پی پی پی نے سینیٹ میں فاؤل پلے کے ذریعے اپنا اپوزیشن لیڈر منتخب کراکر اپوزیشن کے اتحاد پی ڈی ایم میں زلزلہ تو برپا کرلیا تاہم وہ اب اس زلزلے کے آفٹرشاکس کا سامنا کررہی ہے مریم نواز کے تندوتیز بیان کے بعد بلاول بھٹو نے نسبتاً نرم زبان استعمال کی۔تاہم بعدازاں پی پی پی کی خواتین پارلیمنٹرین کے ذریعے پی ایم ایل(این) پر گولے بھی داغے۔ این اے 249 کی انتخابی مہم کے سلسلے میں آئے ہوئے مسلم لیگ خیبرپختون خواہ کے صدرامیرمقام نے میڈیا سے گفتگواورپریس کانفرنس میں واشگاف الفاظ میں کہہ دیا کہ پی پی پی اب پی ڈی ایم کا حصہ نہیں اپوزیشن کی اس توڑ پھوڑ اور بداعتمادی اوراختلافات نے اگرچہ حکومت کی مشکلات میں ایک جانب سے خطرہ کم کردیا ہے تاہم مہنگائی ، کورونا اتحادیوںکی بیساکھی پر کھڑی کمزورحکومت اب بھی مشکلات کا شکار ہے۔
پی پی پی اور پی ایم ایل(ن) کے درمیان تلخی کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ پنجاب کو ایک کٹھ پتلی کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جاسکتا۔ پنجاب حکومت پر پہلا حق حمزہ شہباز کا ہے لیکن اگر اسے وزیراعلیٰ نہیں بنانا تو چودھری برادارن سے بات کرنا ہوگی۔ میڈیا سیل بلاول ہاوَس کراچی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی چیئرمین نے کہا کہ وہ پی ڈی ایم کو بچانا چاہتے ہیں، جبکہ 5 اپریل کو پارٹی کی سینیٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے اجلاس میں پی ڈی ایم کے حوالے سے فیصلے کیےجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا جواب نہیں دیں گے۔ وہ مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کے دیگر رہنماوَں کا احترام کرتے ہیں۔ دوسری جانب این اے 249 کے ضمنی انتخاب میں دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ پی ڈی ایم تاحال مشترکہ امیدوارکا فیصلہ نہیں کرسکا اس حلقے سے پی پی پی، مسلم لیگ(ن)، جے یو آئی، اے این پی،پی ٹی آئی ، تحریک لبیک، ایم کیو ایم،پاک سرزمین پارٹی سمیت دیگر جماعتیں حصہ لے رہی ہے ممکنہ طور پر جے یو آئی مسلم لیگ(ن) کے امیدوار کی حمایت کرسکتی ہے جبکہ اس حلقے میں پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال بھی موجود ہیں خیال کیا جارہا ہے کہ اس حلقے سے مصطفیٰ کمال میدان مارلیں گے، اپوزیشن جماعتیں منتشر ہے اور مسلم لیگ (ن) کے امیدوار مفتاح اسماعیل کا تعلق اس حلقے سے نہیں اور ناہی وہ اور پی ٹی آئی کے امیدوار اس حلقے میں عوامی پذیرائی رکھتے ہیں تاہم یہ تووقت ہی بتائے گا کہ میدان کس کے ہاتھ لگتا ہے ادھر ایم کیو ایم نے 18 مارچ کے بجائے 25مارچ کو اپنا 37 واں یوم تاسیس نشترپارک میں منعقد کیا شرکاء کی حاضری کے لحاظ سے یہ کوئی بڑاعوامی شو نہیں تھا۔
یوم تاسیس سے خطاب کرتے ہوئے ایم کیو ایم کے کنوینرڈاکٹرخالدمقبول صدیقی نے کہاکہ ملک میں فوری نئی مردم شماری کرائی جائے انہوں نے کہاکہ ہم سندھودیش، پاکستان مردہ باد کہنے والوں اور آزاد کراچی کا نعرہ لگانے والوں پر لعنت بھیجتے ہیں۔ سینئرڈپٹی کنوینرایم کیو ایم پاکستان عامرخان نے کہاکہ آج پاکستان میں 100 سے زائد سیاسی جماعتیں کام کررہی ہیں ، کوئی دائیں بازواور کوئی بائیں بازو کی سیاست کررہا ہے اور ان کے پاس ہزاروں کارکنان ہیں لیکن جو ظلم ایم کیو ایم کے کارکنان کے ساتھ روا رکھے گئے وہ کسی اور جماعت کے کارکن کے ساتھ کبھی نہیں ہوا، ہمارے کارکنوں کے ماورائے عدالت قتل کے ذریعے شہرکی گلیاں رنگین کی گئیں، کارکنان لاپتہ کئے گئے، گرفتار کئے گئے، ہم نے کبھی جہاز اغوا نہیں کیا، ہم نے کبھی یہ نہیں کہا ہم بھارت کے ٹینکوں پربیٹھ کر آئیں گے، ہم نے پہاڑوں پر چڑھ کر ہتھیار نہیں اٹھائے، ہماراقصور یہ ہے کہ ہم نے غریب ومتوسط طبقے کے عوام کے حقوق کی بات کی ہے میں بتادینا چاہتا ہوں کہ ظلم کے دن ختم ہونے کو ہیں۔
یوم تاسیس سے قبل ایم کیو ایم پاکستان کے سینئرڈپٹی کنوینرعامرخان نے کہاکہ وفاق کے ساتھ تین سال سے ہیں لیکن وفاق نے کوئی وعدہ پورا نہیں کیا اگر یہی صورتحال رہی تو اتحاد پر کوئی فیصلہ کرسکتے ہیں ادھر جماعت اسلامی کراچی کے تحت قائدآبادسے گورنرہاؤس تک حقوق کراچی ریلی نکالی گئی جس سے خطاب کرتے ہوئے امیرجماعت اسلامی سراج الحق نے کہاکہ کراچی آج بھی 25سو ارب سالانہ ریوینو ملک کو دیتا ہے لیکن افسوس کہ اس شہر کے اپنے لوگ بے روزگار،پیاسے اور بنیادی سہولیات سے محروم ہیں یہ اہل کراچی کے ساتھ بڑا ظلم اور ناانصافی ہے جسے ہم کبھی برداشت نہیں کریں گے۔
کراچی کے عوام کا مطالبہ ہے کہ یہاں پر مردم شماری دوبارہ کرائی جائے کیونکہ شہر کی آبادی تین کروڑ ہے اور حکمران کہتے ہیں کہ دو کروڑ بھی پوری نہیں ہے،جب کراچی کی آبادی درست شمار نہ ہو تو پھر اس کے مسائل کیسے حل ہوسکیں گے اور ان کو ضرورت کے مطابق وسائل کیسے مل سکیں گے،ہم اہل کراچی کے مطالبے کے حق میں ان کے ساتھ کھڑے ہیں،کراچی میں بلدیاتی ادارے مفلوج کیے گئے ہمارا مطالبہ ہے کہ کراچی میں ایک بااختیار شہری حکومت قائم کی جائے،کراچی میں طویل عرصے سے کوئی نئے عوامی فلاحی منصوبے نہیں بنائے گئے، تفریح گاہیں، کوئی پارک نہیں بنے، یہاں کی سڑکیں تباہ ہیں،عوام کو ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں،گردو غبار کی وجہ سے شہری روزانہ اذیت اور کرب کا شکار ہوتے ہیں، ڈپریشن، معدے، یرقان اور دیگر بیماریاں بڑھ رہی ہیں، جماعت اسلامی کا مطالبہ ہے کہ اہل کراچی کوپینے کا صاف پانی دیا جائے۔
عوام کے لیے ٹرانسپورٹ کا موثر نظام بنایا جائے، یہاں تعلیمی اداروں کا بھی برا حال ہے شہر کی آبادی تو دگنی ہوگئی لیکن نہ کوئی نیا اسپتال بنا اور نہ کوئی نئی یونیورسٹی بنی۔اہل کراچی نے ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کی حکومت کو دیکھا ہے اورگزشتہ 11سودنو ں سے پی ٹی آئی کی حکومت کوبھی دیکھ رہے ہیں جس میں ایم کیو ایم بھی شامل ہے لیکن عوام کے مسائل جوں کے توں ہیںجماعت اسلامی کی ریلی گرچہ کامیاب ریلی تھی تاہم یہ سوالات بھی اٹھائے جارہے ہیں کہ ریلی وزیراعلیٰ ہاؤس کے بجائے گورنرہاؤس کیوں لائی گئی اور کل سینیٹ میں پی پی پی کو ووٹ دینے والی جماعت آج پی پی پی پر تنقید کررہی ہے۔