گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے سی پیک نے کراچی میں سی پیک میں اسپیشل اکنامک زونز کے کردار پر ایک ریجنل ڈائیلاگ کا اہتمام کیا جس میں کمیٹی کے چیئرمین شیر علی ارباب کے ساتھ کمیٹی میں شامل قومی اسمبلی کے دیگر ممبران اور حکومت سندھ کے متعلقہ محکموں کے سیکریٹریز کے علاوہ مجھے اور کراچی چیمبر کے صدر شارق وہرہ کو ’’سی پیک اسپیشل اکنامک زونز کے ذریعے صنعتی ترقی‘‘ پر اظہار خیال کیلئے مدعو کیا گیا تھا۔ ریجنل ڈائیلاگ میں جرمن کمپنی FES کے ڈاکٹر جوچین ہلپر، چینی قونصلیٹ کے کمرشل قونصلر، سی پیک کے سابق پروجیکٹ ڈائریکٹر حسن دائود بٹ، حکومت سندھ کے پلاننگ اور ڈویلپمنٹ سیکریٹری محمد وسیم، بورڈ آف انویسٹمنٹ کے سیکریٹری آصف اکرم اور سندھ اسپیشل اکنامک زونز مینجمنٹ کمپنی کے اعلیٰ عہدیداران نے حصہ لیا۔ کسی بھی ملک کی صنعتی ترقی اور ایکسپورٹ کے فروغ میں اسپیشل اکنامک زونز اور ایکسپورٹ پروسیسنگ زونز نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ دنیا میں پہلا اسپیشل اکنامک زون 1959ء میں چین کے شہر شینان میں قائم کیا گیا تھا۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت 130ممالک میں 4300 اسپیشل اکنامک زونز قائم ہیں۔ بیرونی سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ کے فروغ کیلئے اِن زونز کو بندرگاہوں کے قریب قائم کیا جاتا ہے اور زونز میں قائم کمپنیوں کو ٹیکس مراعات دی جاتی ہیں۔ دنیا میں چین میں سب سے زیادہ 1800 اسپیشل اکنامک زونز ہیں جنہوں نے 1980 ءسے چین کی صنعتی ترقی اور ایکسپورٹس میں اضافہ کیا ہے۔ 1979میں اکنامک ریفارمز سے پہلے چین کی فی کس آمدنی پاکستان کی فی کس آمدنی سے کم تھی لیکن آج چین کی فی کس آمدنی 8069 ڈالرتک پہنچ گئی ہے جبکہ پاکستان کی فی کس آمدنی 1400 سے 1500 ڈالر تک محدود ہے۔ پاکستان نے سی پیک میں 37اسپیشل اکنامک زونز تجویز کئے تھے لیکن 9زونز کی منظوری ہوئی ہے جس میں دھابیجی ٹھٹھہ، رشکئی خیبرپختونخوا، پورٹ قاسم کراچی، ICT ماڈل انڈسٹریل زون، علامہ اقبال انڈسٹریل سٹی، موکپونداس گلگت بلتستان، میرپور اسپیشل اکنامک زون، بوستان انڈسٹریل زون اور مہمند ماربل سٹی شامل ہیں۔ پہلے مرحلے میں 4 اسپیشل اکنامک زونز قائم کئے جائیں گے جن میں سے 3 پر کام شروع کیا جاچکا ہے جن میں خیبرپختوامیں رشکئی اکنامک زون، فیصل آباد اور کراچی کے قریب دھابیجی اسپیشل اکنامک زونز شامل ہیں۔ میں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ پاکستان میں اب تک ایکسپورٹ پروسیسنگ زون اور اسپیشل اکنامک زون کا تجربہ کامیاب نہیں رہا ،دیگر ممالک کی طرح ہم ان زونز کے ذریعے ایکسپورٹ اور بیرونی سرمایہ کاری نہیں بڑھاسکے۔ کراچی میں قائم سب سے قدیم ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی اب تک ایکسپورٹ 600ملین ڈالر سالانہ سے نہیں بڑھ سکی جبکہ مراکو کے صرف ایک تنجیر ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی ایکسپورٹ 9 ارب ڈالر سالانہ ہے۔ 2سال پہلے میں فیڈریشن کے سینئر نائب صدر کی حیثیت سے بزنس مینوں کا ایک وفد مراکش لے کر گیا تھا جہاں مراکش میں پاکستان کے سفیر حامد اصغر خان نے وفد کو تنجیر ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کا معائنہ کرایا تھا جہاں فرانس کی معروف کارساز کمپنیوں رینوٹ، پیجو اور سٹرون کی بنائی گئی گاڑیوںکی یورپ کیلئے شپمنٹ کی جارہی تھی۔ چین اور مراکش کی طرح بنگلہ دیش نے بھی اسپیشل اکنامک زونز کے ذریعے ایکسپورٹ میں اضافہ کیا ہے جن میں چٹاگانگ اسپیشل اکنامک زون قابل ذکر ہے۔میں نے پارلیمانی کمیٹی کے اعلیٰ عہدیداران کو بتایا کہ دھابیجی اسپیشل اکنامک زون، پورٹ قاسم کراچی سے22کلومیٹر سےبھی کم فاصلے پر قائم ہے جو پورٹ کی سہولت کےپیش نظر کارمینوفیکچررز کیلئے پرکشش ثابت ہوسکتا ہے۔ پورٹ قاسم میں ٹیکسٹائل سٹی کا پروجیکٹ کئی دہائیوں سے گیس کی عدم دستیابی کے باعث بند کرنا پڑا ہے لہٰذا دھابیجی ایکسپورٹ پروسیسنگ زون کی کامیابی کیلئے بجلی، گیس، پانی کی سپلائی اور ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام کے جدید انفرااسٹرکچر کا ہونا ضروری ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ وفاقی حکومت نے سوئی سدرن گیس کمپنی کو دھابیجی اسپیشل زون میں دسمبر 2021تک 15MMCFD گیس کی سپلائی کیلئے 429 ملین روپے مختص کئے ہیں۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت نے دھابیجی زون میں 250میگاواٹ بجلی کے گرڈ اسٹیشن کی تعمیر کیلئے 4.3 ارب روپے مختص کئے ہیں جو 2023ء تک مکمل ہوگا۔ اِسی طرح حکومت سندھ نے دھابیجی زون کو یومیہ 10 ملین گیلن پانی کی سپلائی کیلئے کراچی واٹر بورڈ سے معاہدہ کیا ہے۔ کراچی چیمبر کے صدر شارق وہرہ نے پاکستان کے صنعتی، معاشی اور فنانشل حب کراچی میں خراب انفرااسٹرکچر اور حکومتوں کی شہر کیلئے عدم دلچسپی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ حکومت نئے زون ڈویلپ کرنے کے بجائے موجودہ زون کی ابتر حالت کو بہتر بنائے۔ میں نے سی پیک پر قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی کو بتایا کہ میرے خیال میں سی پیک کے مختلف مراحل میں اسپیشل اکنامک زونز وہ اہم مرحلہ ہے جس سے چین سے صنعتوں کی منتقلی، نئی ملازمتوں کے مواقع اور ایکسپورٹس میں اضافہ کیا جاسکتا ہے لیکن اس کیلئے ہمارے صنعتکاروں کو چین سے ایسے جوائنٹ وینچر کرنا ہوں گے جن کے تحت چین، امریکہ کی اضافی کسٹم ڈیوٹیوں سے بچنے کیلئے پاکستان سے ایکسپورٹ کرے۔
چین کی کامیابی کی ایک وجہ اس کی صنعتوں کا بڑا اکانومی آف اسکیل ہونا بھی ہے جس کا اظہار صنعتوں کی منتقلی کے سلسلے میں آنے والے چینی وفود نے مجھ سے فیڈریشن ہائوس اور بیجنگ میں متعدد بار کیا۔ چین میں ایک اسپننگ مل کا سائز 10 لاکھ اسپنڈلز ہوتا ہے جبکہ پاکستان میں بڑے سے بڑی اسپننگ مل ایک لاکھ اسپنڈلز کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے چین کی مینوفیکچرنگ لاگت پاکستان کے مقابلے میں کم ہے۔ چین کا گلوبل مارکیٹنگ نیٹ ورک پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے جس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہئے اور SEZs میں چین کے جوائنٹ وینچرز سے بننے والی مصنوعات کو چین کے گلوبل مارکیٹنگ نیٹ ورک کے ذریعے ایکسپورٹ کرکے ہم اپنی ایکسپورٹ میں خاطر خواہ اضافہ کرسکتے ہیں۔