بلاشبہ، آج بھی منڈی کی بالادستی، بالادست اجارہ داروں کے ہاتھوں میں ہے، جن کے پاس ٹیکنالوجی اور ہُنر ہے، وہ تیسری دُنیا کے جاہل، کرپٹ حکمرانوں کو اپنا ہُنر استحصالی منافعے پر فروخت کرتے ہیں اور تیسری دُنیا کے حکمران اُن سے نہ صرف اپنا حصّہ مانگتے ہیں، بلکہ منہگے معاہدے بھی کرتے ہیں، جو بعدازاں ان ممالک کے عوام اور معیشت کے لیے عذاب بن جاتے ہیں۔ یہی کچھ پاکستان میں بھی ہوتا رہا ہے۔’’ سینٹو سیٹو‘‘ سے لے کر’’ آئی پی پی‘‘ کے معاہدوں تک عوام کو لاعلم ہی رکھا گیا، تاکہ اُنہیں کچھ معلوم ہی نہ ہو کہ عالمی اور مقامی لُٹیرے اپنے ہی ملک کو کس طرح لوٹتے ہیں؟ آئی پی پی کے ساتھ ہونے والے معاہدے میں، جو 1994ء میں اُس وقت کی پیپلزپارٹی کی حکومت نے کیا تھا، یہ طے پایا تھا کہ پاکستان Sovereign Guarantee (خودمختار ضمانت) کے تحت ہر حال میں بجلی لیتا رہے گا۔
مثلاً اگر اُس وقت پاکستان 60 روپے کی بجلی لینے کے قابل تھا،تو وہ 100 روپے ادا کرتا رہا، جس کے باعث 40 روپے کا بوجھ عوام پر پڑتا رہا۔ نتیجتاً بجلی اور گیس کی چوری 300 ارب روپے سالانہ تک جا پہنچی۔ دُوسری جانب زرِتلافی بھی آئی پی پی اور DISCO(بجلی چلانے والی کمپنی) کو ملتی رہی، جو سراسرخسارے میں جارہی تھیں، جس کے نتیجے میں گردشی قرضے 2300 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ عجیب بات یہ بھی رہی کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے اُس وقت جو معاہدہ پاکستانی کرنسی میں کیا، اُسے بعد میں آنے والی نواز شریف حکومت نے ڈالرز میں بدل دیا۔ مزید یہ کہ اُس دور میں پاکستان کی بجلی کی تقسیم اور ترسیل کا نظام، جو صرف 24 ہزار میگاواٹ اُٹھانے کے قابل تھا، حکمران اُسے 36ہزار میگاواٹ تک لے گئے۔
یوں صنعت اور صارف، ٹیرف زیادہ ہونے کی وجہ سے عذاب میں پھنس گئے۔ اس سے قبل آئی ایم ایف کو غلط اعداد و شمار پیش کرنے پر سابق وزرائے خزانہ، شوکت عزیز اور اسحاق ڈار پر اربوں روپے کا جُرمانہ بھی ہوا، جو ڈالرز کی صُورت میں ادا کرنا پڑا۔ یعنی آنکھیں بند کیے حکمرانوں کو یہ علم ہی نہ تھا کہ منڈی کی قوت ترقّی یافتہ قوموں کے ہاتھوں میں ہے، جب کہ منڈی کی قوتِ محرّکہ منافع اور منافعے کی قوتِ محرّکہ ٹیکنالوجی ہے۔ علم و ہُنر اور ٹیکنالوجی ایک اجتماعی اور عوامی عمل ہے، جس کا استحصال عالمی منافع خور سرمایہ دار کرتے ہیں، جب تک غریب ممالک منافعے اور ٹیکنالوجی میں حصّے دار نہیں بنتے، غربت سے نجات نہیں پاسکتے۔ اور ہمارے یہاں تو جاگیرداری اورسرداری نظام میں یہ ہونا ممکن ہی نہیں۔
فی الحال، ملک میں گردشی قرضے پاکستان کے کُل بجٹ کے آدھے حجم کے برابر ہیں، جب کہ باقی سود اور قرضوں کی اقساط کی ادائی میں چلاجاتا ہے، لہٰذا موجودہ حکومت ڈالرز کے حصول کی کوشش میں اپنی عزت بھی کھو بیٹھی ہے۔ یاد رہے، گزشتہ حکومت 95 ارب ڈالر کا جو قرض چھوڑ کر گئی، اُس سے ملک کم از کم مہاتیر محمد کے ملائیشیا کے برابر تو ترقّی کرسکتا تھا، لیکن افسوس، ترقّی حکمرانوں اور بیورو کریسی کے حصّے میں آئی،اور عوام بدستورپِستے رہے۔ اس صورتِ حال میں موجودہ حکومت نے مجبوراً آئی پی پی سے نرم لہجے میں درخواست کی کہ وہ ناجائز معاہدوں پر نظرِثانی کرے یا پھر فرانزک آڈٹ کروائے، بصورتِ دیگر عوام انارکی کی طرف راغب ہوں گے اور اس کے لیے آئی پی پی کو دو آپشنز دیئے۔ چوں کہ آئی پی پی کو اپنی لوٹ مار کا علم تھا،تو اس نے آڈٹ کے بجائے نظرِثانی کا آپشن قبول کیا۔
چناں چہ ابتدائی طور پر ایم او یُو سائن کرنے کے بعد حال ہی میں ابتدائی معاہدے پر بھی دستخط ہوگئے ہیں، لیکن عوام کی بدقسمتی دیکھیے کہ آئی ایم ایف کا اب بھی یہ مطالبہ ہے کہ بجلی کے نرخ دس سے پندرہ فی صد بڑھائے جائیں، تاکہ گردشی قرضے کم ہوں، لیکن آئی پی پی نے یہاںجو لُوٹ مار کی، اُسے نظرانداز کردیا گیا۔ آئی پی پی نے یہ شرط رکھی ہے کہ اُن کے بقایاجات 400 ارب روپے ادا کردیئے جائیں، تو پھر بات آگے بڑھ سکتی ہے، اور وہ گردشی قرضوں میں ریلیف دے سکتی ہے۔
آج تک کی کہانی پر نظر دوڑائی جائے، تومعلوم ہوگا کہ جو لائق حکومتیں، موجودہ نالائق حکومت پرساری ذمّے داری ڈال رہی ہیں، وہ کسی بھی صُورت بری الذّمہ نہیں ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ واپڈا اپنی تاریخ میں اگر ایمان داری سے بھی بے ایمانی کرتا، تو آج ایک اور واپڈا پاور ہائوس با آسانی کھڑا ہوسکتا تھا۔ ایک طرف،بالادست ترقّی یافتہ ممالک کچرے سے بھی بجلی پیدا کر رہے ہیں، تو ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم کچرا اُٹھانے کے بھی قابل نہیں۔ پاکستان میں بجلی کے ٹیرف میں اضافے کی وجہ سے 17 سال صنعت کاری بند رہی اوربڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ نہ ہوسکی۔
البتہ موجودہ حکومت نے کورونا وائرس کے عہدِ تشویش میں بھی اتنا تو کیا ہے کہ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں استحکام برقرار رکھا ہے اور ٹیکسٹائل کے شعبے کو ری فنڈز بھی دیئے ہیں، جس سے ایکسپورٹ میں اضافہ ہوا اور ترسیلاتِ زر میں اضافے کی وجہ سے بھی حکومت کو کچھ ریلیف ملا ہے، تاہم عوام اب بھی منہگائی میں پس رہے ہیں۔
بجلی اور ایل این جی سمیت دیگر غلط معاہدوں کے ساتھ ہیرا پھیری، ملاوٹ، ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، سودی کاروبار (کریڈٹ کارڈز) اسمگلنگ، ذخیرہ اندوزی اور سٹّے بازی سے اب تک کوئی باز نہیں آیا۔ دوسری جانب احتساب اور عدالتی نظام بھی کچھ نہ کر پایا۔ اس کے باوجود بعض شعبوں کے معاشی اشاریے بہتر ہوئے ہیں، لیکن اس پر کیا کیا جائے کہ موجودہ حکومت کا پیٹرولیم کا مشیر آئی پی پی کا حصّے دار بھی ہے اور سابق چیئرمین بھی رہا ہے۔ اسی لیے اندرونی کہانی آشکار ہونے پر آئی پی پی کلب میں صارف کی لُوٹ مار، زیادہ منافعے کی تگ و دو اور گردشی قرضوں کے حوالے سے ہلچل مچی ہوئی ہے۔ اندازہ کیجیے، گردشی قرضے ایک ہزار ملین روپے (ایک ارب روپے) روزانہ کے حساب سے ایک عشرے سے بڑھ رہے ہیں، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے حالات میں ملک کیسے چلے گا؟
منہگائی کیسے کم ہوگی۔ پاور سیکٹر پر جو رپورٹ پیش کی گئی ہے، اس میں آئی پی پی کو براہِ راست ملوّث نہیں کیا گیا، بلکہ نظرِثانی کی درخواست کی گئی ہے، جسے شرائط کے ساتھ قبول کرلیا گیا ہے۔ یہ ہے خود مختاری پر مبنی معاہدے کا خمیازہ، جس کی ذمّے دار گزشتہ حکومتیں ہیں۔ ’’اسٹیٹس کو‘‘ کی حکومتیں یا موجودہ حکومت 95 ارب ڈالر قرضہ، 35 ارب ڈالر توازنِ ادائی میں خسارہ، 20 ارب ڈالر کا کرنٹ اکائونٹ جو اَب سرپلس ہے۔ایسےمیں جب 441 چھوٹے بڑے سرکاری شعبے اور کمپنیز نقصان دے رہی ہوں، پی آئی اے، اسٹیل مل اور ریلوے 700 ارب روپے خسارے میں ہوں، تو حکومت ان مسائل سے کیسے نبرد آزما ہوسکتی ہے۔ اس کے لیے ایک انقلاب کی ضرورت ہے، مگر جس کے لیے کوئی تیار نہیں ہے۔ تو پھر گردشی قرضے کیسے ختم ہوں گے، جب 87 لاکھ مال دار ٹیکس چوری کرتے ہوں یا بالکل ادا کرنے سے انکاری ہوں، تو ذمّے دار کون ہیں، سب کو علم ہے، لیکن ہر پارٹی کا رہنما بڑی ڈھٹائی سے جھوٹ بول رہا ہے۔
ایسی حالت میں بیرونی سرمایہ کار ہوں یا براڈشیٹ جیسی کمپنیز، وہ ملک کو بدنام بھی کریں گی اور فائدہ بھی اُٹھائیں گی، لیکن یہ بات طے ہے کہ اگر غلط اور ناانصافی پر مبنی معاہدوں پر نظرِثانی نہیں کی گئی، تو مستقبل میں بھی اسی قسم کےفرسودہ معاہدے ہوتے رہیں گے۔ ڈالرز کا قحط رہے گا، کیوں کہ 1992ء کے ایکسچینج ایکٹ کے تحت ڈالرز لانے، لے جانے کی کھلی اجازت ہے، اسی لیے FATF بھی مصیبت بنا ہوا ہے۔ اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ 1994ء میں آئی پی پی سے معاہدے کے بعد ان کمپنیز نے سرمایہ کاری کے ذریعے 8 گنا سے زائد منافع اور چھے گنا سے زائد ڈیویڈنڈ وصول کیا ہے۔
یہ بات بھی مشاہدے میں آئی ہے کہ ایکیویٹی پر ریٹرن (ROE) کے تناظر میں دس بڑی کمپنیز نے 40 سے 79 فی صد تک منافع حاصل کیا ہے۔ اس ضمن میں معروف تجزیہ نگار، علی خضر کے مطابق’’ 2000ء میں مُنہ میں پانی بھر آنے کے مترادف منافع حاصل کیا گیا، ایکیویٹی پر ریٹرن 87 فی صد، منافع سرمایہ کاری کے مقابلے میں نو گنا سے زائد اور ڈیویڈنڈ سات گنا سے زائد رہا۔جب کہ 2015ء کی پاور پالیسی کے تحت کوئلے کے ایک منصوبے میں سرمایہ کاری کے مقابلے میں ریٹرن 71 فی صداور پہلے ہی سال 32 فی صد منافع حاصل کیا گیا۔‘‘ چناں چہ اس میں کوئی شک نہیں کہ صنعتوں کی بدحالی، برآمدات میں کمی، بڑھتے ہوئے آئی پی پی کے ٹیرف اور حکومتوں کی ملی بھگت سے ہوا۔ریگولیٹری کی کارکردگی کے حوالے سے ایک دل چسپ مگر دل خراش حقیقت یہ بھی سامنے آئی کہ توانائی، جس کی پرائسنگ، حدّت کی پیمائش پر کی جاتی ہے، یعنی ہیٹ بیسڈ ریٹ (Heat Based Rate) پر۔ تاہم، حیرت کی بات ہےکہ ریگولیٹر نیپرا یہ پیمائش خود نہیں کرتا، جو آئی پی پی کمپنیز دیتی ہیں، وہی منظور کرلی جاتی ہیں۔
جس کے نتیجے میں آئی پی پی کمپنیز کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ 9 سال تک اپنی مرضی سے فرنس آئل کا بل وصول کرتی ر ہیں۔ اس مد میں 64ارب روپے زائد وصول کیے گئے۔ زائد بلنگ کے معاملات پوری طرح بے نقاب ہوں، تو تمام معاشی تجزیہ کار دَم بخود رہ جائیں گے۔ اب بھی سمجھ میں نہ آئے، تو عوام جعلی جمہوریت، منہگائی اور بے روزگاری کا ماتم کرتے رہیں گے۔ سڑکوں پر گاڑیوں کی یہ لمبی لمبی قطاریں ان ہی دو نمبریوں اور ٹیکس چوروں کی غمّازی کرتی ہیں، لیکن ان سے ٹیکس کون لے۔
کوئی ملک کا ایسا لیڈر ہے، جو دستاویزی معیشت متعارف کروائے، اسی لیے پاکستان میں آمدنی پر ٹیکس لاگو نہیں ہوتا،بلکہ اخراجات پر نافذ ہوتا ہے، اس کی بڑی مثال بجلی پر بھی سیلز ٹیکس ہے۔ اسی لیے گردشی قرضے، بجٹ اور عوام پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور قرضوں کا نام سنتے ہی موجودہ حکومت کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں، جب کہ DISCOکو 3 ہزار ارب روپے زرِتلافی بھی دی جاتی ہے۔
ایک اور چشم کُشا اور دل خراش المیہ دیکھیے کہ گزشتہ دنوں یہ خبر شایع ہوئی کہ فیصل آباد کی ڈسکوز نے اچھی مینجمنٹ کے بعد چھے ارب کا منافع دکھایا، لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ ان ڈسکوز کو 58 ارب روپے زرِتلافی دیا جاتا ہے، اس طرح اگر دیکھا جائے،تو یہ 52ارب روپے کا نقصان ہے۔ یہاں گھپلے اتنے زیادہ ہیں کہ آئی پی پی بھی نظرِثانی پر تیار ہو گئی۔ 2015ء کی پالیسی کے مطابق سی پیک کے قرضوں کی ادائی کی دوبارہ اسٹرکچرنگ کرنی پڑے گی۔ بجلی کے معاملات میں چوری، ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے مسائل حل نہ کیے گئے، تو گردشی قرضے ختم نہیں ہوں گے اور بجلی کا ٹیرف 15 فی صد مزید بڑھے گا۔ دوسری طرف زرِتلافی کا مسئلہ بھی گمبھیر ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ تمام ڈسکوز نقصان میں کیوں جا رہی ہیں، ان کے مالکان چِلّا رہے ہیں، گزشتہ قرضوں پر، موجودہ حکومت 6ہزار ارب روپے سود دے چکی ہے۔ ملک کے معاشی حالات اس قدر خراب کردیے گئے ہیں کہ اب پاکستان میں مگرمچھوں کے لیے چائنا کا معاشی ماڈل تیار کرنا پڑے گا۔ زراعت کی فی کس پیداوار بڑھانی پڑے گی۔ کسانوں کو مراعات فراہم کرنی ہوں گی۔
خوش قسمتی سے صرف لائیو اسٹاک ہی میں اتنی گنجائش ہے کہ مُلک قرضوں سے نجات پاسکتا ہے، لیکن اس کے لیے وژن اور وقت کی ضرورت ہے۔ موجودہ حکومت کو حقیقت میں انرجی کے گھپلے وَرثے میں ملے ہیں، قرضوں اور ٹیکس چوری کی کہانی تو پوری دُنیا کی ہے۔ انرجی کا مسئلہ حل کیے بغیر موجودہ حکومت تو کیا، کوئی حکومت بھی کام یاب نہیں ہوسکتی، لہٰذا پرائیویٹ، پبلک اور سی پیک کے حلقے میں رہ کر اسے حل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
جہاں تک مارکیٹ اکانومی کا تعلق ہے، تو رَسد اور طلب کا فیصلہ اَٹل ہونا چاہیے۔ چینی، سیمنٹ، گندم اور بجلی کے مسائل سے آگاہ لوگوں کا منڈی کی معیشت سے اعتبار اُٹھ گیا ہے۔ ضابطے،ریگولیٹرز اور حکومتیں کچھ بھی قابو میں نہیں، اسی وجہ سے گورنینس بھی خراب ہے۔ کے الیکٹرک سے کراچی والے نالاں ہیں۔ آئی پی پی کی مذکورہ رپورٹ میں پوچھا گیا ہے کہ زیادہ ادائیاں کیوں ہوئیں؟
ٹیرف میں اضافہ کیوں کیا گیا؟ ضرورت سے زیادہ زرِتلافی کیوں فراہم کی گئی، منافع اور ڈیویڈنڈ اگر زائد لے رہے تھے، تو نگراں کون تھا؟ ہر حال میں گراں قیمت پر سو فی صد بجلی لینے یا نہ لینے اور اس کی ادائی کا معاہدہ، کیوں کیا گیا؟ ان تمام سوالات کا کھوج لگاکر اس کے ذمّے دار اور مرتکب افراد سے ریکوری کی جائے، اگر کرپشن کا پیسا باہر سے نہیں لایا جاسکتا، تو سچائی کے ساتھ احتساب اور عدالتیں معاشی حُب الوطنی کا ثبوت دیں۔ 2025ء تک کے مزید منصوبے اگر پُرانے فریم ورک میں کیے گئے، تو عوام کا کیا ہوگا۔
کورونا وائرس کے نتیجے میں دُنیا بھر میں 40 کروڑ افراد بے روزگار ہوئے۔ ایسے میں ٹیرف بڑھانا سیاسی خودکشی نہ بھی ہو، تو عوام کے ساتھ ظلم ضرور ہے، جو 1994ء کے بعد سے جاری ہے۔ اس وقت 36ہزار میگاواٹ پیداواری صلاحیت ہے، جب کہ موسمِ گرما میں بھی کُل طلب 25 ہزار میگاواٹ ہے۔ مزید پیداوار کی اس وقت تک ضرورت نہیں، جب تک تقسیم، ترسیل، چوری اور آئی پی پی سے ازسرِنو نظرثانی نہ ہو۔ انرجی مارکیٹ میں مزید سرمایہ کار لائے جائیں۔
ملک کے مختلف مقامات پر ڈیمز بنائے جائیں، اگرچہ ناران کے علاقے میں سُکی کناری پر ڈیم بنایا جارہا ہے۔ دریائے کابل پر مہمند اوردریائے جہلم پر پتن بن رہا ہے۔ جو امید ہے کہ تین سال میں مکمل ہوجائیں گے۔ تاہم، ملک کو اب بھی چھوٹے بڑے کئی ڈیمز کی اشد ضرورت ہے۔نیز،پن بجلی اور سولر انرجی کا تناسب زیادہ رکھا جائے۔ مائیکرو گرڈز دیہات میں نصب کیے جائیں، ورنہ اس حوالے سے پیدا ہونے والا انتشار خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ اور’’تنگ آمد، بجنگ آمد‘‘ کے مصداق کسی وقت عوام کا پیمانہ صبر لبریز بھی ہوسکتا ہے۔