلعہ بالا حصار کی مرکزی دیوار پر سکھوں کے دور کی تختی آج بھی نصب ہے۔
1849ء میں جب انگریزوں نے پنجاب اور خیبر پختونخوا پر قبضہ کیا تو قلعہ بالا حصار کی دیواریں کچی اینٹوں ا ورگارے سے تعمیرشدہ تھیں، جنہیں ڈھاکر انگریزوں نے پختہ اینٹوں سے دیواریں تعمیر کروائیں جو کہ تاحال قائم ہیں۔ ساتھ ہی فوجیوں کے لیے قلعے کے اندر بیرکیں بنوائیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت انگریز سامراج کی فوج کا ایک دستہ قلعہ بالا حصار میں قیام پذیر تھا۔
تاہم، 1948ء سے قلعہ بالاحصار فرنٹیئر کانسٹبلری کے ہیڈکوارٹر کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے۔ 2015ء میں آنے والے ہندوکش زلزلہ میں جزوی طور پر قلعے کی ایک دیوار متاثر ہوئی تھی، جسے دوبارہ تعمیر کردیا گیا ۔ شیر شاہ سوری کی تعمیر کردہ جرنیلی سڑک کے کنارے موجود اس تاریخی قلعے کو بحالی اور تزئین و آرائش کے بعد سیاحتی مقام بنانے کا منصوبہ ہے۔