• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں لاہور کی ایک یونی وَرسٹی میں ایک ایسا فلمی، مخرّبِ اخلاق ،بے ہودہ واقعہ پیش آیا، جس سے معاشرے کی اقدارو روایات کی تباہی کا عکس صاف جھلک رہا تھا اور جس کا ذکر وزیراعظم،اسلامی جمہوریہ پاکستان نے اپنے انٹرویوز میں بھی کیا۔ واقعہ کچھ یوں تھا کہ مغربی لباس زیبِ تن کیے، ہاتھوں میں گل دستہ تھامے ،گُھٹنوں کے بل بیٹھی ایک لڑکی ، اپنے ساتھی طالب علم کوایک گل دستہ پیش کررہی ہے، جس کا مقصد لڑکے کو پروپوز کرنا ہے۔

جواباً لڑکے نے بے اختیار لڑکی کو بانہوں میں لے لیا، دونوں گلے ملے اور… یہ منظر وہاں موجود کئی طلبہ نے دیکھا اور فلم بند کیا، جو بعد میں وائرل ہوا۔ یہی نہیں، اس واقعے کے چند روز بعد ایک اور لڑکی کی ویڈیو سامنے آئی، جو اپنی سہیلیوں کی موجودگی میں اسی طرح ایک لڑکے کو پروپوز کر رہی تھی ۔ مذکورہ بالا واقعات تو صرف وہ ہیں، جو سوشل میڈیا کے ذریعے منظرِ عام پر آگئے، لیکن جو منظرِ عام پر نہیں آتے، ان کی تعداد کتنی ہو گی، محض اندازہ ہی لگایا جا سکتاہے۔ خیر، یونی وَرسٹی آف لاہور کی انتظامیہ کوداد دینی پڑے گی کہ جس نے فی الفور اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے طلبہ کو انکوائری کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کو کہا اور طلبہ کے حکم نہ ماننے پر انہیں یو نی وَرسٹی سے فارغ کر دیا گیا۔

یقیناً کوئی بھی یونی وَرسٹی اس طرح کا انتہائی قدم اُٹھانے سے پہلے کم از کم دس بار سوچتی ہے کہ اس طرح اس کی اپنی ساکھ کو بھی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہوتا ہے، لیکن مذکارہ یو نی وَرسٹی نے یہ قدم یقیناًاس لیے اُٹھایا تاکہ باقی طلبہ عبرت حاصل کرکے تعلیمی اداروں کا تقدّس پا مال کرنے سے پہلے ہزار بار سوچیں۔ تعلیمی ادارے میں اس طرح کی غیر اخلاقی سرگرمی نے معاشرے کے ہر ذی شعورکو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور والدین سمیت اساتذہ بھی یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ آخر نسلِ نو کی تربیت میں کہاں کو تاہی ہو رہی ہے، لیکن اس موقعے پر ریاستِ مدینہ کے نام لیوا چند حکومتی وزرا اور وزراتِ انسانی حقوق کا مؤقف سمجھ سے بالاتر ہےکہ وزیرِ مملکت برائے پارلیمانی اُمور، علی محمّد خان کا کہنا ہےکہ’’ جامعہ لاہور میں دو طلبہ کے متنازع عمل پہ اُنہیں جامعہ سے نکالنا مسئلےکا حل نہیں، ان کا تعلیمی مستقبل تاریک ہو جائےگا۔

یہ ہمارے ہی بچّے ہیں ان کا یہ عمل غیر شرعی تھا،سزا ملنی چاہیے تھی، لیکن کم۔‘‘ یہاں ہمارا علی محمّد خان سے سوال ہے کہ آپ کو دو بچّو ں کے مستقبل کی تو فکر ہے، لیکن اُن کی وجہ سے جن درجنوں لڑکیوں کے ایڈمیشن فارمز اُن کے ہاتھوں ہی میں رہ جائیں گے ، اس کا کیا؟دوسری جانب،وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فوّاد چوہدری کا کہنا ہے کہ’’ مرضی سے شادی ہر لڑکی کا بنیادی حق ہے، اسلام عورتوں کو جو حقوق دیتا ہے، مرضی کی شادی ان حقوق میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے، یونی وَ ر سٹی انتظامیہ اپنے فیصلے پر نظرِثانی کرے۔‘‘ تو وفاقی پارلیمانی سیکریٹری انسانی حقوق ،لال چند مالہی نے گورنر پنجاب اور یونی ورسٹی کے وائس چانسلر کو خط لکھ کر دونوں طلبہ کو دوبارہ داخلہ دینے کا مطالبہ کر دیا۔

ہمارا تو خیال ہے وزیر اعظم پاکستان کو اس غیر اسلامی فعل پر طلبہ کا ساتھ دینے والے وزرا کے خلاف بھی انکوائری بٹھا دینی چاہیےکہ ایسے وزرا دورِ حاضر کے ’’ابو جہل‘‘ ہی ہیں۔ ہم نے’’طلبہ کو نکالے جانے پریونی ورسٹی آف لاہور کی انتظامیہ کے مؤقف سے اتفاق و اختلاف، تعلیمی اداروں میں روز افزوں بڑھتی عُریانی و فحاشی اور جامعات میں اس قسم کے واقعات سے معاشرے پر مرتّب ہونے والے اثرات کے حوالے سے چاروں صوبوں کی ممتاز یونی ورسٹیز کے وی سیز، اسلامک اسکالر اور چند طلبہ سے اُن کی رائے جاننا چاہی کہ وہ اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
ڈاکٹر سروش لودھی

این ای ڈی یونی وَرسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ، ڈاکٹر سروش حشمت لودھی کچھ یوں گویا ہوئے ’’ 1986ء کی بات ہے، مَیں اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکا گیا ۔ مجھے یاد ہے کہ جب مَیں پہنچا تو رات ہو رہی تھی، طویل سفر کی بھی تھکاوٹ تھی تو مَیں ہاسٹل جاتے ہی سوگیا۔ جب صبح اُٹھا ، باہر نکلا،تو یوں لگا کہ یہ تو کوئی اور ہی دنیا ہے کہ اُس زمانے میں پاکستان میں ’’گورے‘‘ اور پینٹ شرٹ میں ملبوس خواتین صرف فلموں ہی میں دکھائی دیتی تھیں۔

یونی وَرسٹی گیا، تعلیمی سلسلہ شروع ہوا تو مختلف ایّام جیسے ویلنٹائن ڈے، فادرزڈے، مدرز ڈے، فرینڈشِپ ڈے وغیرہ کا پتاچلا۔ مَیں اپنے گھر مہینے میں ایک بار فون کرتا اور وہ کال بھی طویل نہیں، انتہائی مختصر ہوتی تھی کہ لمبی کالز کے پیسے ہی نہیں ہوتے تھے۔ یہاں اپنی زندگی کا ذاتی تجربہ شیئر کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ ہمارے زمانے میں زندگی کتنی سادہ اور آسان تھی۔

ہم تعلیمی اعتبار سے کسی سے کم نہیں تھے، لیکن وہ دنیا ، آج کی دنیا سے بہت الگ تھی۔ عصرِ حاضر میں ٹیکنالوجی کی ترقّی سے دنیا گلوبل ویلیج تو بن گئی، ہمارے بچّوں کے ہاتھ موبائل فون نامی طلسماتی ڈیوائس بھی آگئی، لیکن اس کی وجہ سے جو بگاڑ پیدا ہوا اور ہو رہا ہے، وہ نا قابلِ برداشت ہے۔ مَیں یہ ہر گز نہیں کہہ رہا کہ نسلِ نو کو ٹیکنالوجی سے بے بہرہ کر دیا جائےکہ آگے بڑھنے کے لیے دنیا کے قدم سے قدم ملانا انتہائی ضروری ہے، لیکن سوشل میڈیا، انٹرنیٹ، موبائل فون وغیرہ کا استعمال مغربی کلچر اپنانے کے لیے نہیں، ان کی ترقّی کا راز حاصل کرنے کے لیے ہونا چاہیےتھا، جو بد قسمتی سے نہیں ہو رہا۔ ہمارے معاشرے میں مغرب کا اثر ورسوخ اس قدر بڑھ چُکا ہے کہ مجھے تو لگتا ہے آنے والے کچھ برسوں میں ہمارا رہن سہن، رکھ رکھاؤ، رسوم و رواج، روایات سب ختم ہوجائیں گی۔

پہلے زمانے میں تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی زور دیا جاتا تھا، گھروں میں بزرگ اور کلاس رومز میں اساتذہ بچّوں کی اخلاقی تربیت پر بہت دھیان دیتے تھے، لیکن آج تو ماد رپدر آزا د معاشرہ پروان چڑھ رہا ہےاور اس مورال لیس سوسائٹی کے ذمّے دار کہیں نہ کہیں ہم سب ہی ہیں کہ والدین یہ دیکھ کر خوش ہوتے ہیں کہ ہماری اولادفر فر انگریزی بول رہی ہے، مگریہ انگریزی وہ کس قِسم کی فلمیں، گانے دیکھ کر سیکھ رہی ہے، اس سے اُنہیں کوئی سرو کار نہیں۔

اسی طرح اساتذہ کو لگتا ہے کہ بس نصاب پورا کروانا ہی اُن کی ذمّے داری ہے۔ جب تک ہم بچّوں کے لیے حدود کا تعیّن نہیں کریں گے، انہیں اچھے بُرے کی تمیز نہیں سکھائیں گے، اپنی اقدار سے روشناس نہیں کروائیں گے، تب تک تعلیمی اداروں کے اندر یا باہر اس قسم کی غیر اخلاقی سرگرمیاں جاری رہیں گی۔ 

یہاں مجھے اپنے بچپن کا ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے کہ جب ہم سپارہ پڑھنے جاتے تھے تو وہاں بھی ہماری دینی تربیت ہو تی تھی کہ ہم نے دین پڑھا نہیں، سیکھا ہے۔ آج کل بچّوں کو اسلامی تعلیمات نہیں دی جاتیں۔ انہیں دین پڑھایا تو جاتا ہے، سکھایا نہیں جاتا، تو جب تک ہم نوجوانوں کو اسلام سکھائیں گے نہیں، اللہ کے حکم کے تابع نہیں کروائیں گے ،تب تک وہ کیسے اس پر عمل کر سکیں گے؟ اب جہاں تک بات ہے لاہور یونی وَرسٹی میں پیش آنے والے واقعے کی تو اس حوالے سے مَیں یہی کہوں گا کہ پسند کی شادی کرنے میں کوئی قباحت نہیں ، لیکن طلبہ نےجو راستہ اختیار کیا ، وہ سراسرغلط تھا۔ اُن کی اس حرکت پرپورا معاشرہ ہی ششدر ہے۔

اگر ان کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تو باقی طلبہ کی بھی حوصلہ افزائی ہوتی،تعلیمی ادارے کا ماحول خراب ہوتا، تو برائی کو روکنے کے لیے فی الفور ایکشن لینا ضروری تھا۔ اس موقعے پر یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ کچھ وزرا اور وزارتِ انسانی حقوق نے بھی طلبہ کے حق میں آواز اُٹھائی، تو ذرا ایک بات بتائیں، جب کوئی ملعون، ہماری مقدّس، محترم شخصیات کے توہین آمیز خاکے بناتا ہے اور مسلمان احتجاج کرتے ہیں، تو مغرب کی جانب سے یہی مؤقف اختیار کیا جاتا ہے ناں کہ یہ تو بنیادی انسانی حق ہے کہ انسان جو چاہے، وہ کرے، پر ہم احتجاج کرتے ہیں، جو درست ہے، تو انسانی حقوق کی آڑ میں ہر غلط عمل کو درست تسلیم نہیں کیاجا سکتا۔

ہماری یونی وَرسٹی میں کوئی یونی فارم نہیں ہے، لیکن ڈریس کوڈ ہے کہ ہر طالبِ علم کے لیے ڈیسینٹ، موڈیسٹ ڈریسنگ کرنا لازم ہے۔ علاوہ ازیں، مجھے اچھی طرح ادراک ہے کہ نوجوانی کا دَور جوش و جذبے، انرجی سے بھرپور ہوتا ہے، تو اگر اس توانائی کو مثبت سرگرمیوں ، جیسے مباحثوں، تقریری ، کوئزمقابلوں وغیرہ میں استعمال کیا جائےتو اس کے بہترین نتائج سامنے آتے ہیں اور مَیں نے اپنی یونی وَرسٹی میں یہی حکمتِ عملی اپنائی ہوئی ہے۔ ‘‘

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
پروفیسر ڈاکٹر سلیم مظہر

یونی وَرسٹی آف پنجاب کے پرو وائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر محمّد سلیم مظہر نے مختصر الفاظ میں اپنے خیالات کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ ’’ مَیں بطور پرو وی سی نہیں، بطور والد مخاطب ہوںاور فکر مند بھی ہوں۔ ہمارا معاشرہ ہماری روایات، اقدار، اخلاقیات، تہذیب و تمدّن کوئی بھی ان باتوں کی اجازت نہیں دیتا، جن پر آج کی نسلِ نو چل پڑی ہے۔ میرے لیے اس مُلک کے نوجوانوں اور میرے اپنے بچّوں میں کوئی فرق نہیں، لہٰذا جو ماحول، رہن سہن مَیں اپنی اولاد کے لیے پسند نہیں کرتا، وہ مَیں کسی بھی بچّے کے لیے پسند نہیں کر سکتا۔ ‘‘

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
پروفیسر ڈاکٹر آصف تنویر

یونی وَرسٹی آف ایگری کلچر، فیصل آباد کے پرو وی سی، ڈاکٹر آصف تنویر کا(جن کے پاس وی سی کا اضافی چارج بھی ہے) کہنا ہے کہ ’’پہلے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ ’’ماں کی گود بچّے کی پہلی درس گاہ ہوتی ہے‘‘لیکن آج کل تو ماں کی گود ہی میں بچّے کے ہاتھ موبائل فون تھما دیا جاتا ہے، تو تربیت کیا خاک ہوگی؟ تعلیمی اداروں میں جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے، اس کا ذمّے دار کوئی ایک فرد یا ادارہ نہیں، مِن حیث القوم ہم سب ہیں کہ گھروں میں والدین کی توجّہ بچّے کی تربیت پر نہیں، سوشل میڈیا پر اس کی تصاویر اور ایکٹیویٹیز اَپ لوڈ کرنے پر ہوتی ہے اور تعلیمی اداروں میں اساتذہ نے اپنا کام صر ف بر وقت کلاس میں آنے، لیکچر دینے اور نصاب پوراکروانے ہی تک محدود کرلیا ہے۔ 

ایسے میں نسلِ نو تعلیم تو حاصل کر رہی ہے، لیکن تربیت نہیں۔ نوجوان دن بھر سوشل میڈیا پر مگن رہتے ہیں اور کورونا وائرس کی وجہ سے اسکرین ٹائم اور بھی بڑھ گیا ہے۔ اوّل تو اب جوائنٹ فیملی سسٹم ناپید ہی ہوتا جا رہا ہے اور جہاں ہے بھی، وہاں گھر کے بڑے ،بچّوں پر روک ٹوک نہیں کرتے۔ سب اپنی اپنی زندگیوں میں کچھ اس طرح مگن ہیں کہ نسلِ نو بُری طرح نظر انداز ہو رہی ہے۔ ان پر کوئی چیک اینڈ بیلنس ہی نہیں۔ آج کل غلط کو غلط کہنے والے ، مشرقی روایات، اقدار کی بات کرنے والے کو دقیانوسی یا بیک وَرڈ کہا جاتا ہے۔ 

جہاں تک بات ہے، گزشتہ دنوں جامعہ میں پیش آنے والے واقعے کی، تو اگر طلبہ نے یونی ورسٹی کے کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی تھی، توجامعہ کو ان کے خلاف انکوائری بٹھانی چاہیے تھی اور اگر ایسا ہوا اور طلبہ اس کمیٹی کے سامنے پیش نہیں ہوئے تو جامعہ نے درست فیصلہ کیا کہ تعلیمی ادارے میں نظم و ضبط قائم رکھنا انتہائی ضروری ہے اور تمام طلبہ اپنے اپنے تعلیمی اداروں کے قواعد و ضوابط کے پابند ہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب والدین اپنی بیٹیوں کو جامعات میں بھیجتےہوئے ڈریں گے، تو مَیں اس بات سے متّفق نہیں کہ جنہیں اپنی تربیت پر بھروسا ہے، وہ ایسا کچھ نہیں کریں گے اور جنہیں نہیں بھیجنا ،وہ خواتین کے لیے قائم الگ تعلیمی اداروں میں بھی نہیں بھیجتے۔ ‘‘

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن

جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر،پروفیسر ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’’ معاشرے میں تعلیمی اداروں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے اور ہمارے تعلیمی ادارے اپنا مثبت کردار ادا کررہے ہیں۔ دیکھا جائے تو دنیا بھر میں تعلیمی اداروں میں مختلف واقعات پیش آتے رہتے ہیں، مگر ایک استاد کی ذمّے داری ہے کہ وہ طلبہ کی بہترین رہنمائی کرے، انہیں تعلیم و تربیت مہیا کرے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہر تعلیمی ادارے کی ایک داخلہ پالیسی ہوتی ہے، جس کی پاس داری طلبہ پر لازم ہے، اگرکوئی طالبِ علم اس کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پکڑا جاتا ہے، تو وہ سزا کا حق دار ہے۔

بطور معلّم اور ایک ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے مَیں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی بھی استاد یا تعلیمی ادارہ یہ نہیں چاہتا کہ طلبہ کو نکالا جائے، تعلیم سے دُور رکھا جائے یا سزا دی جائے کہ اس سے تعلیمی ادارے کی بھی بد نامی ہوتی ہے اور ہمارا کام نسلِ نو کو تعلیم فراہم کرنا ہے، اس سے دُور رکھنا نہیں۔ لیکن ہم یہ بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ ہمارا معاشرہ مذہبی ، مشرقی روایات پر مبنی معاشرہ ہے، جن کی پاس داری کرنا، جن کے تحت کام کرناہم سب کا فرض ہے۔

ہماری اقدار ہمیں بہت سی باتوں کی اجازت نہیں دیتیں، تو طلبہ کو بھی ان کا خیال رکھنا چاہیے۔ جامعات کا مقصد اعلیٰ تعلیم و تحقیق کو فروغ دینا، ذہن سازی کرنا ہے، ان کی حدود میں یہی امور انجام پانے چاہئیں۔ علاوہ ازیں، ہمارا مذہب بھی کسی بھی غیر اخلاقی رویّے، بے حیائی کے فروغ کی اجازت نہیں دیتا۔

ہمارا اپنا کلچر، رسوم و رواج اور مذہبی تہوار بہت خوب صُورت ہیں ،تو ہمیں مغربی کلچر اپنانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اگر مغربی ممالک کی تقلید کرنی ہی ہے توتعلیم و تحقیق اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کریں کہ جنہیں زینہ بنا کر وہ ترقّی یافتہ کہلائے۔ جہاں تک ایک جامعہ سے نکالے جانے والے طلبہ کے حق میں آواز اُٹھانے والے وزار کی بات ہے تو اس حوالے سے مَیں یہی کہوں گا کہ ہم کسی کو بھی اپنے ادارے کی پالیسزو تعلیمی معاملات میں مداخلت کی اجازت نہیں دیتےکہ اپنے تعلیمی معاملات ہم خودبہتر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح جس یونی وَرسٹی نے اپنے طلبہ کو فارغ کیا ، یقیناً وہ اپنا کوڈ آف کنڈکٹ بہتر طور پر سمجھتی ہوگی، وزرا نہیںاور تعلیمی اداروں کو معاشرے کی بہتری میں اپنا کردار جاری رکھنا چاہیے۔یوں بھی رواں صدی میں وہی اقوام آگے بڑھ سکتی ہیں،جو تعلیم و تحقیق کو اپنا نصب العین بنائیں۔ ‘‘

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ جبیں

سابق وائس چانسلر، سردار بہادر خان ویمن یونی وَرسٹی ، بلوچستان، پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ جبیں کا اس ضمن میں موقف ہے کہ ’’ مَیں یونی ورسٹی آف لاہور کی انتظامیہ کے فیصلےسے متّفق نہیں، طلبہ کو نکالنا نہیں چاہیے تھا۔ جب ہم قائد اعظم یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے، اس قسم کے واقعات پیش آتے تو انتظامیہ اپنے طور پر سخت ایکشن لیتی ، بعض اوقات سیمسٹر ڈراپ کر دیا جاتا یا والدین کو طلب کیا جاتا اور تحقیقاتی کمیٹی بنا کر واقعےکی تحقیق کی جاتی ، جس سے ادارے کی ساکھ کو بھی نقصان نہیں پہنچتا اور ایسے کیسز احسن انداز میں حل ہو جاتے ۔

میرے خیال میں سوشل میڈیا ، خاص طور پر فیس بک ،یو ٹیوب ،ٹِک ٹاک جیسی ایپلی کیشنز نے ہماری اقدار، نسلِ نو کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے ۔اس کے علاوہ جب مخلوط تعلیم ہوگی تو لازماً ایسے واقعات جنم لیں گے، ایسے میں والدین، اساتذہ کی ذمّے داری ہے کہ وہ بچّوں کو تعلیمی اداروں کی حدود و قیود سے آگاہ کریں،ان کی بہتر انداز میں تربیت کریں ۔ پھر اساتذہ کی بھی ذمّے داری ہے کہ وہ معاشرے میں پھیلتی عریانی، فحاشی پر قابو پانے کے لیے طلبہ کی بہتر انداز میں رہنمائی کریں۔

جب مَیں وی سی تھی تو مَیں خود کو اپنے ادارے میں زیرِ تعلیم بچیوں کی ماں سمجھتی تھی اور یہی کوشش کرتی کہ ان پر کڑی نظر رکھوں۔ وقتاً فوقتاً کلاسز میں اخلاقیات، حیا، اقدار پر لیکچرز بھی دیتی اور انہیں کہتی کہ یونی وَرسٹی کو مدرسہ سمجھیں اور اپنی توجّہ تعلیم و تربیت پر مرکوز رکھیں ۔ 

بہر حال، یونی وَرسٹی میں طلبہ کی جانب سے ایک دوسرے کو شادی کی پیش کش کرنا درست نہیں ،اگر کوئی کسی کو پسند کرتا بھی ہے تو اسے چاہیے کہ اپنے والدین کو اعتماد میں لےاور معاشرتی اقدار مدِنظررکھتے ہوئے مستقبل کا فیصلہ کرے۔ جہاں تک بات ہے تعلیمی اداروں میں پیدا ہونے والے بگاڑ کی تو ہمارے معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے، اس کے نتائج تعلیمی اداروں میں بھی نظر آ رہے ہیں۔ اگر ایک باپ اپنی اولاد کو رزقِ حلال نہیں کھلائے گا تو وہ اس سے اچھے اعمال کی توقع کیسے رکھ سکتا ہے۔ 

پھر یہ طالبات جس قسم کی ڈریسنگ کرکے کالج، یونی وَرسٹی جاتی ہیں، کیا وہ ان کی ماؤں کو نظر نہیں آتا؟ سو، والدین گھر کی سطح پر درست انداز میں تربیت کریں اور اساتذہ کا بھی فرض ہے کہ طلبہ کو اپنے بچوں کی طرح سمجھائیں،اچھے برے کی تمیز سکھائیں ۔کوئی بھی ادارہ ڈسپلن کی خلاف وَرزی پر سمجھوتا نہیں کرتا، لیکن انتہائی قدم اُٹھانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔‘‘

’’آج کل تعلیمی اداروں میں مغرب کی طرز پر مختلف ایّام منانے کا بھی ٹرینڈ چل نکلا ہے، اس حوالے سے کیا تاثرات ہیں؟‘‘ اس سوال کے جواب میں پروفیسر ڈاکٹر رخسانہ کا کہنا تھا کہ ’’یونی وَرسٹیز میں صرف مغرب کی طرز پر دن نہیں منائے جاتے ، بلکہ مختلف کانفرنسز ،سیمینار ز،بک فیئرز اور دیگر تقاریب بھی ہوتی ہیں۔ دراصل یونی ورسٹیز کا ڈومین بہت وسیع ہوتا جا رہا ہے، مختلف نوعیت کے پروگرامز ہوتے ہیں، جن میں طلبہ کومیں رابطوں کے بھی کافی مواقع ملتے ہیں ، تو ہم ان کا میل جول تونہیں روک سکتے ، لیکن اچھے بُرے کی تمیز ضرور سکھا سکتے ہیں۔ نیز، والدین کو بھی چاہیے کہ اپنے بچّوں کو معاشرتی رویّوں اور تیزی سے بدلتے ہوئے دَور کے فوائد و نقصانات سے آگاہ کریں۔‘‘

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
پروفیسر ڈاکٹر، ضیاءالحق

خیبر میڈیکل یونی وَرسٹی کےوائس چانسلر، پروفیسر ڈاکٹر، ضیاءالحق نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ’’جامعات میں آنے والے طلبہ کی عادات، اطوار اور ذہن پختہ ہو چُکے ہوتے ہیں، وہ اپنا بھلا ،بُرا خُوب سمجھتےہیں۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بچپن ہی میں تعلیم کے ساتھ بہترین تربیت بھی دی جائے۔دینی تعلیم کا لازماً اہتمام ہو۔ اخلاقیات سکھائی جائیں۔ اقدار وروایات منتقل کی جائیں۔ 

آج کل کے بچّے خود مختار ہیں، ہمارے دَور کی طرح نہیں کہ جو والدین نے کہہ دیا ،سر جھکا کرمان لیا۔اب تو کم عُمری ہی سےان کی شخصیت سازی، ذہن سازی پر توجّہ دینی ہوگی۔ علاوہ ازیں، جامعات میں ڈریس کوڈ ہونا چاہیے تاکہ بچّے نظم و ضبط کے تحت رہیں۔ جو کچھ لاہور یونی وَرسٹی میں ہوا اس کے بعد مخلوط نظامِ تعلیم کو برا کہنا جائز نہیں کہ ہم تو میڈیکل فیلڈ میں ہیں ۔بالفرض گرلز، بوائز میڈیکل کالجز الگ کر بھی دئیے جائیں تو عملی زندگی میں تو انہیں ساتھ ہی کام کرنا پڑے گا، تب کیا ہوگا؟ لہٰذا میرے خیال میں ہمیں اپنے بچّوں کو تعلیم کے ساتھ بہترین تربیت فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ کسی بھی موقعے پروالدین، خاندان یا تعلیمی ادارے کے لیے شرمندگی کا باعث بنیںاور نہ ہی انہیں خود کوئی پریشانی ہو۔‘‘

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی

مذکورہ واقعے کے حوالے سے جماعتِ اسلامی کی رہنما ،ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی کا کہنا ہے کہ ’’تعلیم اپنے وسیع تر معنوں میں وہ چیز ہے، جس کے ذریعے لوگوں کے کسی گروہ کی عادات اور اہداف ایک نسل سے دوسری نسل میں منتقل ہوتے ہیں اوراپنے تیکنیکی معنوں میں اس سے مراد وہ رسمی طریقۂ کار ہے، جس کے ذریعے ایک معاشرہ اپنا مجموعی علم، ہنر، روایات اور اقدار ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتا ہے۔

عموماً یہ تربیت گھروں اور ابتدائی تعلیمی اداروں سے ملتی ہے کہ تعلیم کے ساتھ تربیت بھی بہت اہم ہے،مگر بد قسمتی سےآج کل نوجوانوں کی کردار سازی نہیں ہو رہی اورا س کے ذمّے دار والدین اور اساتذہ دونوں ہی ہیں۔البتہ، اتنے بگاڑ کے بعد بھی مَیں یہی کہوں گی کہ اب بھی وقت ہے، نقصان تو ہوا ہے، لیکن معاشرہ برباد نہیں ہوا تو ہمیں اپنا فیملی سسٹم بچانے کی اشد ضرورت ہے۔

ہم بحیثیتِ قوم، نسلِ نو کی تربیت سے پہلو تہی کر رہے ہیں کہ والدین نے ساری ذمّے داری تعلیمی اداروں پر ڈال دی ہے اور اساتذہ صرف نصاب رٹوانے اور ڈگری دینے کو اپنی ذمّے داری گردانتے ہیں،اس طرح ہم نے طلبہ کو تعلیمی نظام کے گھن چکّر میں الجھا کے رکھ دیا ہے، جس سے نقصان صرف اور صرف مُلک و ملّت کا ہو رہا ہے۔ جہاں تک ایک تعلیمی ادارے میں شادی کی پیش کش کے حالیہ واقعے کی بات ہے ، تو مَیں یہی کہوں گی کہ خاندان ایک مقدّس الہامی ادارہ ہے، جو نکاح کے خوب صُورت بندھن سے وجود میں آتا ہے۔ ہمارے معاشرتی نظام میں یہ بندھن صرف ایک لڑکا ، لڑکی کے نہیں، دو خاندانوں کے مضبوط تعلق پر استوار ہوتا ہے۔ 

گرچہ اسلام دو بالغ، عاقل لوگوں کو اپنی رائےکی آزادی کا پورا پوراحق دیتا ہے، مگر ہماری معاشرتی اقدار اور مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے میں بہت فرق ہے۔ اپنی پسندیدگی کے اظہار کا بھی مہذّب طریقہ ہونا چاہیے۔ مَیں اپنے بچّوں کو بتانا چاہوں گی کہ مغربی ممالک میں بھی جامعات اور تعلیمی اداروں میں اس طرح کی عامیانہ حرکتوں کو پسند نہیں کیا جاتا۔ 

دوسری جانب والدین اور اساتذہ کو بھی اپنے بچّوں کوشرم و حیا اورمشرقی آداب و اقدار کا امین بنانا چاہیے۔ تعلیمی اداروں میں یہ جو بگاڑ پیدا ہو چُکا ہے، اسے ہم سب نے مل کر ٹھیک کرنا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺکی تعلیمات کو بڑی نرمی و شائستگی سے نسلِ نو کے قلوب و اذہان میں نقش کرنا ہے۔

دوسری جانب محکمۂ تعلیم کو بھی چاہیے کہ تمام تعلیمی اداروں کو ضابطۂ اخلاق کا پابند بنائےکہ اللہ اللہ کرکے اب لوگ اپنی بیٹیوں کو مخلوط تعلیمی اداروں میں بھیجنے پر آمادہ ہوئے ہیں، تواس طرح کی حرکتوں سے اکثریتی والدین اپنی بچیوں کو تعلیمی اداروں میں بھیجتے ہوئے کترائیں گے، تحفظّات کا شکار ہوں گے۔ یوں بھی اب تو یورپ، امریکا میں بھی لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ تعلیمی اداروں کے بہتر نتائج کی بدولت مخلوط تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھی بہت زور دیا جارہا ہے۔‘‘

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
محمّد معاذ ارشد

متذکرہ موضوع پر طلبہ کی آراء جاننے کے لیے ہم نے فیڈرل اُردو یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم محمّد معاذ ارشد سے بات چیت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ’’لاہور کی جامعہ نے طلبہ کے خلاف جو ایکشن لیا، وہ بالکل درست ہے کہ ہم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی پکنک پوائنٹ، ریسٹورنٹ اور تعلیمی ادارے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ تعلیمی ادارے کی کچھ حدودو قیود ہوتی ہیں، جن کی پاس داری مجھ سمیت ہر طالبِ علم پر لازم ہے۔ علا وہ ازیں، ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ ہم ایک اسلامی مملکت میں رہتے ہیں اور یقیناً ہمارا دین پسند کی شادی کی ممانعت نہیں کرتا، لیکن بے حیائی کے فروغ کی بھی اجازت نہیں دیتا۔

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
علیشہ پیر محمّد

اس طرح کے واقعات سے معاشرے میں بھی برائی ، بے حیائی پھیلتی ہے، تو ہم کیوں ایسا کوئی کام کریں، جو ہماری آنے والی نسل کے لیے خرابی کا باعث بنے۔‘‘ علیشہ پیر محمّد شعبۂ ابلاغِ عامّہ میں زیرِ تعلیم ہیں،وہ کچھ یوں گویا ہوئیں ’’نہ صرف ایک تعلیمی ادارہ، بلکہ ہر ادارے کے کچھ اصول و قوانین ہوتے ہیں، جنہیں فالو کرنا وہاں کام کرنے والوں یا تعلیم حاصل کرنے والوں پر لازم ہوتا ہے۔ جیسے اگر کوئی مُلکی قوانین کی خلاف ورزی کرے، تو اسے سزا ملتی ہے، بالکل اسی طرح یونی ورسٹی کے اصولوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کو بھی سزا ملی، جو بالکل ٹھیک ہے۔ 

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
کاجل علی

یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ایک تو ویسے ہی ہمارے یہاں لڑکیوں کی تعلیم پر خاص توجّہ نہیں دی جاتی، تو اس طرح کی غیر اخلاقی سرگرمیوں سے تو والدین مزید ڈر جائیں گے اور اپنی بچیوں کو جامعات بھیجنے ہی سے کترائیں گے، تو جو لوگ لاہور یونی ورسٹی کے طلبہ کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں، تو وہ ذرا اس کے آنے والے اثرات پر بھی غور کرلیں۔ ‘‘ کاجل علی کا کہنا ہے ’’میرے خیال میں طلبہ کو نکال کر یونی ورسٹی نے بہت اچھا کیا تاکہ باقی بچّوں کو سبق مل جائے۔ اور اس حوالے سے سوشل میڈیا نے انتہائی اہم کردار ادا کیا کہ اگر وہ ویڈیو وائرل نہیں ہوتی تو شاید یونی ورسٹی انتظامیہ بھی فی الفور ایکشن نہ لیتی۔ 

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
فیصل عبّاس

مَیں بھی کسی کی بیٹی ہوں، اس لیے والدین کے خدشات بہت اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں ، اس واقعے کے بعد نہ جانے کتنی لڑکیاں اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جائیں گی۔ ‘‘ 

فیصل عبّاس بھی فیڈرل اردو یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم ہیں، ان کا کہنا ہے کہ ’’ اگر سزا کے طور پر اس لڑکے، لڑکی کو نکالا گیا، تو وہاں موجود تمام طلبہ کو بھی نکالنا چاہیے تھا۔ 

اس واقعے کی ویڈیو بن گئی تو ثبوت سامنے آگیا ورنہ مُلک بھر کی جامعات میں اس طرح کے متعدّد واقعات ہوتے رہتے ہیں، کلاس رومز میں بھی پروپوز کیا جاتا ہے، مگر اس پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا کہ اس کی ویڈیو نہیں بنتی۔‘‘

تعلیمی اداروں میں بڑھتی بے حیائی
عبد القیوم

عبد القیوم نے کہا ’’بد قسمتی سے یونی ورسٹیز میں اس طرح کے واقعات عام ہیں، کچھ فلم بند ہوجاتے ہیں اور کچھ نہیں۔ 

بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی سوسائٹی سے مغربی ذہنیت کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ ہم اس مُلک کا مستقبل ہیں، اگر ہم ہی اپنی روایات فراموش کرکے مغرب کی اندھی تقلید کریں گے تو ہمارا اپناکلچر دَم توڑ دے گا۔‘‘

تازہ ترین